دیکھتی آنکھوں، سنتے کانوں کے طارق عزیز

ابتدا ہے رب جلیل کے بابرکت نام سے جو دلوں کے بھید خوب جانتا ہے…….دیکھتی آنکھوں سنتے کانوں آپکو طارق عزیز کا سلام”…..ان الفاظ کی گونج آج بھی ایک نسل کے ذہنوں میں ثبت ہے۔طارق عزیز شو سے میری بچپن کی بہت سی یادیں وابستہ ہیں۔ڈائری اور قلم لے کر اہم سوالات اور شعر نوٹ کرنا اور پورا شو پابندی کے ساتھ دیکھنا۔

یہ وہ دور تھا جب پی ٹی وی بچوں کو بہتر تفریحی اور معلوماتی مواد فراہم کرتا تھا اس دور کی یاد طارق عزیز صاحب کے انتقال کی خبر سن کر تازہ ہو گئی۔ طارق صاحب کا پروگرام ہماری نسل کے ذہن میں آج بھی تروتازہ ہے جب علمی بنیاد پر کوئی حاضرین میں سے سوال کا جواب دیتا تو ہال میں طارق عزیز صاحب کی پر وقار آواز گونجتی “یہ واٹرکولر آپ کا ہوا” ۔

سولہ ہفتےکے مقابلے کے بعد گاڑی اگر کوئی پروگرام سے لے جاتا تو واقعی وہ اس کا حق ہوتا ہے۔ بیعت بازی کے مقابلے میں مختلف کالجز کے طلباء اور طالبات کو شرکت مقابلہ کی دعوت دی جاتی۔ ایک بہترین تفریحی معلوماتی اور دلچسپ ہمارے دور کا ایک بہترین پروگرام جس کے بارے میں سوچ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے بچوں کے پاس اس طرح کا کوئی فورم موجود نہیں جس کے ذریعہ سے وہ اپنی ذاتی معلومات اکٹھی کر سکیں۔

طارق عزیز صاحب کا پروگرام تقریباً نصف صدی پر محیط تھا۔ پہلے نیلام گھر پھرطارق عزیز شو اور بعد میں بزم طارق عزیز کے نام سے پی ٹی وی کے مقبول ترین پروگرام میں شمار ہوتا رہا۔ مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب نیلام گھر کو “طارق عزیز شو” کا نام دیا گیا تھا خوش بخت شجاعت صاحب اس پروگرام کی میزبانی کر رہی تھیں اور تمام ناظرین ایک تذبذب کا شکار تھے پھر اچانک اس پروگرام میں طارق عزیز صاحب کی آمد اور اس پروگرام کو طارق عزیز شو کا نام دیا جانا کسی بھی میزبان کے لئے ایک اعزاز سے کم کی بات نہ تھی جو کہ طارق عزیز صاحب کو دیا گیا اللہ پاک طارق عزیز صاحب کی خدمات کو قبول کرے اور ان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے ۔

وہ ایک محب وطن پاکستانی تھے طارق عزیز صاحب کی کوئی اولاد نہ تھی اور ان کی اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنے ٹویٹر میسج کے ذریعے اپنی تمام جائیداد دولت پاکستان کے نام کر دی ۔طارق عزیز صاحب کے بارے میں جتنا بھی لکھا جائے کم ہے۔ڈھونڈو گے ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم۔ میں اپنی تحریر کا اختتام طارق عزیز صاحب کے ہی ٹویٹر پیغام سے کرتی ہوں @TariqAzizPTV انہوں نے اپنے انتقال سے قبل کہا ‘یوں لگتا ہے وقت تھم گیا ہے رواں دواں زندگی رک گئی ہے کئی دنوں سے بستر پر لیٹے لیٹے سوچ رہا ہوں کہ آزادانہ نقل و حرکت بھی مالک کی کتنی بڑی نعمت تھی نہ جانے پرانا وقت کب لوٹ کے آتا ہے ابھی تو کوئی امید نظر نہیں آ رہی۔

جواب چھوڑ دیں