کرونا سے کرو- نا، اور لاک ڈائون سے مذاق ڈائون 

مولانامفتی قوی کے بارے میں سوشل میڈیا پر ایک خبر چل رہی ہے کہ وہ بھی کرونا کے مرض کا شکار ہوگئے ہیں،لو جی صیاد آپ ہی اپنے دام میں آگیا۔لیکن اصل مسئلہ ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر صاحبان کے لئے ہے کہ مولانا کو بیماری سے بچایا جائے یا ڈیوٹی پر موجود نرسوں کو مولانا سے محفوظ رکھا جائے۔

کرونا کو کرو-نااور لاک ڈائون کو مذاق ڈائون خیال کرنے والی یہ قوم دونوں صورتوں میں سنجیدہ نہ ہونے پر اس لئے مضر ہے کہ کرونا مضرِ صحت نہیں تو لاک ڈائون کیسا؟کرونا کو پاکستان میں کس قدر سنجیدہ لیا گیا ہے اس کا منہ بولتا ثبوت باوجود یکہ سماجی فاصلہ کی تشہیر کے،گائناکالوجسٹ کے ہاں چیک اپ کرانے والی خواتین کا رش ہے۔میری ایک دوست گائنا کالوجسٹ نے اپنی ایک مریضہ کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ خاتون تمہیں کرونا اور آبادی کے بے تحاشا بڑھنے سے خوف نہیں آتا کیونکہ تمہارے تو پہلے ہی پانچ بچے ہیں۔بغیر شرمائے کہنے لگی کہ ہاں ہیں تو مگر یہ بچہ قرنطینہ کی وجہ سے مکمل انہماک،وقت اور محبت کی پیداوار ہوگا،اس لئے کہ مکمل لاک ڈائون میں ڈائون لوڈ ہو رہا ہے۔تو کیا پہلے پانچ جلدی میں ہوئے تھے کیا ؟جی ہاں۔

ڈاکٹر اور مریض کے ان مکالمات سے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ جنوری میں کرونا کے آغاز کے’’صحت مندانہ نتائج‘‘ستمبر،اکتوبر میں انشا اللہ آنا شروع ہو جائیں گے۔کرونا کا برتائو مریضوں کے ساتھ بالکل ساسو ماں کی طرح کا ہے کہ جیسے گھر سے باہر اور خاوند کے پاس نہیں جانا،ساس کے کمرے میں نہیں آنا،اور گھر سے باہر قدم نکال کر دکھانا،کچن میں سب کچھ پکانا ہے مگر ایک ساتھ بیٹھ کر ساس کو نہیں پکانا،الغرض یہ نہیں کرنا،وہ نہیں کرنا،اس چیز کو ہاتھ مت لگانا،اسے مت چھونا وغیرہ۔

کرونا میں سب سے زیادہ جو مخلوق ’’متاثر‘‘ہوئی وہ خاوند حضرات ہیں جو کرونا کے بعد بیوی کی اس ’’پیار بھری‘‘عادت سے تنگ ہیں کہ جانو یہ کرونا،یہ کرلیا ہے تو اب وہ کرونا،آسان مفہوم میں جانو جھاڑو لگا لیا تو برتن دھو لو نا،کپڑے دھو لئے ہیں تو چھاڑو پونچھا بھی لگا لو نا۔بات بیویوں کی اس حرکت کی نہیں بلکہ سلام ہے ایسے خاوند حضرات کو جو ،،نا،،نا،،کرتے ہوئے بھی بیوی کی پیار بھری باتوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔

