پلٹ آؤ اپنے رب کی طرف 

دنیا میں جمہوریت کی جگہ کرونا نے لے لی ہے، بیس میں سے دو لوگ اگر کرونا کے حامی ہوں گے تو باقی اٹھارہ کو بھی کرونا کی لاٹھی سے ہانکا جائیگا پہلے کہا جاتا تھا جسکی لاٹھی اسکی بھینس۔ مگر اب جیسے کرونا ہی لاٹھی اور بھینس کا مالک بن چکا ہے ہے اپنی بات منوانے کے لئے حکومت ہوں یا عوام، ہسپتال ہو یا سیاست دان، ہر کوئی کرونا کے نام سے بلیک میل کر رہا ہے۔

ہسپتال میں عوام کی حالت زار دیکھنے کے بعد ڈاکٹرز بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اگر عزت کی موت چاہتے ہیں تو ہسپتال کا رخ نہ کریں مگر عوام بیچاری اگر کوئی دل کا مریض ہو یا ڈائیلاسز کا تو وہ کیا کرے ایسے بہت جملہ امراض ہیں جسکے باعث مریضوں کو ہسپتال کا رخ کرنا پڑتا ہے اور ان کے ساتھ وہاں جو سلوک ہوتا ہے کہ الامان الحفیظ۔۔۔ اللہ ہی بچانے والا ہے اس کے سوا کسی کو اختیار نہیں۔

کرونا نے پوری دنیا کا نقشہ ہی بدل ڈالا اب لوگ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ کرونا سے قبل اور اس کے بعد۔۔۔ اس دوران بہت سی احتیاطی تدابیر بتائی گئیں جن پر عمل کرنا ضروری بھی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ مختلف چینلز سے یہ بات بھی سننے کو ملی کہ دراصل یہ وبا ہمارے گناہوں کی سزا ہے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم قوم یونس کی طرح اجتماعی توبہ کریں ۔ توبہ کا مطلب ہے” دل کا مطیع ہو جانا، پلٹ آنا ، رجوع کر لینا”۔ کیا قوم یونس کی طرح ہم نے اپنے گناہوں سے رجوع کرکے اپنے رب کو راضی کرلیا؟؟؟؟

ماہ رجب شعبان رمضان گزر گیا شوال بھی اپنے آخری مراحل میں ہے مگر ہم اپنے رب کو راضی کرنے میں ناکام رہے۔ رمضان کا آخری عشرہ نجات کا عشرہ تھا ہم جہنّم کی آگ کے ساتھ ساتھ معاشرتی مظالم کے جہنم سے بھی نجات پا جاتے جسمیں ہر شخص کسی نہ کسی حد تک ملوث ہے مگر اس عشرے کے آخری جمعہ ہونے والے طیارہ حادثے نے یہ بات سمجھادی کہ بندوں پر اللہ کتنا غضب ناک ہے…. مایوس نہ ہوں ۔۔۔۔۔۔مایوسی کفر ہے ۔۔۔ پلٹ آؤ اپنے رب کیطرف۔۔۔۔وہ بہت توبہ قبول کرنے والا ہے۔۔۔

اس طرح کی آیات دل کو دھارس پہنچاتی ہیں مگر کھلی آنکھوں سے معاشرے کا جائزہ لیں تو حالات کچھ اور ہی گواہی دیتے ہیں ۔ عمارتیں زمین بوس ہو رہی ہیں ادارے کھوکھلے ہو چکے ہیں ہر چیز میں کرپشن اور گنڈہ گردی کا راج ہے پھلوں اور سبزیوں سے ان کی اصل مٹھاس ختم ہوتی جارہی ہے اگر کہیں عمارت زمین بوس ہو جائے یا کہیں آگ لگ جائے تو عملہ کتنی دیر میں پہنچتا ہے متاثرہ لوگوں کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی ایسی مشینیں ہی نہیں جو بروقت استعمال میں لائی جائیں اور نہ ایسا جذبہ ہےجو متاثرہ افراد کی مدد کر سکے۔ پی آئی اے نے لوگوں کی جانوں سے کھیلنا آسان سمجھ لیا ہے ۔

اسٹیل مل سے دس ہزار مزدور بغیر کسی وجہ کے نکال دیے گئے ۔تمام ادارے بیچ کر کھا چکے ہیں یہ حکمران۔۔۔ مگر انکا پیٹ قبر کی مٹی ہی بھرے گی۔ کم سے کم تنخواہ اٹھارہ ہزار رکھنے والوں کے کتوں کے بسکٹ بھی نہیں آتے اٹھارہ ہزار میں۔ عوام کا خون چوسنے والے اگر کرونا سے مر جائیں تو شاید یہی قدرت کا انصاف ہوگا ۔۔۔۔۔مگر یہ انصاف کیسے ہو سکتا ہے اپنی گردنوں پر بٹھا کر ان کو حکمران بنانے والے سزا کے مستحق ٹھہرے ہیں ۔۔دنیا کی دوڑ میں لگ کر بنی آدم یہ بھول چکا ہے کہ رب نے دنیا کھانے اور کمانے کے لئے نہیں بلکہ حق کا کلمہ بلند کرنے کے لئے بنائی ہے۔

ہم کہیں بھی چلے جائیں ہر شخص دوسرے کو کاٹ رہا ہے آپس کے معاملات و برتاؤ یہ خبر دے ہی نہیں رہے کہ معاشرے میں ایسی جان لیوا وبا پھیلی ہوئی ہے۔ لگتا ہے کسی کو مرنا ہی نہیں۔ ہم نے پچھلے سالوں میں کتوں کا حرام گوشت ضرور ہی نہ کھایا ہو مگر حرام ہر کسی کے منہ کو لگ چکا ہے اس صورتحال میں کرونا سے پہلے ہمیں اس وبا سے چھٹکارا حاصل کرنا ضروری ہے جس میں لوگوں کے اندر سے رب کے آگے جواب دہی کا خوف ختم ہو چکا ہے۔ کیا اجتماعی توبہ کے سوا کوئی اور صورت ہے اس سے بچ نکلنے کی……؟؟ اپنے رب سے معافی مانگو بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔ سورہ نوح آیت نمبر 10

جواب چھوڑ دیں