وہ مافیا کے ساتھ تھے یہ مافیا کے ہاتھ میں

 قدرت نے انسان کو اشرف المخلوقات تخلیق فرما یا احسان بھی فرمایا کہ اسے حق وباطل،خیروشر اور بھلے وبُرے میں فرق کرنے کے لئے عقلِ سلیم سے بھی نوازا ہے۔بلا شبہ انسان اللہ تعالی کے احسانات کا شکر ادا کرنے سے قاصر ہے۔مثلا اگر بنی نوع ِ بشر اگر اس کے صرف ایک احسان پہ غور فرمائے کہ اس ذاتِ وحدہ لاشریک نے انسان کے پیٹ میں ایک لقمہ کھانے کا پہنچانے کے لئے کس قدر احسان فرمایا ہے کہ گرم ہو تو ہاتھ بتا دیتے ہیں کہ اسے گرما گرم نہیں بلکہ ٹھنڈا کر کے کھایا جائے،سخت ہو تو اس کے منہ میں بتیس دانت اسے چپانے سے انکار کردیتے ہیں،کڑوا اور ترش ہو تو اس کے منہ کی زبان کھانے سے انکار کر دیتی ہے اور اگر وہ لقمہ باسی ہو تو انسان میں موجود قوتِ شامہ اسے بتا دیتی ہے کہ اسے کھانا اس کے لئے نقصان دہ ہو سکتا ہے،بس حلال ہے یا حرام ہے یہ فیصلہ انسان کی عقلِ سلیم نے کرنا ہوتا ہے اور اسی ایک فیصلہ کے کرنے میں انسان ناکام رہا ہے۔

ریاستی اداروں سے لے کر حکومت کے ایوانوں میں موجود پارلیمنٹ کے ممبران جنہیں عوام دوستی اور عوامی فلاح وبہبود میں اپنے کردار کا دعویٰ ہوتا ہے انہیں بھی اسی کسوٹی پہ پرکھا جاتا ہے۔کیونکہ ان کے جلدی یا ذاتی مفاد کی خاطر کئے گئے فیصلے اکثر وبیشتر عوام کے لئے پریشانیوں کا باعث بن جاتے ہیں ،جیسے کہ حالیہ حکومت کا ایک دم سے پٹرول،ڈیزل اور کیروسین آئل کی قیمتوں میں اضافہ کا فیصلہ۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ پٹرول بم کی صورت عوام کے سروں پہ پھٹا ہے۔اس ایک فیصلہ نے بہت سے مخالفین کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کے حمائتی افراد کو بھی یہ سوچنے پہ مجبور کردیا کہ اگر ایسی ہی حکومت کرنا تھی تو پھر پہلے والے ہی ٹھیک تھے۔

کیونکہ پٹرول ایک پراڈکٹ کا نام نہیں بلکہ اس کے ساتھ جڑی ہوئی ایک سو ایک اشیا کی قیمتوں میں بھی ایک دم سے اضافہ ہو جائے گا۔کیونکہ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی پٹرول سستا ہوا اس سے متعلقہ کسی چیز کی قیمت میں کمی دیکھنے میں نہیں آتی لیکن جو نہی حکومت  پٹرول کی قیمت میں اضافہ کرتی ہے تمام اشیا کی قیمتوں میں اسی روز اضافہ ہو جاتا ہے۔ پٹرول سستا ہوا تو پٹرول اور متعلقہ اشیا مارکیٹ سے غائب۔ پٹرول پمپس پہ لوگوں کی لائنیں اور علاوہ ازیں صرف حکومتی ادارے پی ایس او کے پٹرول پمپس پہ ہی پٹرول دستیاب ہوگا دیگر تمام کمپنیاں اپنے پٹرول کی سپلائی کو روک کر قلیل مدتی بحران پیدا کرنے کا باعث بن جاتی ہیں۔ایسا کون کرتا ہے؟کیا اس طرح کا بحران پیدا کرنے والے حکومت سے بھی طاقتور ہوتے ہیں،یا حکومت ہی ایسے افراد کی پشت پناہی کرتی ہے،کہیں ایسا تو نہیں کہ حکومتی بنچز میں بیٹھنے والے لوگ ہی ہوں؟

ان سب کا جب بھی جواب تلاش کیا گیا تو ایک ہی جواب ملا کہ جی ایک مافیا ہے جو سب کچھ کرتا ہے،جیسے کہ شوگر سستی ہو جائے تو مافیا مارکیٹ سے چینی کو ہی غائب کردیتا ہے،آٹا سستا ہوا تو مافیا نے آتے کو مارکیٹ سے غائب کردیا،اور اگر پٹرول سستا ہوا تو پٹرول پمپس کے گرد لمبی لائنیں لگ گئیں۔مجھے یاد ہے اپنے ایام جوانی میں ہم سنتے تھے کہ جو بھی کروا رہا ہے امریکہ ہی کروا رہا ہے۔اب ہم سن رہے ہیں کہ جو بھی کرواتا ہے مافیا ہی کرواتا ہے۔ مافیا ایک دن میں یا ایک دم ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ  ؎

