مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے

کورونا وائرس کی عالمی وبا نے جس طرح پوری دنیا کی معیشت کو نقصان پہنچایا بالکل اسی طرح تعلیم کے نظام کو بے حد متاثر کیا کہیں آن لائن کلاسز کے نام پر خانہ پوری کی جانے لگی تو کہیں مکمل طور پر تعلیمی سلسلہ بند دیکھا گیا۔کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کے باعث پاکستان میں ہوئے تعلیمی فیصلوں اور اقدمات کو بیان کرنے سے پہلے کچھ تعلیم کی اہمیت اور منظر بتانا چاہوں گی۔تعلیم اپنے وسیع تر معنوں میں وہ حقیقت ہے جس کے ذریعے لوگوں کے کسی گروہ کی عادات اور اہداف ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل کرتے ہیں۔ اپنے تکنیکی معنوں میں اس سے مراد وہ رسمی طریقہ کار ہے جس کے ذریعے ایک معاشرہ اپنا مجموعی علم، ہنر، روایات اور اقدار کو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کرتا ہے اور عموماً یہ درس گاہ میں کی جانے والی تربیت کہلاتی ہے۔شاعر مشرق علامہ اقبال کی اگر بات کی جائے تو اقبال نے تعلیم کے عملی پہلوئوں پر کچھ زیاد ہ نہیں لکھا مگر ان کے افکار سے ایک تصور تعلیم ضرور پیدا ہوتا ہے۔ جس کو اگر مرتب کر لیاجائے تو اس پر ایک مدرسہ تعلیم کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔پاکستان جب سے قائم ہوا ہے اس میں رائج دوہرا تعلیمی معیار ہمیشہ سے ہمارے ملک کا المیہ رہا ہے۔سرکاری اور غیر سرکاری تعلیمی اداروں کا وجود ، ملک میں ہونا قطعا” غلط نہیں مگر حصول تعلیم کے دو ذرائع اگر احساس برتری اور احساس کمتری کا باعث بن جائیں تو یہ قوموں کے حق میں مناسب نہیں ہوتا پاکستان کے سرکاری تعلیمی اداروں میں بہتر تعلیم نظام نہ ہونے کے باعث لوگ اپنی اولاد کو پرائیوٹ اسکول میں داخل کرواتے ہیں مگر جو بچے سرکاری اسکول جاتے ہیں وہ اکثر پیلے اسکول کے طلبہ کے نام سے پکارے جاتے ہیں۔پرائیوٹ اسکولوں میں بھی اب دو طرح کے اسکول موجود ہیں ایک وہ جو گلی محلوں میں کم فیس پر بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں دوسرے وہ پرائیوٹ اسکول جو منہ مانگی فیس وصول کر رہے ہیں۔ہمارے وطن عزیر پاکستان میں آج بھی کئی شہر اور دیہات ایسے ہیں جہاں اس دور میں بھی لڑکیوں کی تعلیم کی شدید مخالفت کی جاتی ہے جبکہ کچھ مقامات پر سیاسی وڈیروں اور جاگیر داروں نے تعلیم کی فراہمی عوام تک پہنچنے میں اسلئے رکاوٹ ڈال رکھی ہے تاکہ وہ غریب پر حکومت کر سکیں اور تعلیم حاصل کرنے کے بعد انسان میں جو ظلم کے خلاف بولنے اور حقوق کیلئے سوالات کرنے کا شعور اور حوصلہ پیدا ہوتا ہے وہ اجاگر نہ ہو سکے۔ظالموں کی اس سوچ نے یہ ثابت کر دیا کہ تعلیم عقل و شعور کے ساتھ حوصلہ دیتی ہے اور انسان کی زندگی کے نئے دروازے کھولنے کا سبب بنتی ہے۔ تعلیمی دروازے بند کر دینا قوم کو غلام بنانے جیسا ہے۔آج میرا دل بھی یہ سب دیکھ کر روتا ہے جب میرے وطن عزیر میں کورونا وائرس کی وبا آنے کے بعد پاکستانی بچوں کی تعلیم کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔بے شک کورونا وائرس کے خطرے نے ہمارے نظامِ تعلیم کو بہت متاثر کیا مگر ہم جس ملک میں رہتے ہیں یہاں ہنگامی حالات کوئی نئی یا انوکھی بات نہیں بلکہ ہم مختلف حالات کے عادی بن چکے ہیں جس طرح پاکستان میں 26 فروری 2020 کو اچانک سندھ حکومت کی جانب سے سرکاری اور غیر سرکاری تعلیمی ادارے بچوں کی حفاظت کیلئے بند کیے گئے وہ اچھا فیصلہ تھا مگر مستقل حد نہیں۔ زندہ قومیں مشکل حالات میں بھی کسی نہ کسی طرح اپنے مسائل کا حل نکال لیتی ہیں۔کورونا کی صورتحال کے باعث حالات ہمارے نظامِ تعلیم کے لیے آزمائش بن کر آئے اور اسکی اصل آزمائش یہی تھی کہ اب ہمارا نظامِ تعلیم اس کا کس طرح مقابلہ کرتا ہے۔دنیا بھر میں کورونا وائرس کے سبب تعلیمی ادارے بند کیے جانے کے باعث آن لائن تعلیم کو عام کیا گیا کورونا وائرس کے خطرے نے ہمارے نظامِ تعلیم کو خاصا متاثر کیا۔پاکستان سمیت پوری دنیا پر کورونا وائرس نے اپنی دہشت پھیلائی اور کورونا وائرس سے بچاؤ کی خاطر اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں بند کیے جانے کے بعد سعودی گھر اسکولوں میں تبدیل ہوگئے۔جبکہ مختلف ممالک میں طلبہ نے آن لائن تعلیم کی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے گھروں میں کورس مکمل کرنا شروع کردیا اور مواصلاتی کمپنیوں نے طلبہ کو انٹرنیٹ کی مفت سہولت فراہم کی۔ پاکستان کی یونیورسٹیوں کے پاس آن لائن کلاسز کا بہتر نظام نہ ہونے کے باعث انٹرنیٹ پر پہلے سے موجود ذرائع جس میں گوگل پلس، زوم، یوٹیوب سمیت سوشل میڈیا ایپلیکیشنز کا سہارا لیا جانے لگا۔ہمارے ملک میں متبادل طریقے کی آزمائش یا تجربے کا وقت سب کیلئے یکساں بن کر نہیں آیا جس کے نتیجے میں آج مختلف سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا پر والدین اور عملے کے درمیان لڑائیاں ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔کورونا وائرس کی آزمائش کی موجودہ صورتحال نے ہمیں اس بات کا احساس دلایا ہے کہ اب ہمیں ٹیکنالوجی کے تقاضوں کے مطابق اپنے معیار کو بلند کرنا ہوگا اور پاکستان میں معیار تعلیم اور تعلیم کے فروغ دونوں کیلئے کام کرنا ہو گا۔کورونا وائرس کے باعث پاکستان کے مختلف تعلیمی اداروں کے اساتذہ فاقے کرنے پر مجبور ہو گئے اور کسی نے پھل بیچنا شروع کر دیئے تو کسی نے کوئی اور مزدوری شروع کر دی۔یہ تمام مشکلات دوہرے نظام تعلیم کی وجہ سے پیش آئیں۔پاکستان میں بیشتر مقامات پر بڑے نام والے اسکولوں کو والدین پریشان ہونے کے باوجود فیسیں ادا کرنے پر مجبور ہیں جبکہ جو گلی ، محلے اور کرایہ کی عمارتوں پر اسکول موجود تھے انکے بند ہونے کے باعث اساتذہ بے روزگار اور طالب علم آن لائن ایجوکیشن کے آسرے سے بھی محروم ہیں۔