قرارداد منظور،تحفظ ناموس رسالتؐ ،صحابہ واہل بیت

اقوام عالم میں انبیاء ،صالحین،اولیاء ومعززین کی شان میں گستاخی آزادی اظہارِرائے کی آڑمیں ہوئی ،یہ وہ دیوار ہے جس کی آڑ میں ضالین نے بزرگوں کی توہین کا ارتکاب کیا،بے حیائی کا فروغ بھی اسی آزادی اظہارِ رائے کی آڑ میں ہورہا ہے ۔اس پر اگے چل کر کافی لکھوں گا۔ابھی جودھری پرویز الٰہی کے احسن اقدام پر بات کرنا چاہتا ہوں ۔ایک ہفتہ میں دو مرتبہ تحفظ ناموس رسالت وناموس صحابہ پر پنجاب اسمبلی میں قراردادیں منظور،پہلی قرادداد میں تین کتب جن میں سیدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہر رضی اللہ عنہا ،ابوبکر صدیق ،عمرفاروق،عثمان بن عفان رضی اللہ عنہم سے متعلق گستاخانہ مواد موجود تھا کو فوری مارکیٹوں سے ضبط کرنے کاحکم دیاجو احسن اقدام ہے۔

دوسری قرارداد میں نصابی کتب میں شعائر اسلام سے متعلق ترمیم متحدہ علماء بورڈ کی منظوری کے بغیر نہ ہوسکے گی بل کے مطابق اسلامیات، مطالعہ پاکستان، تاریخ، اردو لٹریچر اور دوسرے مضامین کا اسلامی مواد تدریسی کتابوں میں اس وقت تک شائع نہیں ہوگاجب تک متحدہ علما بورڈ پنجاب منظوری نہیں دے گا، بل کی متفقہ طور پر منظوری پر سپیکر نے کہا کہ ختم نبوتؐ کی حفاظت پر ایوان مبارکباد کا مستحق ہے۔ پنجاب اسمبلی اس عظیم  قرارداد پر پوری قوم کی جانب سے مبارک باد کی  مستحق ہے ۔ حکومت  پاکستان کو مزید آگے بڑھ کر نوجوانوں میں گمراہی پھیلانے والوں کا بھی احتساب کرنا چاہیے تھوڑی توجہ ٹک ٹاک پر بھی ہونی چاہیے جہاں ارض پاک کے مستقبل کے معماروں کو گمراہ کرنے کے لیے لچر ویڈیوزکا نہ ختم ہونے والا حجم موجود ہے ۔ہرروز برائی اوربے حیائی کا فروغ بڑھ رہا ہے جونسل نوکے لیے انتہائی  خطرناک  ہے حکومت وقت کوچاہیے اس کی روک تھام کے لیے سنجیدگی سے غور کرے۔

وطن عزیز میں صحافت کے گرتے ہوئے معیار اور وقار کو استحکام دینے کے لیے خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ سوشل میڈیا کابے لگام ہونا ہر فرد ،ادارہ اورریاست کے لیے نقصان دہ ہے ۔اس پر خصوصی توجہ درکارہے ۔گمراہی کی ترویج زبان سے ہو یا قلم سے پرنٹ میڈیا میں ہو یا الیکٹرانک میڈیا میں ،ٹی وی ٹاک شوز میں ہویاسوشل میڈیا میں اس کا انسداد وقت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے ۔سوشل میڈیا میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ،صحابہ کرام ،آئمہ دین واولیاء عظام سے متعلق جھوٹے اقوال وروایات کو پھیلایا جاتاہے۔جزاء وسزا سے متعلق ایسی من گھڑت افواہیں اسلام کی طرف منسوب کی جاتیں ہیں جن کا اسلام سے دور تک بھی کوئی تعلق نہیں ہے ۔اس عمل کی روک تھام کے لیے سنجیدہ کوشش کا ہونا ضروری ہے ۔ہم امید کرتے ہیں جلدحکومت اس پر توجہ دے کر نسل نو کو بے راہ روی اور جھوٹے افکار وخیالات سے محفوظ بنائے گی ۔آزادی اظہارِرائے ہرشخص کی بنیادی حق ہے مگراس حق کے اسلام میں کچھ اصول ہیں جن کا مطالعہ ازحدضروری ہے ۔

