عمران خان صاحب شیر بنیں شیر

جو بات تا حال سمجھ میں نہیں آرہی وہ یہ ہے کہ پاکستان میں حکومت کس کی ہے اور ملک کی سر براہی کس پارٹی کو حاصل ہے۔ صو بہ سندھ کے بہت سارے اقدامات نہ صرف حکومت کے خلاف ہیں بلکہ وہ وفاقی حکومت کے بیشمار احکامات ماننے کیلئے تیار بھی نہیں۔ پنجاب کا کچھ پتہ نہیں چل رہا ہے وہ وفاق کے ساتھ کھڑا ہے یا وفاق اس کے ساتھ ۔ یہی حال بلوچستان کا ہے اور کے پی کے کا بھی علم نہیں کہ اس کی پالیسیاں وفاق کی پالیسیوں سے ہم آہنگ ہیں یا سب کچھ ایک بے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت چلتا چلا جا رہا ہے۔

ملک کے وزیر اعظم کا حال یہ ہے کہ اب پورے ملک کے عوام ان کے اس اعلان سے تھرا جاتے ہیں کہ وہ فلاں معاملہ اپنے ہاتھ میں لے رہے ہیں یا فلاں مسئلے کی وہ خود نگرانی کرینگے یا وہ فلاں بحران کا نوٹس لینے والے ہیں۔ ہر وہ معاملہ جس کو وہ خود دیکھنے لگتے ہیں، اپنی نگرانی میں لینے کا دعویٰ کرتے ہیں یا “نوٹس” لینے کا اعلان، ایسے سارے معاملات ان کے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں اور اتنے بے قابو ہو جاتے ہیں کہ شاید وزیر اعظم کو راتوں کی نیندیں پوری کرنے کیلئے نیند کی گولیاں ہی استعمال کرنی پڑتی ہوں۔

کسی بھی پارلیمانی جمہوری حکومت کا سب سے بڑا عہدہ وزارت عظمیٰ کا ہی ہوا کرتا ہے۔ سب سے اعلیٰ عہدہ ہونے کے ناطے اس کا حکم حرف آخر ہی ہوتا ہے لیکن گزشتہ دو ڈھائی سال سے جو کچھ پاکستان کے عوام دیکھتے چلے آ رہے ہیں وہ ان سب کے بر عکس ہے۔ عالم یہ ہے کہ ان کے واضح احکامات تک اب نہ صرف ان کے وزرا ہواؤں میں اڑا دیتے ہیں بلکہ انتظامیہ تک ان کے احکامات ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے یوں اڑا دیتی ہے جیسے احکامات ملک کے کسی سربراہ کے نہیں، گلی کوچے میں پھرنے والے کسی مجذوب کے ہیں کہ جس پر توجہ دینا سخت نادانی ہو۔

گزشتہ دنوں پاکستان کے طول و عرض میں ڈیزل پٹرول کی مصنوعی کمی کا بحران پیدا ہوا۔ وزیر اعظم نے ایک ہفتے میں بحالی کا حکم جاری کیا لیکن پورے ملک میں مکھیوں کی بھنبھناہٹ کے علاوہ کچھ سنائی نہیں دیا۔ چینی بازار سے غائب ہونے پر سخت ترین نوٹس لیا گیا مگر معاملہ ٹس سے مس تک نہ ہوا۔ آٹا اونچی اڑان بھرنے لگا تو وزیر اعظم کے نوٹس پر کسی نے کان تک دھرنا گوارہ نہ کیا۔ بجلی کا بحران ان کیلئے بلائے جان بنا ہوا ہے اور وزیر اعظم کے احکامات نقار خانے میں طوطی کی آواز کی طرح ہے۔ انتہا یہ ہے کہ کورونا کے سلسلے میں وزیر اعظم کی جانب سے مکمل لاک ڈاؤن کے مخالفت پر صوبوں نے ان کے احکامات کو بالک ہٹ سے زیاہ اہمیت نہیں دی۔

یہ سارے حالات اپنی جگہ لیکن وزیر اعظم کی شکستہ دلی کی جس کیفیت کا اندازہ آج جسارت میں شائع ہونے والی اس خبر سے ہوا اس پر کوئی یقین کرے یا نہ کرے، میرا سر شرم سے جھک کر رہ گیا۔ شائع ہونے والی خبر کی شہ سرخی کچھ یوں ہے کہ “ذخیرہ اندوزوں کو پکڑیں یا سبسڈی دیں، غریبوں کو آٹا سستا فراہم کریں”۔ مزید تفصیل کچھ یوں ہے کہ “وزیراعظم عمران خان نے حکم دیا کہ چاہیں ذخیرہ اندوزی پکڑیں یا انھیں سبسڈی دیں، غریب کو آٹا سستا فراہم کیا جائے اور ہر حال میں آٹے کی قیمت پرانی سطح پر بحال کی جائے”۔

اب کوئی یہ بتائے کہ اس میں “حکم” والی بات کہاں سے آ گئی۔ یہ انداز تو ذخیرہ اندوزوں کے آ گے گھٹنے ٹیک دینے والا سا ہو گیا کہ ٹھیک ہے اگر وہ عوام کا لہو نچوڑ کر حاصل ہونے والی ٹیکسوں کی آمدنی سے اپنے پیٹوں کی دوزخ بھر کر (زرِ تلافی لیکر) عوام تک سستا آتا فراہم کرنے پر راضی ہو سکتے ہوں تو ان حرام خوروں کو راضی کیا جائے اور سستے آٹے کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ گویا وزارتِ عظمیٰ ان مافیاؤں کے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی سخت اور قانونی کارروائی کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ یہی سب کچھ ڈیزل مافیا کے سلسلے میں دیکھنے میں آیا اور اب یہی کچھ آٹا مافیا کے سلسلے میں سامنے آ رہا ہے۔ یہ انداز اس بات کا مظہر ہے کہ وزیر اعظم کہیں سے کہیں تک بھی اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ کسی بھی قسم کے چوروں، بدمعاشوں، لٹیروں، ذخیرہ اندوزوں، ملوں کے مالکانوں، زمینداروں، ملک کو لوٹ کر کھا جانے والوں اور کسی بھی نوعیت کی مافیاؤں کے خلاف سخت تادیبی کارروائیاں عمل میں لا سکیں علاوہ اس کے کہ ہر معاملے میں محض اپنی کرسی بچانے کی خاطر اپنے گھٹنے ٹیکتے رہیں۔ ٹھیک ہے، کرسی کسے عزیز نہیں ہوتی لیکن وہ یہ بات نہ بھولیں کہ یہ ساری بلائیں اور عفریت گھٹنے ٹکوانے کے بعد ان کو ناک رگڑوا دینے پر بھی مجبور کر دینگی۔ لہٰذا ضروری ہے کہ وہ “بلے” کی بجائے شیر بنیں اور شیر کے جیسی ایک دن کی عزت والی زندگی کو گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے افضل تر جانیں۔ سیم و زر اور جاہ و جلال عزت کے ساتھ ہی ہی تن و توش پر جچا کرتا ہے ورنہ انھیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ شہنشاہوں، قارونوں اور ہامانوں سے دنیا بھر کے قبرستان پٹے پڑے ہیں۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں