کراچی طیارہ حادثہ کی عبوری تحقیقاتی رپورٹ پیش مگر نتیجہ…؟؟

پی ٹی آئی کی لولی لنگڑی، مانگے تانگے کی حکومت کی دوسالہ کارکردگی جیسی بھی ہے۔ سب کے سامنے ہے۔بیشک ،اِس حکومت نے بے لگام مہنگائی اوربحرانوں کے باعث عوام الناس میں اپنا وقار ضرور مجروح کیا ہے۔ مگراِس سے بھی اِنکار نہیں ہے کہ اِس نے مُلکی تاریخ میں پہلی بار کسی قومی سانحے کی تحقیقاتی کمیٹی کی عبوری رپورٹ ہی سہی کچھ توعیاں کیا ہے۔ اِس اَنہونی رپورٹ کی دوسری خاص بات یہ ہے کہ اِس میں غیرجانبداری کا مظاہر ہ کرتے ہوئے کراچی طیارہ حادثہ کے ذمہ داروں کا تعین بہتر انداز سے کیا گیاہے یعنی کہ رپورٹ میں زندہ اور مردہ (پائلٹس اور کنٹرولر)دونوں کو ہی ذمہ دار قرار دیاگیاہے۔ اِس سے پہلے سرزمین پاکستان میں خواہ جیسے بھی قومی سانحات رونما ہوئے ہیں ۔شاذو نادر ہی ایک دو کے علاوہ کسی سانحے کی مکمل دائمی یا عبوری تحقیقاتی رپورٹ جو کبھی سامنے آئی ہو۔

بہرکیف، گزشتہ دِنوں وفاقی وزیرہوابازی غلام سرورخان نے کراچی طیارہ حادثہ کی عبوری رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش کردی ہے ۔ ڈپٹی اسپیکر قو می اسمبلی نے رپورٹ متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھجوادی ۔وفاقی وزیر موصوف ہوابازی غلام سرورخان نے اپنے مخصوص انداز سے ہلکے اور تیز لہجے میں قومی اسمبلی کو کراچی طیارہ حادثہ کی وجوہات بتائیں ۔ اُنہوں نے کہا کہ ” ہم دنیا کو منہ دِکھانے کے قابل نہیں ،262پائلٹس کو جعلی لائسنس دیئے گئے ، ذمہ دارروں کے خلاف کارروائی ہوگی ،40فیصد پائلٹوں کے لائسنس جعلی ہیں۔ ائیر بلیو ، بھوجا ائیراور گلکت میں پی آئی اے کے طیارے کو حادثے بھی پائلٹوں کی غلطی سے ہوئے، پی آئی اے کا چترال حادثہ فنی خرانی سے پیش آیا ،وزیرہوابازی نے یہ بھی بتایاکہ اِس وقت مُلک میں تما م ائیر لائنز کے 860پائلٹ ایکٹوہیں۔

اِن تمام کے امتحانات کے ٹیسٹ ری چیک کئے گئے۔ جس سے معلوم ہوا کہ اِن میں سے 262پائلٹ نے پائلٹ کے لئے ہونے والے امتحانات خو د نہیں دیئے بلکہ اِن کی جگہہ کسی اور نے امتحانات دئے ،کراچی طیارہ حادثہ کے پائلٹوں کے ذہن پر کرونا سوار تھا، پرواز پر توجہ کم، وائرس پر گفتگو زیادہ کرتے رہے، کراچی حادثہ کے ذمہ دار پائلٹ، معاون پائلٹ ائیرکنٹرولرہیں۔لینڈنگ کے وقت جہاز 2500فٹ کی بجائے 7220 ´فٹ کی بلندی پر تھا، جہاز نے جب دوبارہ ٹیک آف کیا تو دونوں انجنوں کو کافی نقصان ہوچکا تھا،لینڈنگ گیر کے بغیر جہاز3باررن وے سے ٹچ ہوا، پائلٹس ضرورت سے زیادہ ہی خود اعتمادی کاشکار تھے“ یہ وہ وجوہات اور نکات ہیں جنہیں وزیر ہوابازی نے کراچی طیارہ حادثہ کی تحقیقات کرنے والی ٹیم کی مرتب کردہ عبوری رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتائیں ہیں۔ تاہم راقم الحروف کا یہ اندیشہ ہے کہ ابھی کراچی طیارہ حادثہ کی مکمل اور حتمی رپورٹ آنی باقی ہے۔

