کرونا اور تعلیمی ادارے

پاکستان میں کرونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے ادارے بہت متاثر ہوئے ہیں۔مسائل اور آفتیں دراصل ایک قوم کی آزمائش ہوتی ہیں کہ مشکل وقت میں ادارےاپنا نظام کیسے جاری رکھتے ہیں افسوس کہ ہم ابھی تک ترقی پذیر کی قطار میں کھڑے ہیں ادارے پہلے ہی اتنے مضبوط نہیں تھے باقی کی رہی سہی کسر اس وبا نے پوری کر دی ہے۔اگر بات تعلیمی اداروں کی کی جائے تو قوم کے لئے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ تمام تعلیمی ادارے بشمول کالجز یونیورسٹیز اور تمام پرائیویٹ تعلیمی ادارے بھی بند پڑے ہیں۔جس کی وجہ سے بچوں کی تعلیم کا نقصان ہو رہا ہے۔جتنے عرصے سے ادارے بند ہیں ان کا سال ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔

اب یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ زندگی باقی رہ گئی تو تعلیم بھی ہوتی رہے گی۔لیکن فراغت کے ان لمحات میں بچوں کی عادتیں بگڑ جانے کا خدشہ موجود ہے جس سے بچنے کے لیے ایک جاندار قسم کی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔اکیلے والدین کے لئے لیے بچوں کی تعلیم و تربیت کا کام مشکل ہوتا جا رہا ہے۔۔یونیورسٹیز اور کالجز کی سطح پر تو آن لائن کلاسز جاری ہیں لیکن ہائی لیول کے سرکاری اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا موازنہ کیا جائے تو پرائیویٹ ادارے مضبوط دکھائی دیتے ہیں۔

پرائیویٹ اداروں نے کسی نہ کسی طرح واٹس ایپ میسجز اور آن لائن کلاسز کا آغاز کر کے بچوں کی پڑھائی اور مصروفیت کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جو کہ ایک خوش آئند عمل ہے والدین بھی مطمئن دکھائی دے رہے ہیں کہ بچے بیٹھ کر آن لائن کلاسیز لے رہے ہیں اور واٹس اپ کے لیکچرز کے زریعے پڑھائی کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔

پرائیویٹ اداروں نے گورنمنٹ کے کہنے پر فیسوں میں بھی کمی کی ہے۔کچھ لوگ پرائیوٹ اداروں کے مالکان کے خلاف باتیں کر رہے ہیں کہ ان لوگوں نے اپنے کاروبار کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے لوگوں کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو ان اداروں سے ہٹالیں اور گھر میں بیٹھ کر پڑھائیں یا محلے میں ٹیوشن رکھوا لیں۔اس طرح سے والدین اضافی خرچہ سے بچ جائیں گے۔اب اگر دیکھا جائے تو محلے کی تعلیم یافتہ خواتین اول تو کرونا کا مسئلہ ہونے کے بعد بچوں کو اکٹھے بٹھا کر پڑھانے کے لئے تیار نہیں ہیں اور اگر وہ مانتی ہیں تو اس شرط پر کہ فیس زیادہ ہو گی۔

اس سے بہتر ہے کہ پھر والدین پرائیوٹ اداروں میں جہاں بچوں کو داخل کروایا ہوا ہے وہیں پر نصف فیس ادا کرکے وٹس ایپ اور آن لائن کلاسز کے ذریعے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھیں۔والدین کو تھوڑی سی نگرانی کرنی پڑے گی اور یہ سلسلہ کافی حد تک ان کے بچوں کی تعلیم کے لئے ٹھیک رہے گا۔۔اور دوسری اہم بات یہ کہ یہ محض پرائیویٹ اداروں کے مالکان کے کاروبار کی بات نہیں ہے یہ سوچا جائے کہ پرائیویٹ اداروں کے اندر بہت سے ٹیچرز اور ملازمین کا روزگار بھی جڑا ہوا ہے۔

اگر پرائیوٹ اداروں پر بے جا تنقید کر کے ان کو بند کروانے کی کوشش کی گئی تو بہت سے بچوں کا تعلیمی سلسلہ اور بہت سے لوگوں کا روزگار ختم ہونے کا خدشہ ہے۔۔۔

