کرونا : حقیقت یا فسانہ

میرے خالہ زاد بھائی عبدالرؤف عرصہ چار سال سے روزگار کے سلسلے میں مسقط (عمان) میں  مقیم ہیں. کچھ دن پہلے ان سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ ان کا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا اور وہ اب قرنطینہ میں رہ رہے ہیں.پہلے تو صرف خبروں میں کورونا کی باتیں سنتے تھے مگر جب عبدالرؤوف سے بات ہوئی تو میرا کرونا سے متعلق علم الیقین عین الیقین میں بدل گیا .وہ کورونا کا شکار کیسے ہوئے اور کیا کیا علامات ان کو محسوس ہوئیں ہم میں سے اکثر وہ نہیں جانتے ہوں گے.کورونا سے متعلق زہر کا ٹیکہ, یہودی سازش , نینو چپ اور نہ جانے کیا کیا سازشی نظریات ہم پاکستانیوں کے ذہنوں میں سوشل میڈیا کے ذریعے ڈالی جاتی رہیں۔

میں تو پہلے بھی ان نظریات کا قائل نہیں تھا اور اس کے رد پر پہلے ہی ایک عدد کالم لکھ چکا ہوں.مگر ہمارے کچھ عزیز جو ان ہوائی باتوں کا شکار تھے عبدالروف کی آپ بیتی سن کر مان گئے کہ کورونا واقعی کچھ ہے.انہوں نے اپنی آنکھوں دیکھا حا ل مجھے سنایا اور قرنطینہ سے ایک پیغام دیا کہ خدا را اس وائرس کو سنجیدہ لیں اور احتیاط کریں .آپ بھی ان کی زبانی کورونا کی حقیقت سن لیں.ان کے انکشافات آپ کے لیے نئے ہوں گے .کیونکہ پردیس کے قرنطینہ میں مقیم ایک مریض کا پیغام ہر پاکستانی کے نام ہے .

“دس پندرہ روز قبل ہماری کمپنی کے مالک کے پاس ایک پاکستانی بھائی آیا کہ کورونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے میرا کام بند  ہے اس لیے آپ مجھے (گاڑیوں کی مکینکی) کا کام دے دیں.ہمارے فور مین نے اس کو کام پر رکھ لیا .اس میں ظاہری طور پر بیماری کی کوئی علامت نہیں تھی.مگر وہ کورونا کی دوا خود سے استعمال کر رہا تھا .وہ ہمارے ساتھ کام کی جگہ پر آتا جاتا رہا.یہاں تک کہ ہمارے کچھ ساتھیوں کی طبیعت خراب ہونے لگی۔

ان کو چکر آنے لگے اور قے کی شکایت ہونے لگی.وہ جو دوا استعمال کر رہا تھا اس  بھی اس کا اثر محسوس ہونے لگا. میں جب کھڑا ہوتا تو چکر آتے کچھ کھاتا تو قے آجاتی. سر درد رہنے لگا .اور جسم میں شدینے سب کو دی اس سے ان کی طبیعت بہتر ہونے لگی مگر ساتھ ساتھ ان کا وائرس باقی افراد میں منتقل ہوتا گیا.یہاں تک کہ مجھےد درد شروع ہوگیا.میرے بڑے بھائی دوسرے شہر میں ہوتے ہیں میں نے ان کو ملنے سے روک دیا کہ آپ میرے پاس نہ آئیں .مگر وہ بھائی تھا اس سے رہا نہ گیا.اس نے گاڑی پکڑی اور آن دھمکا میرے پاس میں نے کہا آپ میرے سے دور رہیں مگر انہوں نے زبردستی مجھ سے سلام بھی لیا اور گاڑی میں بھی بٹھا لیا.جب وہ واپس اپنے کواٹر پر گئے تو ان میں بھی یہ علامات ظاہر ہوگئیں.

وہ اسی طرح کام کرتے رہے اور اپنے ملنے والوں کو یہ تحفہ دیتے گئے .پھر میں نے ان کو وہ دوا بھیجی اور انہوں نے وہ لی اور سیلف آیسولیشن اختیار کر لی مگر اس وقت تک وہ کئی لوگوں کو بیمار کر چکے تھے.دوسری طرف مجھے یہ محسوس ہونے لگا کہ میری چکھنے اور سونگھنے کی حس ختم ہو گئی ہے. ہماری کمپنی نے ملازمین کے ٹیسٹ کرائے تو میری رپورٹ مثبت آگئی.مجھے قرنطینہ منتقل کر دیا گیا.یہاں میرا علاج چل رہا ہے مگر جو مناظر میں یہاں دیکھ رہا ہوں وہ بھی کسی بیماری سے کم نہیں ہیں.ہمیں کھانا دینے والی گاڑی سڑک پر کھانا رکھ کر چلی جاتی ہے.وہ ہم اٹھا کر کھا لیتے ہیں.کہیں کوئی الٹیاں کر رہا ہے تو کہیں کسی کا سانس اکھڑا ہوا ہے.کوئی بیمار لایا جارہا ہے تو کسی فوت شدہ کو قرنطینہ سے بھیجا جا رہا ہے.

مجھے یہاں چودہ دن رکھا جائے گا پھر دوبارہ ٹیسٹ ہو گا اگر پھر بھی مثبت آیا تو مزید چودہ دن کے لیے رکھا جائے گا.ہم پرائے دیس میں بیٹھے ہیں اور جس اذیت سے گزر رہے ہیں.اپنے ملک میں رہنے والوں کو یہی کہوں گا کہ کورونا کوئی مذاق نہیں ہے یہ ایک زندہ حقیقت ہے پلیز کسی پروپیگنڈا کو مت پھیلائیں.اور میرا یہ پیغام ہر پاکستانی تک پہنچائیں. اپنے گھر رہ کر خود بھی محفوظ رہیں اور اپنے اہل خانہ کو بھی محفوظ رکھیں.

جواب چھوڑ دیں