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ   ایک  دم  نہیں   ہوتا

اس حادثہ کے پیچھے بھی ایک زمانہ چھپا ہوا ہے جسی آج سے پہلے اتنی باریک بینی سے یا تو دیکھا نہیں گیا یا دیکھنے کی کوشش نہیں کی گئی یا پھر میرے دوست ظفر کیانی کے حسب ِ حال شعر کے مطابق سب اسی حمام میں ننگے تھے تو انہوں نے اپنے آپ کو مافیا کے کپڑے پہنا کر انہیں کا حلیہ اپنا لیا یعنی؎

بس اتنا فرق اُن میں اوراِن  میں رہ گیا ظفرؔ

وہ مافیا کے ساتھ تھے یہ مافیا کے ہاتھ میں

ہم عوام کس کس ستم کا ماتم کریں،اپنی امیدوں پہ پھرنے والے پانی کا لہو کس کے ہاتھ میں تلاش کریں،حکومت یا مافیا۔عوام کو تو نہ حکومت سے اور نہ ہی مافیا سے غرض ہونی چاہئے اسے تو اپنے معیار زندگی کو بہتر کرنے کے لئے ضروریات زندگی درکار ہے۔لیکن ظلم سہنا بھی تو ظالم کی طرفداری ہے،مجھے اپنی عوام سے بس اتنا سا اختلاف ہے کہ حکومتی ایوانوں سے ہونے والے ظلم وستم پہ تو نوحہ خوانی کے لئے سڑکوں پہ نکل آتے ہیں۔لیکن ذخیرہ اندوز،فیوڈل،سرمایہ دار،کارخانہ دار،سیٹھ،اور جاگیر دار کے خلاف آواز بلند کرنے سے گھبراتے ہیں۔گویا ان مافیا کے ہاتھ ہم خود عوام ہیں۔

امام غزالی نے فرمایا تھا کہ اگر مارکیٹ میں اشیا کی قیمتیں زیادہ ہو جائیں تو چند روز کے لئے ان کا استعمال ترک کردیں قیمتیں خود بخود نیچے گر جائیں گی۔لیکن ہمارا تو یہ رویہ بن گیا ہے کہ قیمتیں گریں نا گریں ہم اتنا گر جاتے ہیں کہ صحیح اور غلط کی تمیز بھی بھول جاتے ہیں۔جن ترقی پذیر ممالک کی ہم سب مثالیں دیتے ہیں وہاں صارفین اپنی تنظیمیں بنا کر کسی وقت بھی حکومت اور مافیا کو اپنی پسند کی قیمت لانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں،لیکن ہمارے ہاں بازار میں چینی کی قیمت بڑھنے کی خبر بھی آجائے تو ہم ایک مہینہ کی سٹاک کرکے گھر کے کچن میں سٹور کرلیتے ہیں کہ پتہ نہیں کل چینی ملے نا ملے۔

چلئے مان لیتے ہیں کہ عمران مافیا کے ہاتھوں کھلونا بن گیا ہے،اسے چہار اطراف سے مافیا نے گھیر رکھا ہے،وہ اپنی حکومت کے استحکام یا پانچ سال پورے کرنے کے لئے ان کے ہاتھوں بلیک میل ہو رہا ہے،مافیا کی بات نہ مانی تو اس کی حکومت کو خطرہ ہے،لیکن آج سے ہم عوام بھی اپنے ضمیر کے ساتھ ایک عہد کریں کہ جو چیز بھی بازار میں مہنگی ہوگی امام غزالی کی بات مانتے ہوئے ہم اس کا استعمال ترک نہیں تو کم سے کم کر دیں گے تاکہ مافیا اپنی موت آپ ہی مرجائے۔لیکن میری عمر کا تجربہ کہتا ہے کہ ایسا ہوگا نہیں کیوں کہ جو مافیا حکومت کے ایوانوں کو ہلا کر رکھ سکتی ہے اس کے لئے عوام کو خریدنا کیا مشکل ہو سکتا ہے۔

آج سے ہمیں اپنی ضمیر کی عدالت میں اپنا فیصلہ خود ہی کرنا ہے کہ ہم نے مافیا کے ہاتھ بننا ہے یا حکومت کا ساتھ دینا ہے۔مسئلہ ایک اور بھی ہے ہم حکومت کا اصل میں ساتھ دیتے ہی نہیں ہمیں تو ساتھ دینا ہے نواز شریف،زرداری اور عمران خان کا کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت انہیں کی ہے،جس دن عوام کو یہ سمجھ آجائے گی کہ جمہوریت میں اصل حکومت کس کی ہوتی ہے اس دن نہ نواز،زرداری اور عمران معتبر ہوگا بلکہ مملکت خداد داد پاکستان کا استحکام سب سے بالا تر ہوگا۔انشا اللہ

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں