عظیم محسن

جب ہمارا کوئی عزیز، کوئی بہت ہی قریبی ساتھی ہم سے بچھڑ تا ہے، دل کی کیفیت کیا ہوتی ہے..؟؟ اس کا درد ہماری آنکھوں میں اشکوں کی لڑیاں پروتا ہے ۔بالکل اسی طرح ایک میسج واٹس ایپ پہ ملتا ہے اور ہزاروں لوگوں کے دل تڑپ اٹھتے ہیں ایک خاندان کی مانند ہماری یہ تنظیم جس کے نہایت قابل احترام بزرگ جن کی شخصیت ایک چلتی پھرتی دعوت سید منورحسن جنہوں نے ساری زندگی رب کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانے میں زندگی صرف کی اور ہمیں یہ پیغام دے گئے کہ زندگی کی بازی جیتنا چاہتے ہو تو یہ راستہ اپناؤ، رب کی رضا کا راستہ ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا راستہ ،جنت کے حصول کا ضامن راستہ ۔

جیو تو ایسے کی عملی تصویر کہ جب دربار الہٰی میں حاضری کا وقت آئے تو ملائیکہ ہاتھوں ہاتھ لیں، جنت بےقرار ہو تمھاری مہمان نوازی کے لیے اور تمھاری روح بے قرار ہو اس کبریائی والے معبود سے ملاقات کے لیے کہ جس کی رضا کے لیے تم نے اپنی زندگی اس کے سپرد کررکھی تھی تمھاری پسند، تمھارا لائف اسٹائل تمھاری مرضی سب تم نے اسکے احکامات کی پیروی میں بچھا رکھی تھی۔ اس کے سامنے سرنڈر کرکے دنیا کو یہ پیغام دے کر آئے کہ رب کریم نے تمھاری مرضی، تمھاری پسند کو چھوڑ کر رب کی پسند اور مرضی کو اپنی پسند اور اپنی رضا بنانے کی بہت بھاری قیمت جنت کی صورت تیار کر رکھی ہے۔

بس ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ راستہ اپنا لیا جائے ۔جہاں دل بے قرار ہو کر بے اختیار دربار الہٰی میں ہاتھ پھیلائے ان کی مغفرت طلب کرتا ہے ان کے حسنات کی قبولیت کی فریاد لیے ہے وہیں اپنے عمال اپنی جوابدہی اپنی ندامت بھی لیے حاضر ہے اللہ کے سامنے عمر بھر کی نعمتوں کا حساب رب کی دی صلاحیتوں کی جواب دہی کا احساس لیے خوف خدا کی صورت اختیار کرلیتا یے اور زبان پہ وہ آیت جاری ہوجاتی ہے وَمَنّ یَغْفِرُ ذّوْنُوْبَ اللّہ اور اللہ کے سوا کون ہے جو گناہ بخشے دور کہی سے آواز آتی ہے۔

شہید کی جو موت ہے     وہ قوم کی حیات ہے

یہ حیات ہی تو ہے جو ہمیں رب سے قریب کرنے کا سبب ہے اور جانے والا بھی شہید کہ جس نے اپنی زندگی اللہ کے راستے کی جدوجہد میں صرف کی۔آج جب کہ ہم ایک وبائی امراض کی آزمائش سے گذررہے ہیں ہمیں یاد رہے کہ اللہ کریم مشکلات ،بیماری کی کیفیات کو بھی اپنے بندوں کے لیے بھلائی کا سبب بنا دیتا ہے ایک جگہ آیا کہ وبائی امراض سے اگر کسی مسلمان کی موت واقع ہو تو اسے بھی شہادت کا ایک درجہ ملتا یے ۔

تجھے کس پھول کا کفن دوں

تو جدا ایسے موسم میں ہوا

کہ درختوں کے ہاتھ خالی ہیں

جواب چھوڑ دیں