تھڑا سیاست

آج ماجھا بہت اداس تھا وہ تھڑے پر بیٹھے ہوئے شیدے،فقیرے،ساجھے اور گامے کے پاس آیا جو حقہ سلگا کر بیٹھے ہوئے تھے اور خوش گپیوں میں مشغول تھے۔آ یار ماجھے ،آج کیوں دیر سے آیا ہے اور یہ تیرے چہرے کا رنگ کیوں اڑا ہوا ہے، آج تو بہت اداس لگ رہا ہے۔اوے فقیرے،ساجھے،گامے اس کا چہرہ دیکھو کیا میں جھوٹ تو نہیں کہہ رہا۔شیدے نے ماجھے کے آنے پر اس سے پوچھا اور اپنی بات کی سچائی کے لئے دوستوں سے اس کی تصدیق چاہی۔
دوستوں نے شیدے کی بات کی تصدیق کی اور ماجھے سے پریشانی اور اداسی کی وجہ پوچھی۔ماجھے نے حقے کا دم بھرتے ہوئے ان سےکہا کہ میں ابھی خبریں سن کر آرہا ہوں ملک کی بڑی بری حالت ہے ،کورونا وائرس اور ٹڈی دل نے ملک میں تباہی مچائی ہوئی ہے ملک میں ہرطرف خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے۔اس موقع پر سیاست دانوں کی حالت یہ ہے کہ سب اپنی اپنی دکانیں چمکا رہےہیں انہیں غریب اور مجبور عوام کی فکر ہی نہیں۔
حزب اقتدار ملکی حالات کی وجہ سے پریشان ہے اور حزب اختلاف حکومت کھونے کی وجہ سے ، اس وقت حزب اقتدار کو حزب اختلاف کی حمایت کی اشد ضرورت ہے لیکن حزب اختلاف بغض عمران میں حب وطن کو بھول بیٹھی ہے اور عوام کے بجائے اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے۔فقیرے نے حقے کی نال ماجھے کے ہاتھ سے لیتے ہوئے ایک کڑاکے دار دم بھرا اور کہنے لگا ،پاکستان اس وقت واقعی وباؤں کی زد میں ہے۔ جن کی وجہ سے سارا ملک پریشان ہے خیر یہ دو وبائیں تو عارضی ہیں جنہوں نے اس وقت پاکستان میں تباہی مچائی ہوئی ہے اور انہوں نے عنقریب ختم بھی ہو جانا ہے۔
لیکن ایک مستقل وبا شروع سے پاکستان کے مقدر میں چلی آ رہی ہے جسے غدار کہتے ہیں اس وبا نے پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی ہے لیکن کسی نے اس کاسدباب نہیں کیا۔ یہ ایک ایسی وبا ہے جس نے بہت سے لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ گامے نے فقیرے کی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جہاں کورونا وائرس نے معیشت وصحت اور ٹڈی دل نےزراعت کوتباہ وبرباد کر کے رکھ دیا ہے وہاں غداروں نے ملک کوبرباد کر کے رکھ دیا ہے۔ ساجھے نے بھی حقہ پیتے ہوئے گامے سے کہا کہ ایک بات میری بھی کان کھول کر سن لے، پاکستان ایک ایسا پھل دار درخت ہے جس پر قدرت خداوندی سے ہرطرح کا پھل لگتا یے اسے اگر کوئی اچھا مالی مل جاتا تو اس پر لگے ہوئے پھلوں سے پاکستانی قوم ہی نہیں بلکہ اقوام عالم بھی لطف اندوز اور فیضیاب ہوتیں، لیکن بدقسمتی سے اسے جو بھی مالی ملا وہ غدار ہی ملا۔
ماجھے تیری پریشانی بالکل بجا ہے۔ ساجھے نے گامے سے توجہ ہٹاتے ہوئے ماجھے سے کہا۔
کورونا وائرس سے تو جو لوگ مر رہےہیں وہ تو مر ہی رہےہیں لیکن عنقریب جو لوگ بھوک سے مریں گے ان کوسنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔ ٹڈی دل  قدرت کا عذاب ہے جو کھیتوں کے کھیت اور باغوں کے باغ چٹ کر گیا ہے۔ سندھ اورجنوبی پنجاب میں اس نےحملہ کر کے کپاس پھل اور سبزیوں کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ یار کیا حکومت سوئی ہوئی ہے ،کیوں نہیں ایسے اقدامات کرتی کہ کورونا اورٹڈی دل کا فوری خاتمہ ہو۔ ماجھے نے ساجھے سےکہا۔ اوے تو مجھے کسی مخالف پارٹی کا لگتاہے۔ فقیرے نے ماجھے سے کہا۔ فقیرے نے بیچ میں دخل اندازی کرتے ہوئے کہا کہ ان وباؤں پر قابو پانا صرف حکومت کا کام نہیں بلکہ عوام کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ حکومتی احکامات پر عمل کرے اور حکومت کا ساتھ دے۔ یہاں بدقسمتی سے حزب اختلاف اپنی سیاست چمکانے کے لئے حکومت کے اقدامات کو رد کر رہی ہے اور عوام میں مایوسی پھیلا رہی ہے۔اس وبا کے خاتمے کے لئے حکومت کا دست و بازو نہیں بن رہی ۔
تم نے ایک اور انوکھی اور نرالی بات سنی یے۔شیدے نے گامے سےکہا۔ نہیں یاد نہیں شاید سنی ہو ویسےکون سی ایسی انوکھی اورنرالی بات ہوئی جو تم بڑی حیرت سے پوچھ رہے ہو۔ گامے نے حقے کی ٹوپی میں تمباکو اور آگ کی حالت کو دیکھتے ہوئے کہا۔شیدے نے گامے سے کہاکہ پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے سارے لاہوریوں کو جاہل اور بےوقوف قرار دیا ہے۔ گاما بولا اور اس نے کہا ، شیدے بھائی یاسمین راشد نے کون سی کوئی نئی بات کر دی ہے یہ تو پرانا قصہ ہے شکر کرو اس نےصرف لاہور کو کہا ہے جس میں وہ خود بھی رہتی ہے یہاں تو الاماشاءاللہ پورے پاکستان کا یہ حال ہے۔گدھے اور مینڈک کھانے سے لاہوریوں میں ایسی صفات کا پیدا ہونا کوئی انہونی بات نہیں۔
سبھی نے ایک ساتھ بھرپور قہقہہ لگایا اور اتنے میں چھوٹا چائے لے کر آ گیا۔ فقیرے نے چھوٹے کو جھاڑ پلاتے ہوئے کہا کہ ایک گھنٹے بعد چائے لائے ہو کیا تمہارے استاد کا دماغ ٹھیک ہے، اسے کہنا آئندہ ایسی حرکت کی تو تیرا چائے کا اڈہ یہاں سے اٹھوا دوں گا۔ چل اوے۔۔۔۔۔ بچہ ہے تڑیاں نہ لگا اس کا استاد غریب آدمی ہے بچوں کے لئے روزی روٹی کما رہا ہے کمانے دے اسے۔شیدے نے فقیرے کو ڈانٹتے ہوئے کہا۔ساجھے نے چھوٹے سے پوچھا ویسے اتنی دیر کیوں لگائی ہے تم نےاب تو چائے کانشہ بھی ٹوٹ گیا ہے۔ چھوٹے نے کہا چاچا وہ ڈرامہ لگا ہوا تھا ناں” اغرل” وہ دیکھتے ہوئے دیر ہوگئی۔
چھوٹے کے منہ سے یہ نیا نام سن کر سب کی ہنسی چھوٹ گئی۔
یہ” اغرل” کون سا ڈرامہ ہے۔ ماجھے نے پوچھا، ساجھے نےماجھے کو بتایا کہ ترکی کاتاریخی ڈرامہ ہے کوئی، یہ چھوٹاتواس کا غلط نام بتا رہا ہے اس کا نام تو کچھ اور ہے۔ ” ارطغرل”…فقیرے نے اصلاح کرتے ہوئے انہیں ڈرامے کا نام بتایا۔اوئے آج کل تم پاکستانی ڈرامے دیکھ رہے ہو،گامے نے اپنے دوستوں سے پوچھا؟ ہاں۔۔۔۔ آج کل بڑے مزے کے ڈرامے لگے ہوئے ہیں، شیدے نے چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئےکہا۔ خاک،مٹی تے کٹہا۔۔۔۔۔۔۔ اتنے بے غیرت ڈرامے تو میں نے اپنی 70 سالہ زندگی میں کبھی نہیں دیکھے تھے، یہ قیامت نہیں تو اور کیا ہے یہاں اللہ کورونا وائرس اور ٹڈی دل جیسے عذاب نہ بھیجے تو اور کیا بھیجے۔
اب سنو پاکستانی ٹی وی چینلز کی ڈرامہ بازیاں۔۔۔۔۔۔۔ARY ٹی وی پر دو ڈرامے چل رہے ہیں جو پاکستانی قوم کےلئے کورونا وائرس سے کم نہیں جو اخلاقیات کا جنازہ نکال رہے ہیں ۔ان ڈراموں میں ایک “جَلن” ہے جس میں بہن اپنے بہنوئی پر فدا ہے اور دوسرا “عشقیہ “ہے جس میں بہنوئی سالی پر مر مٹ رہا ہے۔ پھر Geo ٹی وی پر چلے جائیں وہاں “دیوانگی” نے بے غیرتوں کو دیوانہ بنایا ہوا ہے جس میں باس اپنے ملازم کی بیوی پر عاشق ہے۔ پھر اس کے بعد Hum TV پر آجائیں وہاں “پیار کے صدقے” میں سسر اپنی بہو پر فدا ہے اور “دلربا” ڈرامےمیں ایک لڑکی کا ایک ساتھ چار افراد کے ساتھ عشق پیچا لڑ رہا ہے۔
اب آپ سب دیکھ لو یہ ہمارا اسلامی کلچر ہے، کیا پاکستان کا یہی مطلب تھا؟؟؟ ہمارے رائیٹرز، پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز اتنے مردہ ضمیر ہو گئے ہیں کہ ان میں شرم وحیاء ہی باقی نہیں رہی۔ کیا ان کے اپنے گھروں کا کلچر ایسا ہی ہے جیسا یہ قوم کو دکھا رہے ہیں…؟؟؟

جواب چھوڑ دیں