میرٹ بنام بلاول بھٹو و مراد علی شاہ

یہ معاملہ آکسفورڈ یونیورسٹی سے گریجویٹ بلاول بھٹو کی توجہ چاہتا ہے، یہ معاملہ اسٹینفورڈ یونیورسٹی سے پڑھنے والے مراد علی شاہ کی توجہ چاہتا ہے۔ یہ بظاہر سادہ سا معاملہ ہے لیکن یہ ہر پاکستانی کی دیرینہ خواہش ہے کہ وہ اپنی زندگی میں اس کا عملی نفاذ دیکھنا چاہتا ہے کئی ملین افراد اس خواب کو لیے لیے دنیا سے رخصت ہوگئے کئی ملین افراد کی زندگی کی شام ہوگئی کئی ملین نوجوان ہیں جن کو یہ خواہش ورثے میں ملی ہے یہ چند افراد کی بات نہیں یہ پورے معاشرے کا معاملہ ہے۔

یہ میرٹ کا معاملہ ہے کہ جس سے کسی بھی معاشرے کی ترقی و خوشحالی وابستہ ہوتی ہے، اس لیے معذرت کے ساتھ میری یہ تحریر عام آدمی کے لیے نہیں ہے، میری یہ تحریر بلاول بھٹو زرداری کے نام ہے، میری یہ تحریر وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے لیے ہے۔ یہ تحریر عام آدمی کے لیے اس لیے نہیں کہ ہر آدمی میرٹ کی پامالی کا براہ راست یا بالراست شکار ہے اور ہر آدمی بخوبی واقف ہے کہ میرٹ کی پامالی نے مایوسی کو ہمارے معاشرے کا نمایاں جُز بنادیا ہے۔

اسی لیے یہ صرف بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ کے نام ہے، ان کے فرنٹ لائن ساتھیوں ترجمانوں و اراکین پارلیمنٹ کے لیے ہے ،کیونکہ یہ لوگ ہی معاشرے سے مایوسی کی اس فضا کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔ یہ معاملہ محض چند سو خاندان کا معاملہ نہیں بلکہ پورے معاشرے کا ہے، پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت نے اپنے پچھلے دور میں IBA جیسے مستند ادارے کے ذریعے 957 ہیڈماسٹرز کو کنٹریکٹ پہ بھرتی کیا جس میں میرٹ و شفافیت کو ہر سطح پر یقینی بنایا، اس کے بعد ان ہیڈ ماسٹرز کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق انڈکشن ٹریننگ بھی دی گئی اور صوبے کے مختلف پرائمری اسکولوں میں تعینات کردیا۔

ریفارم سپورٹ یونٹ و محکمہ کے دیگر اعلیٰ افسران نے مختلف مواقع پر اظہار خیال کرتے ہوے کہا کہ یہ ہماری آخری کوشش ہے نئے بھرتی ینگ ہیڈ ماسٹرز چینج ایجنٹ ہیں اگر ان ہیڈ ماسٹرز کے ذریعے بھی محکمہ تعلیم میں مثبت تبدیلی نہ آئی تو ہم محکمہ تعلیم کو پرائیویٹ ہاتھوں میں دے دینگے، نیا جذیہ نیا خون نے اسکولوں میں پہنچتے ہی دن رات ایک کردئیے اور لگن و محنت سے متعلقہ اسکولوں میں انقلابی تبدیلیاں لانے میں کامیاب ہوے اور چند ماہ میں متعلقہ سرکاری اسکولوں کو پرائیویٹ اسکولوں کے مقابلے میں لا کھڑا کیا۔

تعیناتی کے وقت تعلیمی صورت حال انتہائی ابتر تھی ،تو تعیناتی کے ساتھ ہی ان ہیڈ ماسٹرز کو پست شرح داخلہ ڈراپ آؤٹ کی بڑھتی شرح، تعلیمی سہولیات کا فقدان،بجٹ کا نہ ہونا،کھنڈر نماں عمارتیں،غیر تربیت یافتہ اساتذہ اور ان سے بڑھ کر ایجوکیشن مافیا کی مخالفت و مزاحمت کا سامنا رہا ،جو آج بھی پیش پیش ہے۔ مگر ــ ’ہمت کرے انسان تو پھر کیا نہیں بس میں ‘ کے مصداق یہ ہیڈ ماسٹرز جلد ہی سندھ کے تباہ حال تعلیمی نظام میں انقلابی تبدیلی لانے میں کامیاب ہوئے۔