پاکستان کے مختلف صوبوں کے طالب علم اپنے گھریلو حالات دیکھتے ہوئے آن لائن ایجوکیشن اور بھاری فیسوں کے بوجھ تلے دبنے کے بعد سوشل میڈیا پر مختلف کیمپین چلاتے ہوئے نظر آتے ہیں طالب علم سوشل میڈیا پر یہ کہہ رہے ہیں کہ یونیورسٹیاں انہیں آن لائن تعلیم فراہم کرنے میں ناکام ہو گئی ہیں، اس لیے انہوں نے فیس کی جو رقم ادا کی تھی، وہ انہیں واپس کی جائے۔جبکہ جونیئر کلاسز طالبات کے والدین کا کہنا یہ ہے کہ آن لائن کلاسز کے نام پر ہمیں بچوں کے اسائمنٹ بھیج کر فیس وصول کی جا رہی ہے جبکہ نئے کورس کی فراہمی بھی ممکن نہیں ہو سکی ہے جب ہنگامی بنیادوں پر اسکول بند کیے گئے تھے اس وقت زیادہ تر سالانہ امتحانات ہونے والے تھے اور سال ضائع نہ ہونے کے پیش نظر ہی بچوں کو اگلی کلاس میں بغیر امتحان دیئے پروموٹ کر دیا گیا تھا جبکہ نویں، دسویں ، گیارہویں اور بارہویں جماعتوں کے طالب علم اس فیصلے کو میرٹ کا جنازہ کہتے ہیں اور کئی طالبات کا کہنا ہے کہ دن رات تعلیم کیلئے محنت کی اب سب کو برابر دیکھ کر کتابوں میں دل نہیں لگتا۔کورونا وائرس نے تنگی ، مفلسی سمیت ذہنی اور نفسیاتی بیماریوں کو بھی بڑھایا ہے مگر پاکستان میں تعلیم کیلئے کوئی بہتر لائحہ عمل تیار نہ ہونے کے باعث والدین شدید ذہنی تناؤ کا شکار ہیں عام مڈل کلاس عوام بھاری اسکول فیس کی ادائیگی کے ساتھ آن لائن ایجوکیشن،وائی فائی کا بل اور کمپیوٹر کے چلنے سے دوڑتے بھاگتے بجلی کے بل کا اضافی بل ادا کرنے سے قاصر ہے خاص کر اگر گھر میں تین سے چار بچے موجود ہوں تو وہاں یہ سب کرنا ناممکن ہے ایسا لگتا ہے کہ سارا بوجھ والدین پر ڈال دیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے مطابق، کرونا وائرس کی عالمی وبا سے دنیا بھر میں 72 فیصد بچوں کی تعلیم متاثر ہوئی ہے اور اب وہ تعلیم غیر روایتی طریقوں کے ذریعے حاصل کر رہے ہیں۔اب جب کہ بہت سے ممالک میں لاک ڈاؤن ختم ہو رہا ہے تو اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں بھی کھل رہی ہیں۔دنیا کے مختلف ممالک اور شہروں میں ایس او پیز کے ساتھ تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کیلئے تعلیمی اداروں کو کھول دیا گیا ہے جس میں بنکاک ، تائیوان، ہانگ کانگ،برلن، چین، اسرائیل، جرمنی ، ویتنام، تھائی لینڈ اور بیشتر شامل ہیں۔ایس او پیز کا مطلب بنیادی طور پر ایسے اقدامات یا ایسا طریقہ کار وضع کرنا ہے جس پر عمل کر کے کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکا جائے۔ پاکستان میں ایس او پیز قومی ادارہ صحت نے دیگر محکموں اور اداروں کی مدد سے تیار کیے ہیں اور انھیں وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اپنے اپنے طور پر جاری کیا ہے۔ قومی ادارہ صحت کی ویب سائٹ کے مطابق اب تک دو درجن کے قریب ایسے ایس او پیز جاری کیے جا چکے ہیں۔ان ایس او پیز یا رہنما اصولوں میں کورونا وائرس کے بارے میں نئے اور حیران کن انکشافات سامنے آنے کے بعد ترامیم کی جا رہی ہیں۔جبکہ کورونا لاک ڈاؤن کے باعث بند کیے گئے تعلیمی ادارے ستمبر کے پہلے ہفتے میں سخت ایس او پیز کے ساتھ کھولے جانے کے فیصلے پر غور کیا جا رہا ہے اور اسکو حتمی منظوری کے بعد باقاعدہ اعلان کیا جائے گا۔ وفاق اور صوبائی حکومتوں کو اب تعلیم کیلئے سنجیدہ ہونا پڑے گا میری اعلی حکام سے درخواست ہے کہ تعلیمی سلسلے کو سخت ایس او پیز کے ساتھ رواں کیا جائے اور ایس او پیز کے نام پر اسکول کھولنے کے بعد بچوں کے نت نئے انداز کے یونیفارم کا بوجھ غریب والدین پر نہ ڈالا جائے نہ ہی کورونا سے بچاؤ کے نام پر کلاسز کے جدید فرنیچر کیلئے بچوں کی فیس میں اضافہ کیا جائے بلکہ تعلیم کا پہیہ ایک بار پھر سے چلانے کیلئے حکومتی سطح پر کمیٹیاں تشکیل دی جائیں اور موثر اقدمات کر کے طالبات اور والدین کو ان مشکلات سے بچایا جائے تاکہ چھوٹے علاقوں کے اسکول بھی تعلیم جاری کر سکیں۔حالات کیسے بھی ہوں بچوں کو تعلیم سے محروم نہیں کیا جائے کیونکہ میرے وطن کا بچہ اگر خود پڑھے گا تو فخر سے کہ سکے گا کہ “مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا یے” اور اگر میرے پاکستان کے بچے تعلیم سے محروم رہے تو وہ اپنے علم سے دشمن کے بچوں کو کبھی نہیں بتا سکیں گے کہ تعلیم ظلم اور دہشت گردی کے خلاف جگمگاتی وہ شمع ہے جسے شہداء آرمی پبلک اسکول پشاور کے بچوں نے اپنا لہو دے کر روشن کیا جس ملک کے بچوں کی کتابیں لہو میں ڈوبنے کے باوجود انکے لب کہتے رہے لب پر آتی ہے دعا بن کے تمنا میری۔پاکستان کی تمام مائیں سانحہ آرمی پبلک کے شہداء کی ماؤں کے حوصلوں سے ہمت سیکھیں جو شہید کی ماں ہونے کے باوجود کورونا سے پہلے اپنے بچوں کو صرف اسلئے اسکول بھیج رہی تھیں کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ زندہ قومیں اپنی تقدیر خود بدلتی ہیں اور اسکا واحد حل تعلیم ہے۔سانحہ آرمی پبلک اسکول کے شہید بچوں کی شہادت رائیگاں نہیں جائے گی تعلیم کی شمع کو روشن کرنا ہو گا کیونکہ میں اور اس وطن کی مٹی سانحہ آرمی پبلک اسکول کے شہداء کو ہمیشہ سلام پیش کرتی ہے۔کورونا وائرس کے باوجود اگر شاپنگ کی جا سکتی ہے دنیاوی رسم و رواج پورے کیے جا سکتے ہیں تو تعلیم کیلئے اسکول اور دیگر درس گاہیں کھولنا بھی بے حد ضروری ہے۔آئیں عہد کریں ہمیں ہمارے بچوں کو پڑھانا یے میرے ملک کے بچے دشمن کو نفرت ، ظلم اور دہشت گردی کے خلاف صرف تعلیم کے ہتھیار سے پڑھا سکتے ہیں۔پاکستان زندہ باد۔پاک فوج پائندہ باد۔

جواب چھوڑ دیں