فی الحال عبوری تحقیقاتی رپورٹ میں جن نکات کی جانب توجہ دلاتے ہوئے بتایا گیاہے۔ ممکن ہے کہ حتمی رپورٹ میں کنٹرولر کو بچالیا جائے اور حادثے کی ساری ذمہ داری پائلٹس پر ڈال کر فائل قیامت تک کے لئے بند کردی جائے ۔ہاں البتہ، یہاں ایک بات ضرور سنجیدگی سے توجہ طلب ہے وہ یہ کہ ” جب رواں حکومت نے ترجیحی بنیادوں پر جعلی ڈگری والے پائلٹوں کے خلاف کارروائی کا سوچا تو محب وطن سیاسی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) والے جعلی پائلٹس کے حق میں سیہسہ پلا ئی ہوئی دیوارکیوں ثابت ہوئے ۔یہی ن لیگ والے دیدہ دانستہ ایڑی چوٹی کا زور لگا کر اپنے پیارے ہم خیال پی آئی اے میں تعینات جعلی پائلٹس کی حمایت میں ” اسٹے آرڈر“ کیوں لے آئے ۔جس سے جعلی پائلٹس کو جِلابخشی گئی اور کراچی طیارہ حادثہ پیش آگیاجس میں عملے سمیت 98قیمتی اِنسانی جانیں القمہ جل بنیں۔ آج حکومت جہاں 262جعلی پائلٹس کے خلاف کارروائی شروع کرے وہیں اِس سے قبل ن لیگ کے اُن کرتادھرتاو ¿ں کے خلاف بھی سخت ترین قانونی چارہ جوئی کی جائے جو جعلی پائلٹس کے حق میںاِنہیں بچانے کے لئے اسٹے آرڈر لے آئے اور ساتھ ہی اُن ججز اور عدالیہ کا بھی محاسبہ کیا جائے جنہوں نے جعلی پائلٹس کو اسٹے آرڈرجاری کئے۔

ہمارے منافع بخش قومی ادارے یوں ہی نہیں تباہی اور بربادی کے دہانے تک پہنچے ہیں۔ اِس کی ایک سب سے بڑی وجہ سیاسی بنیادوں،تعلقات اور رشوت پر میرٹ کا قتلِ عام کرکے نااہل افراد کو اعلیٰ عہدوں پر نوکریاں دے کر نوازنے کی وہ گھناونی پالیسی ہے۔جو ہمارے مُلک اور معاشرے میں فخریہ رائج ِ عام ہے۔ آج جس نے قومی اداروں اور مُلک و معاشرے کو پستی اور گمنامی و ناکامی کی اُس گہری اور اندھیری کھائی میں پھینک دیاہے۔ اَب جہاں سے نکلنا ممکن ہی نہیں ناممکن بھی ہوگیاہے۔کم از کم کسی میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ کوئی اکیلا خود نکلے یا قوم کو رشوت ،تعلقات اورسفارشی گند سے نکالنے کی سعی کرے ۔ہاں البتہ!اگر اللہ کو کبھی رحم آجائے تو قوم کی حالت بہتر ہوسکتی ہے؛ ورنہ ،پوری پاکستانی قوم تورشوت اور تعلقات کی پرچی اور سفارش کی کنجی کو ہی اپنی کامیابی کا زینہ اور وسیلہ سمجھتی ہے ۔جب کہ راقم الحرف اِن تمام اِنسانی فعلِ شنیع کو قتلِ میرٹ کا پہلادروازہ ہی سمجھتاہے۔

دینِ اسلام کی تاریخ گواہ ہے کہ اَزل سے میرٹ تو مسلمانو ں کا فخررہا ہے ۔مگر آہ ..! جنوبی ایشیا کی ریاست اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اشرافیہ کے ہاتھوں سفارشی پرچی ، رشوت اور تعلقات کی وجہ سے میرٹ کا جنازہ نکل گیاہے ۔موجودہ 21ویں صدی میں دنیا کے جن ممالک اور اقوام میں سفارش، رشوت اور تعلقات کو دفن کردیاگیاہے اور وہاں مکمل طور پر میرٹ کا تقدس برقرار ہے۔ آج یہی ممالک اور قومیں دنیا میں جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے ہر شعبہ ہائے زندگی میں اپنے قابل اور باصلاحیت ہنرمند افرادکے ساتھ ترقی اور خوش حالی کا سکہ قائم کئے ہوئے ہیں اوردنیا کے دیگرممالک اور قوموں پر حکمرانی کررہی ہیں ۔مگربدقسمتی سے مملکتِ خداداد پاکستان میں سفارش کا کلچر کروناسے بھی کہیں زیادہ پل پل بڑھتی اور پھیلتی پرانی وباءہے ۔اَب تک جس کے خطرناک نتائج نکلے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اگر سفارش کی وباءکا فوری تدارک نہ کیا گیاتو ایک سو ایک فیصد یقین ہے کہ ہر لمحہ ہماری پستی کا سبب بننے والی یہ وباءآئندہ مزید خطرناک صُورت اختیار کر جائے گی ۔ افسوس ہے کہ ہمارے یہاں اِس کے باوجود بھی کوئی اِس وباء سے چھٹکارہ پانے اور احتیاط برتنے کو تیار نہیں ہے ۔حا لاں کہ ووٹ کی پرچی ہم جِسے مینڈیٹ کا نام دیتے ہیں ۔دراصل یہی عوام کی جانب سے بیت العوام (ایوان نمائندگان کے لئے )ووٹ کی پرچی سفارش کی کنجی اور قتلِ میرٹ کا پہلا دروازہ ہے۔یقیناہمارے یہاں سفارش سے قومی ادارے تباہ و برباد اور مُلک میں میرٹ کا قتلِ عام ہورہاہے۔اِس حوالے سے بشیر فاروق کا یہ شعر یاد آگیاہے۔ قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ:۔ ہمارے مُلک کو فاروق یہ اعزاز حاصل ہے یہاں ڈاکو سفارش کی بدولت چُھوٹ جاتے ہیں

