خطرے کا خوف خطرے سے زیادہ

کارزار زندگی میں روپ بدل بدل کر یہ کہانی لوگوں کی رہنمائی کیلئے سنائی جاتی ہیں ۔ اگر چہ بچپن کی کہانیاں سہی لیکن معاشرتی اور ذاتی زندگی میں ان کی اہمیت یکساں ہوتی ہے ۔ آج میرے دوست میں وہی سبق والی ذرا مختلف کہانی سنائی سوچا آج کے حالات میں لوگوں کو نہ صرف خود سمجھنا بلکہ اپنے بچوں کو بھی سمجھا نا ضروری ہے ۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ ایک بڑا سانپ تھا جو اپنے زہر کی بڑی تعریف کررہا تھا کہ میرا  ڈسا پانی نہیں مانگتا مطلب فوراً مر جاتا ہے ۔ قریب ہی ایک مینڈک اس کا مذاق اڑا رہا تھا کہ لو گ تیرے ـ”خوف “سے مرتے ہیں تیرے” زہر” سے نہیں ۔ دونوں کا مقابلہ لگ گیا ۔ طے پایا کہ کسی راہگیر کو سا نپ چھپ کر کاٹے گا ۔ دوسرے راہگیر کو مینڈک چھپ کر کاٹے گا مگر سانپ سامنے آئے گا اور جب سانپ کا ٹے گا تو مینڈک راہگیر کے سامنے آئے گا ۔ اتنے میں ایک  راہگیر کا گزر ہوا ۔ اس مسافر کو سانپ نے چھپ کر کاٹا جبکہ ٹا نگوں سے مینڈک پھدک کر نکلا ۔ راہگیر نے مینڈک دیکھ کر اپنا زخم کھجا کے تسلی سے چل پڑا کہا خیر مینڈک ہی تھا کیا فرق پڑتا ہے ۔ دونوں اسے دور تک جاتا دیکھتے رہ گئے وہ صحیح سلامت چلا گیا ۔ دوسرے راہگیر کو مینڈک نے چھپ کر کاٹا اور سانپ پھن پھیلا کر سامنے آگیا ۔ مسافر پیچارہ سانپ کی دہشت  سے فوری مر گیا ۔ دنیا میں ہر روز ہزارہا افراد مرتے ہیں جن کو دیگر امراض ہوتے ہیں یا یقین جانئے کوئی بھی مرض نہیں ہوتا جبکہ کرونا کی شرح اموات کا عشر عشیر بھی نہیں ہے لیکن سوشل میڈیا اور کچھ وہمی افراد مایوسی پھیلا رہے ہیں ۔ کچھ لوگوں کی ایمانی کمزوری اور ذاتی بزدلی ہے جسکی وجہ سے مزیدمایوسی اخلاقی برائیاں اور خاندانی دوریا ں اور نفسیاتی بیماریاں جنم لے رہی ہیں اور معاشرے کے امن کو غارت کر رہی ہیں ۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی مسلمان موت سے نہیں ڈرا جب موت اٹل ہے حقیقت ہے ، پیغمبروں ، ولیوں کو آتی ہے تو کرونا سے کیسے ڈرنا ، احتیاط لازم ہے لیکن خوف کو خود سے الگ کردیں کیونکہ خطرے کا ڈر ہی خطرے سے کئی گنا زیادہ ہوتا ہے ۔ خوف اورمایوسی سے انسان کی قوت مدافعت کم ہوجاتی ہے ۔ جو کسی بھی بیماری سے لڑنے کیلئے ضروری ہوتی ہے ۔ کرونا کے ہزاروں مریض صحت یاب ہوچکے ہیں اور صحت یاب ہورہے ہیں ۔ موت تو صرف اسکو آتی ہے جسکی زندگی کے دن پورے ہوچکے ہیں ۔ نہ ایک لمحہ آگے نہ پیچھے یہی تو انسان کو نہیں معلوم کب کہاں کیسے مرے گا ؟ ابھی پچھلے دنوں ہمارے ایک ماموں جان جو پچھلے کئی سال سے کینسر کے مرض سے شفایاب ہو چکے تھے۔ پھر بلڈ پریشر اور شوگر نے ادھ موا کردیا تھا بینائی اور سماعت زیادہ متاثر تھی نوے سال میں بھی باہمت تھے مگر گھٹنوں کی  تکلیف سے بے چین تھے ڈیڑھ دو ماہ پہلے انکی اہلیہ کا انتقال ہو چکا تھا جنہیں وہ کافی یاد کرتے تھے پھر اچانک کرونا ہوا اور سولہ سترہ دن بعد انتقال ہو گیا ساری احتیاطی تدابیر دوا دعا سب ساتھ مگر سبحان اللہ اس وبائی موت نے شہادت کا درجہ دے کر مزید معتبر اور ممتاز کردیا ۔ وہ ریٹائرڈ برگیڈیئر تھے ۔ اللہ تعالیٰ انکی مغفرت فرمائے ۔ (آمین)