اس ضمن میں پرائمری سطح پر اپنی مدد آپ کے تحت E-Learning کاآغاز کیا ، نصاب کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں پر بھی توجہ دی ،اساتذہ کی اپنے طور پر ٹریننگ،کلاس رومز کوٹیچرز سینٹر سے اسٹوڈنٹ سینٹر بنانا اور کمیونٹی انوالومنٹ کے ساتھ ساتھ طلبہ کی تربیت اور نظم و ضبط پر خصوصی توجہ رکھی اورکھنڈر نما  عمارتوں کی تذئین وآرائش کر کے اسکول کے ماحول کو بہتربنایا ۔ غرضیکہ وسائل نہ ہونے کے باوجود ان ہیڈ ماسٹرز نے  بیرون ممالک  جیسی  تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنایا۔ ان اقدامات سے  ماضی کے پرآشوب عہد میں جب سندھ کا تعلیمی نظام احساس شکست کی بنا پر دروں بینی ،غیر فعالیت اور گھوسٹ کلچرکا شکار تھا تو معاشرہ گدلے پانی کے جوہڑ جیسی صورت اختیار کر گیاتھا۔

IBA ہیڈ ماسٹرزاس گدلے پانی کے لیے ایسا پتھرثابت ہوئے جس سے لہروں کے بننے والے دائرے پھیلتے ہی گئے ،گھوسٹ کلچر و فرسودہ روایتی کلچر کی تہیں جو جم چکی تھی انہیں لہروں کی نذر ہو گئیں اور آنے والے دور کے لیے انداز نو کی نوید دی جس پر وزیر تعلیم سردار شاہ، سابق سیکریٹری تعلیم عبدالعزیز عقیلی و قاضی شاہد پرویز اور دیگر اعلیٰ افسران ان ہیڈماسٹرز کی کارکردگی کو سراہتے رہے اور متعدد موقعوں پر وزیر تعلیم و سیکریٹری تعلیم نے مستقلی کے وعدے تو کیے لیکن جولائی 2020 سے رموول فرام سروس کا لیٹر تھما دیا جس پر آئی بی اے ہیڈ ماسٹرز نے کراچی میں احتجاج کیا تو کچھ وزرا کو یہ بات ناگوار گزری جوکہ پیپلزپارٹی کے منشور کے بھی خلاف ہے۔

حکومت و عوام کا تعلق ماں اور بچے کے مترادف ہے بچے توجہ حاصل کرنے کے لیے ماں کے سامنے نہ روئیں تو کس کے سامنے جاکر گڑگڑائیں؟ پنجاب حکومت نے NTS کے ذریعے کنٹریکٹ پر ہیڈ ماسٹرز اور AEOs بھرتی کیے اور ان کے احتجاج پر ماں جیسا سلوک کیا اور انہیں اسمبلی ایکٹ کے زریعے مستقل کردیا لیکن سندھ کے ہیڈ ماسٹرز سندھ حکومت کے ماں جیسے سلوک کے منتظر ہیں، ماضی میں پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت ہزاروں گریڈ 17 کے ملازمین کو اسمبلی ایکٹ کے ذریعے مستقل کر چکی ہے جن کی اکثریت بغیر کسی ٹیسٹنگ سروس کے بھرتی کی جاتی رہی۔

اس کے علاوہ اپنے حالیہ دور حکومت میں سندھ حکومت وٹنری ڈاکٹرز، گریڈ 17 سے 20 میں لا ڈیپارٹمنٹ کے ملازمین، اطلاعات و اکاونٹس کے گریڈ 17 کے ملازمین، خیرپور میڈیکل کالج کے گریڈ 17 سے 20 کے ملازمین اور ہزاروں ایڈہاک ڈاکٹرز کو اسمبلی ایکٹ کے ذریعے مستقل کرچکی ہے لیکن IBA جیسے مستند ادارے کے ذریعے بھرتی ہیڈ ماسٹرز کو تین سال بعد کہا جارہا ہے کہ SPSC جائیں دوبارہ ٹیسٹ انٹرویو دیں جوکہ نہ صرف نپوٹزم و ناانصافی ہے بلکہ میرٹ کا کھلم کھلا استحصال ہےSPSC کی کریڈیبلٹی پر سپریم کورٹ نے بھی سوال اٹھائے ہیں جبکہ IBA کے ذریعے سندھ ہائیکورٹ اپنے ججز بھرتی کررہی ہے۔

ایسے میں اسٹینفورڈ یونیورسٹی امریکا سے پڑھ کر آنے والے وزیراعلیٰ اور آکسفورڈ سے گریجویٹ بلاول بھٹو زرداری کو تو میرٹ کی حوصلہ افزائی کرنا چاہئے تاکہ پیپلزپارٹی پر لگے نپوٹزم کے دھبے چھٹنے میں مددگار ہو اور میرٹ کا بول بالا ہو، امید ہے کہ بلاول بھٹو و وزیراعلیٰ سندھ اس تحریر کے بعد سندھ کے ہیڈ ماسٹرز سے وہی سلوک کرینگے جو پنجاب حکومت نے اپنے کنٹریکٹ ہیڈ ماسٹرز سے کیا ہے۔

جواب چھوڑ دیں