اور سفارش جو نہیں رکھتے وزیروں کی مشیروں کی وہ دولت کے سہارے ،دے کے رشوت چُھوٹ جاتے ہیں

ہمارے اکثر اہلِ دانش کا قوی خیال ہے وہ فرماتے ہیں کہ ہم جنہیں اپنے ایوانِ نمائندگان کہتے ہیں یہ عوام کے ووٹ کی سفارشی پرچی سے ایوانوں تک پہنچتے ہیں۔پہلے یہ انتخابات میں اپنے حلقے کے ووٹرز کو میٹھی میٹھی اور دل بہلانے والی باتوں اور اِن کے دیرینہ مسائل کے فوری حل کے بڑے بڑے وعوے اور وعدے کرتے ہیں ۔ یہاں تک کہ آسمان سے تارے توڑلانے کی بھی بھڑکیاں مارنے سے باز نہیں آتے ہیں۔

خوبصورت خواب دکھاتے ہیں ۔ اِن خوابوں کی حسین تعبیریں بتاتے ہیں ۔ اپنے ووٹرز کو اِپنی چکنی چپڑی باتوں سے جِن کی طرح شیشے کی بوتل میں اُتارکر قید کرلیتے ہیں ۔ پھراِس طرح یہ اپنے حلقے کے ووٹرز کو الیکشن والے دن اپنی کامیابی کے لئے ووٹ کی پرچی یعنی کہ پہلی سفارشی پرچی کے استعما ل کا کہتے ہیں۔ یہیں سے مُلک میں سفارش کا آغاز ہوجاتا ہے۔ اگر دنیا کی دیگر اقوام اور ممالک کی طرح بات یہیں ووٹ دینے کی ہی حدتک محدود ہوتی تو پھر بھی ٹھیک تھا ۔مگر ہمارے یہاں ایسا نہیں ہے؛ عوام کے ووٹ سے کامیاب ہوکرمُلکی ایوانوں تک پہنچنے والے ایوانِ نمائندگان اپنے ناجائز اختیارات ، سفارشی پرچی اور تعلقات کا بیدریخ استعمال کرتے ہیں ؛ کسی کے حق پر ڈاکہ مارنا، کسی کی نوکری چھیننا،کسی کو میرٹ کا قتل کرکے نوکری دینا وغیرہ وغیرہ ایسے بہت سے ناجائز افعال ہیں۔ جن کے یہ باکثرت مرتکب ہوتے ہیں۔یوں یہ خود کو مالکِ کل سمجھنے لگتے ہیں ۔ اپنی اور اپنی پارٹی کے خدمت گاروں،جیالوں ، جا نثاروں ، شیروں ، خوشامدیوں ، جعلی ڈگریوں اور جعلی لائسنس والوں کواِن کی اہلیت اور قابلیت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے۔اِنہیں قومی اداروں میں ماہانہ لاکھوں کی تنخواہوں ا ور دیگربے شمار مراعات کے ساتھ اعلی ٰ عہدوں پر تعیناتی کا حکم نامہ جاری کرتے ہیں جن کی صفر کاکردگی سے قومی ادارے تباہ اور طیارہ حادثات کا ہونا معلوم بن گیاہے۔ آخر کب تک مملکتِ خدادا د پاکستان میں سفارشی پرچی ،رشوت اور تعلقات سے قومی ادارے بربادہوتے رہیں گے اور مُلک میں میرٹ کا قتلِ عام ہوتارہے گا.؟؟

جواب چھوڑ دیں