ہم سب جانتے ہیں کہ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے ۔یقینا ہم سب چاہتے ہیں کہ جانیں کہ اسلام ہمیں آزادی اظہارِ رائے میں کتنی وسعت اور فراخی دیتاہے ۔زبان وبیان میں کس قدر پابندی عائدکرتاہے۔آزادی اظہارِرائے کے ضابطے کیا ہیں ان کی نص اثبات وجوب کے اشارے ہماری کیا رہنمائی کرتے ہیں ۔یہ بات تویقینی ہے کہ خلق خدا کوزبان سے متعلق نہ ہی کھلی چھوٹ دی گئی ہے نہ تالے لگائے گئے ہیں۔اسلام میں حقوق کے خصائص اورامتیازات بہت وسیع ہیں سیاسی حقوق،اقتصادی حقوق،معاشرتی حقوق،ثقافتی حقوق ان حقوق کی تکمیل میں رنگ ،نسل اورزبان کی تقسیم رکاوٹ پیدا نہیں کرتی اسلام نے انسانی حقوق کے دائرہ کو بہت وسعت دی ہے ۔

چونکہ آج ہمارا موضوع آزادی اظہارِ رائے ہے اورآزادی اظہارِ رائے سے مراد ہے کہ انسان کو مکمل آزادی کے ساتھ اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کا حق حاصل ہے۔انسانی فطرت یہ تقاضاکرتی ہے کہ ہرانسان اپنے من کی بات پوری آزادی سے کرے اگر یہ حق صلب کرلیا جائے توانسانی سے زندگی لطف اورمسرت ختم ہوجائے ۔انسانی خوشی اور مسرت کودوبالاکرنے کے لیے یہاں بھرپور آزادی دی گئی ہے۔آزادی اظہارِرائے کامقصد خیرخواہی کو پروان چڑھانا ہے۔باہمی گفتگو اورمشاورت کے ذریعے معاشرے کے مفادات کاتحفظ کرنا اور انسانی قدروںکو پامال ہونے سے بچانا ہے۔آزادی اظہارِ رائے کا مقصد ہے انفرادی اوراجتماعی اعتبار سے انسانی عظمت کوفروغ دینا اور ان تمام امور کو کالعدم قرار دینا جن کی وجہ سے انسانی قدریں پامال ہوتی ہیں۔ معاشرے میں نیکی کو پروان چڑھانا اور منکرات ،فحش اوردروغ گوئی اوربرائی کے سامنے دیوار کھڑی کرنا ۔اسلام میں آزادی اظہارِ رائے کے لیے حدود قائم کی گئی ہیں تاکہ خالق اورمخلوق کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے ۔نظریہ آزادی اظہارِرائے کو سمجھنا بہت آسان ہے آیئے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

۱۔اسلام آزادی اظہارِ رائے کے لیے ایسااسلوب اختیار کرنے کی دعوت دیتا ہے جس میں حکیمانہ فکر ،عام فہم الفاظ نصیحت پر مبنی دعوت اورایسا مباحثہ مقصود ہے جو برابری اوراحترام کی بنیاد پر ہوجس میں نفرت ،رنجس کا شائبہ تک نہ ہو۔ایسامباحثہ جہاں رائے پر دلیل غالب آئے جہاں انفرادی رائے پر مشاورت بھاری ہوجہاں دلائل کے ٹکرانے پر تطبیق پیدا کی جائے یعنی درمیانی راہ کا انتخاب کیا جائے ۔اللہ تعالیٰ نے سورہ نحل آیت نمبر ۲۵ میں اس کی وضاحت فرمائی ہے :’’تواپنے رب کی طرف دعوت دے اچھائی اوربھلائی کے ساتھ اورمباحثہ کے لیے احسن انداز اختیار کرجو بہت ہی اچھا ہو،تیرا رب خوب جانتاہے اس کو جو اس کی راہ بھٹکاہوا ہے‘‘اللہ تعالیٰ حکم دے رہا ہے کہ مباحثہ کے دوران بھی بحث کا انداز احسن ہونا چاہیے ۔