لیکن پانچوں انگلیاں برابر بھی نہیں ،میرا ایک دوست کرونا اور لاک ڈائون میں بھی خوش وخرم دکھائی دیتا رہا ایک دن مجھ سے رہا نہ گیا پوچھا کہ جب ہر سُو اداسی اور پریشانی کا ماحول ہے تو تم کیسے خوش خوش دکھائی دیتے ہو،کہنے لگا کہ خوش کیوں نہ ہوں میرے لئے تو کرونا اور لاک ڈائون کسی نعمت سے کم نہیں،میں نے عرض کیا کہ خدا کا خوف کرو اسے ایک  بیماری سمجھوبیماری کا سنتے ہی برجستہ بولے کہ اسی لئے تو خوش ہوں کہ میرے والی بیماری(بیوی) اپنے میکے گئی تھی کہ لاک ڈائون شروع ہو گیا ،تو کیا ایسی صورت حال میں میرا خوش ہونا بنتا نہیں ہے کیا؟

شروع شروع میں تو لوگوں نے لاک ڈائون کو گھر کے مین گیٹ کو لگے لاک کو ڈائون کرتے ہوئے اسے مذاق ڈائون ہی سمجھا تا ہم قوم اب راتوں کو اپنے آپ کو لاک ڈائون کرنے میں سنجیدہ دکھائی دیتی ہے،جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ رات بارہ بجے سے صبح آٹھ بجے تک کوئی بھی پاکستانی اپنے گھر سے باہر نہیں نکلتا۔لاک ڈائون امرا کے لئے توصحت مندانہ قدم ہے جبکہ غربا کے لئے لاک ڈائون کسی طور بھی لک(کمر) ڈائون(توڑ) سے کم نہیں۔بوجوہ عید حکومت کی طرف سے نرمی پرلوگ گھروں سے ایسے چھوٹ کر شاپنگ کے لئے نکلے جیسے رمضان میں زنجیروں میں جکڑا ابلیس عید کے روز نکلتا ہے۔

لاک ڈائون کے فیوض وبرکات میں لوگوں نے گھروں میں رہنا سیکھا،بیس سیکنڈ میں دو دو ہاتھ ملتے ہوئے دو دو برتن دھونے کو ترجیح دی،بیوی کے اصل روپ اور شکل سے آشنائی ملی،اپنی حیثیت اور اوقات کا اندازہ ہوا،گھر نہ آنے پر جو بیویاں مزاج برہم ہوتی تھیں اب گھر سے نہ جانے کے سیاپے سے شناسائی حاصل ہوئی،وہ بیوی جو شام ڈھلے گھر آنے پر واری واری جاتی تھی لاک ڈائون میں مکمل اور مسلسل گھر پہ رہنے پر گھر کی ہر’’باری یعنی ونڈو‘‘کے پاس سے گزرتے ہوئے شیرنی کی طرح گھورتے ہوئے گزرتی ہے۔گویا لاک ڈائون نے تو ’’شیروں‘‘ کو بھی صرف ’’سیر(کلو) کا بنا دیا ۔

اور تو اور اس دوران میں بیویوں نے گھر کی بہت سے اشیا کو خود ہی ٹھیک کرنا سیکھ لیا ہے خدانخوستہ اگر خاوند بھی خراب ہوتا دکھائی دے تو اس کی ’’مرمت ‘‘بھی گھر پر ہی کر لیتی ہیں۔ایک دوست کا کہنا ہے کہ جوتے اور خاوند کی مرمت گھر پر ہی ہو جائے تو بہتر رہتا ہے کیونکہ ایسا کرنے سے خاوند اور گھر کی بات باہر نہیں نکلتی۔واہ رے لاک ڈائون تیری حقیقت بیانیاں ،ٹی وی اور بیوی کا کنٹرول ہاتھ میں رکھنے کا دعویٰ کرنے والوں کو بھی کیسے برہنہ کیا کہ اپنے آپ کو شیر کہنے والے اب گھروں میں بیوی کی مرہون منت ایسے بیٹھے ہیں جیسے ’’ٹام‘‘ کا ٹومی دالان کے باہر سر جھکائے بیٹھا ہو۔

