گل نایاب

انسانیت کے گلشن میں کچھ پھول ایسے کھلتے ہیں کہ جن کی خوشبوبرسوں نہیں جاتی ان کے کردار مثل مشعل انسانیت کو روشنی دیتا رہتا ہے اور انسانوں کے کارواں اس روشنی میں اپنی منزل کی طرف سفر کرتے ہیں ۔ایسا ہی ایک گل نایاب سید منور حسن تھے ۔ میں دفتر سے گھر پہنچا تو اہلیہ نے کہا کہ ایک طری خبر سنی آپ نے؟میں نے کہا نہیں ۔ تب اس نے مجھے یہ جانکاہ خبر سنائی کہ سید منور حسن صاحب اس دار فانی سے رخصت ہوگئے ۔انا للہ و انا الیہ راجعون میری زبان سے نکلا۔ دل کی کیفیت تبدیل ہوچکی تھی ایسا لگ رہا تھا کہ عالم اسلام ایک عظیم فکری اور عملی رہنما سے محروم ہوگیا اورایسا ہی ہے۔

سید منور حسن صاحب کی شخصیت عالم اسلام کے لیے اور عالم اسلام کے راہنمایان کے لیے ایک اثاثہ تھی ۔ تمام عالم کے تحاریک اسلامی کے راہنما ان سے مشورہ لیتے اور سید صاحب ان کو مشورے دیتے اور رہنمائی فرماتے۔ اسلامی دنیا کے مسائل کی وجہ سے آپ ہر وقت فکر مند رہتے اس پیرانا سالی اور مرض کی حالت میں آپ کشمیر ، برما ،ہندوستان اورفلسطین کے مسلمانوں کی حالت کی مکمل معلومات رکھتے اوراس پر پوری دنیا کے عالمی اسلامی رہنماؤں سے رابطہ بھی رکھتے۔

ایسا لگ رہا تھا کہ اس عظیم سلطنت کے بادشاہ کا نمائندہ آج اپنی ذمہ داری ادا کرکے تھکا ہارا اپنے بادشاہ خالق حقیقی کی جانب آرہا ہو اور مالک کائنات خود استقبال کے لیے موجود ہو اور کہ رہاہو ” یا ایتھاالنفس المطمنۃ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیہ فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی” اللہ تعالٰی مرحوم کے حسانات کو قبول فرمائے، ان کے سیّات سے درگزر فرمائے اور اپنے فضل خاص ے اس خلاء کو پر فرمائے جو ان کی رحلت سے عالمی اسلامی دنیا میں پیدا ہوا ہے آمین۔ سید صاحب اپنے اور پرائیوں سب کے لیے یکساں نرم گوشہ رکھتے اور سب کو دعوت دین دیتے ان کے سیاسی مخالفین بھی محض سیاسی مخالفین ہی تھے دشمن نہ تھے ان کے ساتھ رابطے میں بھی سید صاحب نے کمی نہ کی۔

آپ کو اللہ تعالٰی نے اپنے بات کو خوبصورت الفاظ میں سامنے والے تک پہچانے کا ملکہ عطاکیا تھا گویا جب آپ تقریر کرتے یا درس قرآن دیتے تو یوں لگتاکہ الفاظ آپ کے سامنے قطار میں کھڑے ہیں۔ آپ نے دعوت دین کے اس صلاحیت کو خوب استعمال کیا ۔ سید صاحب نے ہمیشہ اپنی تقاریر اور دروس میں اللہ کےپیغام کو چہار دانگ میں پہچانے کی تلقین فرماتے اور خود اس پر گامزن رہے آپ دنیا کے بہت سے ممالک میں اس غرض سے تشریف لے گئے اوروہاں خدا کے بندوں کو خدا کا پیغام پہنچایا۔

سید صاحب نہایت خوش مزاج تھے ساتھیوں سے مزا ح بھی فرماتے۔ راقم کو کئی بار ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ہےایک بار ایک ہمارے علاقے تشریف لائے تو ہم مسجد میں داخل ہورہے تھے ایک ساتھی نے آگے بڑھ کر ان کی جوتے تھامنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو سید صاحب نے مسکرا کر کہا جوتے واپس ملیں گے یہ سن کر ساتھیوں کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔

سید صاحب دہلی میں 5 اگست 1944 میں پیدا ہوئے ۔ آپ کا تعلق دہلی کے شرفا ء سے تھا ۔ تقسیم ہند کے بعد سید صاحب کے خاندان نے پاکستان کا انتخاب کیا اور ہجرت کرکے کراچی آبسے۔ آپ نےاسکول اور کالج کی تعلیم مکمل کی اور کراچی یونیورسٹی میں داخلہ لیا آپ ابتداء میں کمیونزم سے متاثر تھے ۔آپ نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کرچی یونیورسٹی میں بائیں بازو کی تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹ فیڈریشن سے کیا اور اس تنظیم میں شامل ہوئے آپ کی قائدانہ صلاحیتوں کی وجہ سے جلد ہی 1959 میں آپ کو اس تنظیم کا صدر بنادیا گیا اور آپ نے بھر پور سیاسی سرگرمیوں میں حصّہ لیا۔ کراچی یونیورسٹی سے 1963میں سوشیالوجی میں ایم اے کیا اس کے بعد یہیں سے 1966 میں اسلامیات میں ایم کیا ۔آپ حصول علم اور مطالعے کے بہت شوقین تھے۔

اللہ تعا لٰی جب کسی کے حق میں بھلائی کا ارادہ کرتاہے تو اس کو دین کا فہم عطاکر دیتا ہے۔ سید صاحب بھی انہی خوش نصیوں میں شامل ہوئے۔ زندگی میں حقیقی تبدیلی کا موقع جب آیا جب آپ کو اسلامی جمیعت طلبہ کی سرگرمیوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ آپ نے سید مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے لٹریچر کا مطالعہ شروع کیا آپ کی زندگی کے اندر انقلاب برپا ہونا شروع ہوگیا۔ اب آپ نے فیصلہ کرلیا کہ زندگی کا صحیح راستہ کونسا ہے اس کے بعد آپ 1960میں اسلامی جمعیت طلبہ میں شا مل ہوئے۔اپنی قائدانہ صلاحیت کی بنا پر جلد ہی یونٹ کے صدر اور پھر مرکزی شوریٰ کے رکن منتخب ہوئےاور پھر 1964 میں ناظم اعلیٰ اسلامی جمیعت طلبہ منتخب ہوئے اور مسلسل تین بار یہی ذمہ داری آپ نے نبھائی اور تعلیم نسواں کے مسائل اورطلبہ کے مسائل پر بھر پور مہم چلائی اور ان کو حل کرنے کوشش کی ۔1963 میں معارف اسلامی میں اسسٹنٹ ڈائیریکٹر کے بطور خدمات کا سلسلہ شروع کیا ۔ 1967 میں جماعت اسلامی میں شامل ہوئے۔

1977 میں پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ ووٹ لے کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ تقریبا اٹھا رہ سال تک وہ جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی سیکریٹری رہے قاضی حسین احمد صاحب کی امارت کے بعد آپ 2009میں امیر جماعت پاکستا ن منتخب ہوئے 2014 میں آپ کی مدّت امارت مکمل ہوئی ۔ سید صاحب کی زنگی سادگی اور وفا  کا  پیکر تھی آپ نے جو حلف پڑھا اس پر ساری زندگی قائم رہے تاحیات آپ نے دین کی خدمت کی۔ راقم نے جماعت اسلامی کے مرکز میں وہ جگہ بھی دیکھی جس کمرے میں انھوں نے تیئس سال گزارے اور جب امارت سے فارغ ہوئے تو ان کو رخصت کرتے وقت لوگ رورہے تھے اور وہ صرف اپنا ایک بریف کیس لے کر باہر آئے اور کہا کہ بس یہ میرے کپڑے اور میرا بریف کیس ہے اور تمام سامان جماعت کاہے۔حق کے راستے میں آزمائش اور ابتلاء تو استقبال کرتی ہی ہیں۔ پی این اے کی تحریک کےدوران آپ کو اپنے کئی ساتھیوں اور دیگر سیاسی قائدین کے ساتھ جیل بھی جانا پڑا ان دنوں کے بارے میں آپ نے بتایا کہ تمام سیاسی قیدیوں نے آپ کو نمازوں کی امامت کی ذمہ دار دی اس دوران بھی آپ نے دعوت دین کا کام جاری رکھا۔

آپ مومنانہ بصیرت کے حامل تھے آپ نے خطے کے اندر تمام خرابیوں اور بد امنی کا ذمہ دار امریکہ کو ٹھہرایا اس وقت امریکہ ایک پاگل ہاتھی کی طرح خطے میں دندناتا پھررہاتھا اور کسی کو اس کے خلاف کچھ کہنے کی جراءت نہیں تھی لیکن آج اس بات کی سب ہی تائید کررہے اور آپ کی بات ہی اپنے پرائے کا بیانیہ ہے ۔ آ پ نے بڑی جراءت کے ساتھ “گوامریکہ گو ” کی مہم چلائی۔ آپ نے ہی کہا تھا کہ مغربی اور امریکی تہذیب اپنے زوال کی طرف گامزن ہے اور آج وقت نے ثابت کردیا ہے ۔آپ نے بڑی جراءت کے ساتھ کہاتھا کہ ہمیں پرائی جنگ کا حصّہ نہیں بننا چاہیئے۔ سید صاحب نے ہمیشہ اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہا اور ببانگ دہل اس کا اظہار فرمایا۔ بقول اقبال  ؎

کہتا ہوں  وہی بات  سمجھتا  ہوں  جسے  حق

نے  اَبلہِ  مسجد  ہُوں ،  نہ  تہذیب  کا  فرزند

اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں، بیگانے بھی ناخوش

میں  زہرِ  ہَلاہِل  کو   کبھی  کہہ  نہ  سکا  قند

جواب چھوڑ دیں