دوسری طرف سرکاری اداروں کو دیکھ لیجیے آغاز میں تعلیمی لیکچرز کے حوالے سے ایک ویب سائٹ بتا کر ایک لمبی خاموشی اختیار کرلی گئی ہے۔۔ہونا یہ چاہئے تھا کہ اداروں کے ذمہ داران کو پابند کیا جاتا کہ یہاں سے آن لائن لیکچرز تیار کرکے سٹاف کے ذریعے بچوں تک ڈلیور کیے جائیں بچوں کے ساتھ رابطے کا سلسلہ فون کے ذریعے یا نیٹ کے ذریعے بحال کیا جائے اور انہیں لیکچر سننے پر پابند کیا جائے۔۔۔۔لیکن ایسی کوئی ہدایات جاری نہیں کی گئیں ۔

سرکاری ملازمین تو جب تک سر پر ڈنڈا نہ رکھا جائے کوئی کام کرنے کے لئے آمادہ ہی نہیں ہوتے۔نتیجہ یہ ہے کہ سرکاری اداروں کے بچے گلیوں میں پرانے زمانے کی گیمز گلی ڈنڈا بندر کلہ اور پٹھو گرم کھیلتے ہوئے پائے گئے ہیں یا واٹس ایپ اور فیس بک چلاتے نظر آرہے ہیں۔ کتابیں بند کر کے رکھ دی گئی ہیں اور تعلیم کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے۔۔

پرائیوٹ اداروں پر تنقید کرنے والےخود ہی جائزہ لے لیں کہ سرکاری تعلیمی ادارے مضبوط ہیں یا پرائیویٹ تعلیمی ادارے کہ جن کے سر پر سرکار کا ہاتھ بھی نہیں ہے۔؟؟؟ اور پھر بھی انہوں نے بچوں کو ایک مربوط نظام کے ذریعے اپنے ساتھ رابطے میں رکھا ہوا ہے۔۔۔سرکار کی طرف سے تعلیمی اداروں کو صاف رکھنے کی ہدایات بار بار آ رہی ہیں ڈینگی سے بچنے کے طریقے بتائے جارہے ہیں لیکن تعلیم کے سلسلے میں کوئی واضح رہنمائی نہیں دی جا رہی ہے۔گزارش ہے کہ سرکار بھی اپنے بچوں کو آن لائن کلاسز کے لیے اپنے ٹیچرز کو پابند کریں اور لیکچرز کا سلسلہ جاری کریں کیوں کہ something is better than nothing ..بچے کسی نہ کسی طرح سے اپنے اسکول اور اپنی پڑھائی سے جڑے رہیں گے کتابیں بھی کھولیں گے اور کرونا جیسی وبائی مرض کی خبریں سن سن کر نفسیاتی مریض ہونے سے بہتر ہے تعلیم پر اور ہوم ورک پر اپنا ذہن لگائے رکھیں۔

سرکار اس لحاظ سے قابلِ داد ہے کہ کافی حد تک ٹیچر کا پڑھانے کا پرانا طریقہ تبدیل کر لیا گیا ہے بچوں کی مار کٹا ئی اور بے جا سختی ‘ ذاتی کام کروانے اور اس طرح کی بہت سی پرانی روایات سے جان چھڑا لی گئی ہے۔اساتذہ اور ہیڈز کی رزلٹس خراب آنے پر ان کی انکوائری اور سزاؤں کی وجہ سے اب رزلٹ بھی کافی بہتر ہوگئے ہیں۔۔

نان سیلری بجٹ فنڈز مہیا کر کے سرکاری اسکولوں کی عمارتوں کو بھی کافی حد تک پر کشش بنا لیا گیا ہے اعلی تعلیم یافتہ اساتذہ بھی مہیا کیے گئے ہیں۔لیکن اگر پرائیویٹ اور سرکاری اسکولوں کا موازنہ کیا جائے تو آفت کے اس مشکل مرحلے میں تعلیمی نظام کو سنبھالنے کے حوالے سے پرائیویٹ تعلیمی ادارے صف اول پر کھڑے ہیں۔۔۔سرکار کو اس ضمن میں ابھی مزید محنت توجہ اور بہت اعلی قسم کی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

جواب چھوڑ دیں