لاک ڈائون میں نرمی ہوتے ہی ایک پچاس سالہ خاتون ڈاکٹر کے کلینک پہ جا کر کہنے لگی کہ ڈاکٹر صاحب دیکھیں لاک ڈائون نے میری کمر کا کیا ستیا ناس کردیا ہے ،کمر سے پورا کمرہ بن گئی ہے۔ڈاکٹر نے پوچھا کہ بی بی آپ کی اصل عمر کیا ہے؟پچاس بہاروں کا سنتے ہی ڈاکٹر صاحب ُپر تبسم لہجے میں گویا ہوئے کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے کمر بھی عمر کے ساتھ ہی بڑھ رہی ہے۔ایسی عمر میں اگر ’’رشکِ قمر‘‘سے ’’رکشہ کمر‘‘بن جائے تو گھبرانا نہیں چاہئے کیونکہ بقول شخصے انسان جیسے جیسے بوڑھا ہوتا جاتا ہے پیار جوان ہوتا جاتا ہے۔ویسے اس قسم کی خواتین کی آدھی عمر اپنی عمر کو چھپانے اور بقیہ اپنی کمر کو چھپانے میں گزر جاتی ہے۔

اب تو کچھ شہروں سے خبریں موصول ہو رہی ہیں کہ کچھ علاقوں میں مکمل لاک ڈائون کردیا گیا ہے ،یاد رکھیں کہ اگر ایسے ہی لاک ڈائون چلتا رہا تو خاوند اپنا وقار اور خواتین اپنا حسن کھو دیں گی،گھر میں رہ کر خاوند حضرات کی ڈاڑھی اور پارلر بند ہونے کہ وجہ سے خواتین کی مونچھیں بڑھنے کا ذمہ دار بھی مکمل لاک ڈائون ہی ہوگا۔اور تو اور حالات ایسے رہے تو اسکول اور دفتر سے چھٹیاں بھی اپنا مقام اور وقار کھو دیں گی۔

لاک ڈائون اور کرونا میں سب سے زیادہ تحقیق شادی شدہ حضرات نے کی ہے جیسے کہ ایک دوست کا کہنا ہے کہ میں نے اس دوران تحقیق سے یہ ثابت کیا ہے کہ جھاڑو دیتے وقت آگے کی طرف چلنا پڑتا ہے اور پوچا لگاتے وقت الٹے پائوں چلنا ہوتا ہے۔اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو آپ کو بیوی کے پائوں کی زد سے کوئی نہیں بچا سکتا۔بیس سیکنڈ صرف صابن سے ہاتھ دھونے سے بہتر ہے کہ برتن دھونے والے لیکوئڈ سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے چار برتن بھی دھو لیں تو کچن کے کل برتن دھونے میں صرف بیس منٹ درکار ہوتے ہیں۔اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو دردِ سر(بیوی) آپ کا مکمل سر درد بن سکتی ہے۔

ایک دوست کی تحقیق نے تو دیگر خاوند حضرات کے لئے عائلی اور سماجی تحقیق کے نئے در کھول دیے کہ ایک کلو چاول میں صرف دس ہزار چار سو پچانوے چاول،ستر کنکریاں،ایک سو پچاس سسریاں(اگر چاول پرانے ہوں تو) جبکہ پچاس کنکریاں اور تیس سسریاں (چاول نئے ہوں تو) اور دو سو چاول ٹوٹے ہوئے ہوتے ہیں۔اس عمل پیہم میں اگر نظر ٹھیک سے کام کر رہی ہو اورآپ مکمل بیوی کی نظر میں ہوں تو صرف اور صرف پندرہ منٹ درکار ہوتے ہیں۔یہ سب بھلے آپ کو مذاق لگے لیکن اس میں کوئی فکاہیہ پن نہیں ہے کہ کرونا ایک حقیقت ہے اور خدا سے دعا کرنی چاہئے کہ اللہ ہم سب کو اپنے حفظ وامان میں رکھے۔آمین

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں