زندگی کا سفر

انسانی فطرت کے مطابق جب اسکے ہر عوامل اور دلی خواہشات پوری ہو رہی ہوں وہ خود کو بے حد خوش قسمت سمجھتا ہے جبکہ کوئی بھی مشکل اور امتحان آن پڑے تو وہ خود کو اس سے کئ درجے زیادہ بد قسمت اور بے بس تصور کرنے لگتا ہے اور یہ محسوس کرتے ہوئے کہ سب آفتیں اسی پر آن پڑی ہیں یا اسی کے لیے ہیں ہر شے سے دوری اختیار کر جاتا ہے.

در اصل انسان سکون کی تلاش لیے پھرتا ہے اور اسی کی زد میں اسکی خودی کے سوا کچھ بھی اسکے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا خواں وہ اسکے خون کا رشتہ ہو یا منہ بولا. اس وقت اس کے لیے سب سے اہم اور ضروری اسکی خودی دکھائی دیتی ہے. یہ سلسلہ کچھ اسطرح سے شروع ہوتا ہے کہ وہ اپنے عزیز و اقارب سے دور ہوتا ہے کسی بندش کی بناء پر یا اپنی خودی میں اپنے آپ کو ان سے دور جان کر پھر وہ کچھ عرصہ تک خود میں زندگی بسر کرتا ہے اور کسی ایسے کا متلاشی ہو جاتا ہے جس کے ساتھ اپنے اندر چھپے ہر واقعات کو سنا کر ہمدردی حاصل  کرکے سوالات کے جوابات پا کر خود کو سکون دلا سکے اور اس وقت اس کے لیے ہر وہ شخص اسکے قریب ہوتا ہے جو اسکی بات سنے اور اس کے غم میں شامل ہو وہ شخص اسکے نزدیک کسی سکون سے کم نہیں ہوتا اور وہ اس کو ہی سکون مان لیتا ہے.

” میں جس درخت کے سائے میں جاتا ہوں وہ درخت ہی سوکھ جاتا ہے

میں جس شخص کو منانے جاتا ہوں وہ شخص ہی روٹھ جاتا “ہے

کچھ عرصہ کے بعد اس کو اس شخص میں وہ سکون نظر آنا کم پڑ جاتا ہے اور وہ اپنا رستہ بدل کر کسی اور سکون کا متلاشی بن جاتا ہے اسی طرح وہ مختلف رنگ کے پھول دیکھ کر اپنے مقصد کا پھول چنتا ہے جس کا رنگ اس کی ان تمام باتوں اور سوالات کی عکاسی کر سکے وہ مختلف رنگ کے لوگوں میں سے اس پھول کو اہمیت دیتا ہے اور اسی طرح کچھ عرصہ دلچسپی سے گزر جاتا ہے اور رنگ میں تبدیلی دکھائی دینے لگتی ہے اور معمول کے مطابق رنگ بدل کر اک دوسرا رخ اختیار کر لیتا ہے اور اس دوران اسکے لیے سب سے پسندیدہ عمل متلاشی بن جانا لگتا ہے چونکہ وہ یہ عمل قابلِ تعریف محسوس ہوتا ہے اسکی خودی میں.

رفتہ رفتہ وہ انسان پہلے سے بھی زیادہ اکیلا تصور کرتے ہوئے واپس آنے کی راہ ڈھونڈ رہا ہوتا ہے.

چونکہ وہ بہت سے رنگوں میں سے گزر کر کچھ رنگ خود میں اپنا کر لوٹنے کا ارادہ کرتا ہے. پھر اسکی نظر کوئی بھی رنگ قبلِ اعتبار نہیں رہتا اور اسی طرح وہ خود کے ساتھ ہونے والے تمام تر واقعات کا استاد بن چکا ہوتا ہے اور وہ اپنی طرف آنے والے متلاشی کو دور سے پہچان لیتا ہے اور تمام تر اپنائے ہوئے رنگ اس کے ساتھ دہراتا ہے اور اصل رنگ اور اپنائے ہوئے رنگ میں کوئی فرق محسوس کیے بنا چلتا جاتا ہے اور اپنے اصل رنگ کو اپنے اندر کھو کر اپنائے ہوئے رنگوں کی وجہ سے کھلتا چلا جاتا ہے.

پھر اک دن ایسا آتا ہے کہ وہ لمحات کو گن گن کر گزارنے لگتا ہے اور اپنے اندر چھپے ہر سوال اور باتیں اندر ہی بھولنے لگتا ہے اور اپنے اصلی رنگ میں واپس لوٹنے کے بعد ہی رستے تلاش کرنا چھوڑ دیتا ہے اور اپنے وقت کو بتانے کے لیے طرح طرح کے عوامل کو اپناتا ہے اور دوسروں کی راہنمائی کی غرض سے جیتا ہے اسی دوران اک پل آن پھنچتا ہے کہ اس کے خود جیسے سے اس کا ٹکراؤ ہوتا ہے اور اس کو اس میں اپنا اصلی روپ دکھائی دیتا ہے اور وہ رفتہ رفتہ اسکے قریب سے قریب تر ہوتا چلا جاتا ہے اور بل آخر اس سے اپنے اندر چھپے سوالات اور باتوں کو جان پاتا ہے اور اک دوسرے کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے اور ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے وہ خود سے بات کر رہا ہو.. اور اس موڑ پر جو مل جائے وہ زندگی بھر کے لیے سکون پا لیتا ہے اور اگر نہ ملے تو زندگی بھر سب کچھ بھول کر اس کو اپنے اندر سنبھال لیتا ہے جو نہ تو کوئی سوال ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی بات. بلکہ ان سوالات اور باتوں کا عالم ہوتا ہے اور اسی کے ساتھ درد بھی خوشی سے سہ کر انسانی فطرت سے دور جا بستا ہے.

سوالات نہ رہے وہ باتیں نہ رہیں “

” اس دل میں بسائے عالم پھرتا ہوں

وہ عالم اس کا سکون بن چکا ہوتا ہے اور وہ عالم اس جیسا کوئی اور ہوتا ہے جو اسکو مل نہیں پاتا.

جواب چھوڑ دیں