احسن ایسے اندازِ بیان کوکہتے ہیںکہ جس میں رنجش نہ ہو،زبان میں تلخی نہ ہو ،لہجے میں کڑواہٹ کا شائبہ نہ ہواسے احسن کہتے ہیں بیان وزبان شہدکی طرح میٹھا ہویعنی اعلی سے اعلی انداز گفتگو ایسی گفتگو کے مدمقابل تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے ۔سورہ طہ آیت ۴۴ میں فرمایا ’’ایسی نرمی سے بات سمجھاناشائد کہ وہ سمجھ حاصل کرے یا ڈر جائے ‘‘سورہ فصلت آیت ۳۴ میں فرمایا ’’نیکی اوربرائی آپس میں برابر نہیں ہوسکتیں تواس کادفاع کر جو اچھی ہے چنانچہ وہ شخص ،تیرے اوراس کے درمیان عداوت ہے (یوں ختم ہوجائے گی )گویاوہ تمہارا گہرا دوست ہے۔‘‘یعنی اگر اسلوب اچھا اورعمدہ ہوگا تواس کا ثمر نفرت کا خاتمہ اورمحبت کا پروان چڑھنا ہے۔اسی لئے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ ایمان کی تکمیل عمدہ اخلاق سے ہے‘‘اسی لئے خاموشی کوصدقہ قرار دیا گیا ہے اورزبان کے عیوب سے پناہ طلب کی گئی ہے۔

۲۔اسلامی معاشرے میں حضرت انسان کی حفاظت کے لیے اظہارِ رائے پر پابندی بھی عائد کی گئی ہے تاکہ زبان کی شراورزیادتی سے حضرت انسان کو محفوظ رکھاجاسکے ۔چونکہ زبان وبیان کے ذریعے بدتمیزی اورہتک عزت زیادہ گھمبیر مسائل پیدا کرتی ہے۔اہل عقل کا کہنا ہے کہ تلوار کے گھائو بھرجاتے پرزبان سے لگائے گئے گھائو جلدی نہیں بھرتے۔اسی لئے اللہ تعالیٰ نے سورہ مائدہ آیت ۱۴۸ میں ارشادفرمایا’’اللہ تعالیٰ بری بات کے علانیہ اظہار کو پسندنہیں کرتا مگر جومظلوم ہے(اسے استثنیٰ ہے)‘‘سورہ نور کی آیت ۱۹ میں فرمایا ’’بے شک وہ لوگ جو پسند کریں کہ اہل ایمان میں بے حیائی کاچرچا ہوجائے ان کے لیے دنیااورآخرت میں دردناک عذاب ہے‘‘۔

اسی طرح سورہ حجرات میں اظہار رائے کی آزادی کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ انسان کسی کا تمسخر نہیں کرسکتا، کسی کی غیبت نہیں کرسکتا، کسی پر بہتان، الزام تراشی، یاکسی کی ذاتی زندگی کے عیب نہیں ٹٹول سکتا، حتی کہ کسی کو برے نام اور القاب سے نہیں پکار سکتا۔اسلام اعتدال پسند ہے، فساد کے خلاف ہے۔ چنانچہ اسلام نے رائے کی آزادی کے ساتھ یہ حکم بھی دیا کہ انسان رائے دینے میں حیوانوں کی طرح بے مہار نہیں، بلکہ اس کی اظہار رائے کی آزادی کچھ حدود کی پابندی عائدکی ہے بلکہ ایک مقام پر ارشاد فرمایا مایلفظ من قول الا لدیہ رقیب عتیدانسان کوئی لفظ زبان سے نہیں نکالتامگر اس پر نگران مقرر ہوتاہے۔