بے شک کرونا چھوت کا مرض ہے ایک دوسرے کو لگتا ہے ۔ احتیاط ضرور برتیں لیکن اس خوف کو ذہن میں بٹھا کر موت سے پہلے اپنی موت کو بدتر نہ کریں ۔ جینے کی امنگ خود میں پیدا کریں گے تو وائرس آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔ آواز خلق نقارہ خدا  اللہ وہی دے گا جیسے کہ اللہ سے امید رکھتے ہو اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ وہ آپکی امنگوں پر پورا اترتا ہے ۔ مشکل کے وقت ایک دوسرے کی دلجوئی ، تعاون ہر طرح کی خدمات دعا ئیں ، صدقے خیرات، سچے اور پرخلوص جذبات اتنا بڑا حصار ہوتے ہیںجو بندے کو کھڑا کردیتے ہیں ۔ کرونا سے ڈرنا ہے نہ لڑنا ہے بلکہ ڈرنا صرف اور صرف اللہ سے ہے اور اپنے اعمال و افعال سے ڈرنا ہے ۔ اللہ کی پکڑ سے ڈرنا ہے اور امید ہمیشہ اچھی رکھنا ہے ۔ پر امید رہنا ہے یقینا اللہ ہماری نیتوں کو جانتا ہے اچھی امید رکھو گے تو اچھا ہی ہوگا انشاء اللہ ۔ اللہ ہم سب کا حافظ و ناصر ہر کسی کیلئے اور اپنے لئے ہر دم اللہ سے مدد مانگیں اور استغفار کے اس موقع کو اپنے لئے غنیمت جانیں ۔ ہر لمحہ اپنے موت کو یادرکھیں کیونکہ اس نے تو آنا ہی ہے ہمارا کام تو ہر وقت رب کو راضی رکھنا ہے ۔ ہر لمحہ ہر کام میں ہر وقت یہاں تک کے سوتے وقت بھی کیونکہ اللہ کے ہاتھ ہی میں ہے ہمارا سونا اور جاگنا اس لئے

سونے والے رب کو راضی کرکے سو

جانے کل تیری صبح ہونہ ہو

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی محبت عطا فرمائے اور ہماری توبہ استغفار کو قبول فرما کر ہمیں دونوں جہاں میں عافیت عطا فرمائے اور اس دنیا پر اپنا کرم رکھے ہمیشہ ! اور اپنے عذاب سے ہمیں اپنی پناہ میں رکھیں ۔ آمین  بے شک تیری رحمت تیرے غضب پر حاوی ہے پس ہمیں سیدھے راستے پر رکھ ہمارے اعمال کو نہیں اپنے رحم و کرم کو دیکھ ! اور اس دنیا کے امن کو بحال فرما ۔ آمین

جواب چھوڑ دیں