۳۔اسلام نے اچھی بات کو پروان چڑھانے کی ترغیب دلائی ،بری بات کرنے سے منع کیا گفتگو میں توازن قائم کرنے کرنے کے لیے دلیل کے رجحان کو پروان چڑھایا تاکہ کوئی معاشرے میں اچھے طریقے اورسلیقے سے فضولیات کو پروان نہ چڑھاسکے ۔اچھے اخلاق کی آڑ میں منفی خیالات کی ترویج نہ کرسکے ایسی لادینیت اورفضولیات کوروکنے کے لیے دلیل کو لازم قرار دیا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’ کہہ دیجئے گر سچے ہوتودلیل لے کرآئو‘‘سورہ حجرات میں فرمایا ’’ اگرتمہارے پاس کوئی فاسق خبرلے کرآئے توپہلے تصدیق کرلو‘‘یعنی انفرادی اوراجتماعی طورپر منبر یا عوامی سٹیج پر ،پارلیمنٹ یا اجتماع میں سوشل میڈیا یا ٹی وی پر کوئی جھوٹی خبر نہیں دے سکتا ،کوئی سنی سنائی بات بغیر تحقیق کے آگے شئیر نہیں کرسکتا۔

مگربدقسمتی وطن عزیز کے اندر سوشل میڈیا ہفوات وخبائث کا پلیٹ فارم ہے۔اس کے مثبت اثرات کم منفی زیادہ ہیں ۔جھوٹی خبریں ،جھوٹے بیانات چوبیس گھنٹے گردش کرتے رہتے ہیں ۔اپوزیشن اورحکومت کے ارکان ایک دوسرے پر لعن طعن کرتے رہتے ہیں افسوس ناک امر یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے عظیم فورم پرجہاں لوگوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے قانون سازی کی جاتی ہے وہاں ارکان پارلیمنٹ الزامات کی بوچھاڑکررہے ہوتے ہیں وہاں شیم شیم ،لعنت لعنت کی صدائیں بلندہورہی ہوتی ہے۔وطن عزیزکے سب سے بڑے مشاورتی فورم پر اس طرح کی گفتگو ہماری اجتماعی بے حسی کی نشاندہی کرتی ہے۔

۴۔آئین پاکستان کا آرٹیکل 19 – A تمام شہریوں کو آزادی اظہار کا حق فراہم کرتا ہے۔ یہ بنیادی حقوق میں سے ایک ہے جسے آئین پاکستان کا تحفظ حاصل ہے۔ اظہارِ رائے کی آزادی کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ آرٹیکل 19 – A ہر پاکستانی کے لئے اس حق کو یقینی بناتا ہے اور آئین کی اسی آرٹیکل کے تحت ذرائع ابلالغ کو بھی اظہار رائے کی آزادی فراہم کرتا ہے۔آزادی رائے کے اظہار کا حق اس بات کی اجازت بھی نہیں دیتا کہ آپ کسی کی تضحیک کریں ، اسے مذاق کا نشانہ بنائیں ۔

خاص طور پر معاشرے کے کمزور طبقوں کے تناظر میں اس امر کی حقیقت بڑھ جاتی ہے کیونکہ ایسی کسی بھی صورت میں ملک خانہ جنگی کا شکار ہو سکتا ہے اور باہمی تعصبات تشدد کی راہ اختیار کر سکتے ہیں۔ اسی لئے ایسی رائے جس سے تشدد پیدا ہونے کا خطرہ ہو اور ریاست نان اسٹیٹ ایکٹرز کے نشانے پر آجائے کو آرٹیکل 19کی حد میں نہیں رکھا جا سکتا۔آزادی رائے کا اظہار انسانیت کی تذلیل کی اجازت نہیں دے سکتا ۔باالفا ظ دیگر یہ بہت ضروری ہے کہ ریاست آزادی اظہارِ رائے کے قانون صحیح معنوں میں نافذالعمل کرے۔

جواب چھوڑ دیں