نیگرو انقلاب کے داعی 

دنیا کی تاریخ کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ غلامی کا شکار زیادہ تر سیاہ فام یا نیگرو لوگ ہوئے ہیں۔اس کی دو بڑی وجوہات ہیں ایک یہ کہ دوسروں کی نسبت وفاداری،ایمانداری اور دوسرا سڈول جسم کی بنا پر کام کی رفتار کا زیادہ ہونا۔دونوں خوبیوں کا ہونا اس بات کی دلیل تھی کہ مالک کی معاشی معاونت میں بھرپور کردار۔حبشہ کے بازاروں سے فروخت ہوتے ہوتے جب حضرت بلال حبشی مکہ پہنچے تو ایک رات ان کا سامنا آقا ئے دوجہاں ؐ سے اس وقت ہوتا ہے جب حضرت بلال تیز بخار میں مبتلا ہونے کے باوجود مالک کی طرف سے دئے گئے گیہوں کو چکی کی مشقت سے آٹا بنانے میں مصروف تھے۔

یعنی حضرت بلال ؓ تیز بخار اور نقاہت سے کراہ بھی رہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ چکی بھی چلا رہے تھے،اتنے میں آنحضور ؐ ان کے پاس تشریف لے جاتے ہیں اور ان کی بیمار پرسی اورمشکل کے حل کا وعدہ فرما کرر خصت ہو جاتے ہیں،حضرت بلال ؓ پھر سے چکی چلاتے جاتے ہیں اور سوچتے جاتے ہیں کہ لوگ پوچھنے آجاتے ہیں مگر امداد کوئی بھی نہیں کرتا مگر تاجدار کائنات تھوڑی دیر بعد دست ِ مقدس میں دووھ کا پیالہ اور کچھ کھانے کو لے کر حضرت بلال کے پاس تشریف لاتے ہیں۔انہیں دودھ اور کھانا دے کر فرماتے ہیں کہ یہ تناول فرما کر آرام فرمائیے اور میں آپ کی خاطر چکی چلاتا ہوں۔

حضرت بلال ساری رات گہری نیند کے مزے لیتے ہیں اور صبح جب بیدار ہوتے ہیں تو ان کا سارا کام پیارے آقا ﷺ کر چکے ہوتے ہیں دوسرے روز بھی ایسا ہی ہوتا ہے لیکن دوسرے روز حضرت بلال کی روحانی دنیا مکمل تبدیل ہو چکی ہوتی ہے۔یہ واقعہ مکہ کی تاریخ میں انسانی مساوات کا ایسا انقلاب برپا کرتا ہے کہ ایک غلام کو موذن رسول اور خازن ِ رسول بنا دیا جاتا ہے۔

وفاداری کا یہ عالم ہے کہ جب آپ ؐ کا وصال ہوتا ہے تو مدینہ میں رکنے کو دل نہیں کرتا سب سے پہلے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے دورخلافت اور پھر حضرت عمر ؓ کے دورِ خلافت میں مدینہ سے رخصتی کی اجازت چاہتے ہیں مگر اجازت مرحمت نہ ہونے کی بنا پر مدینہ میں سکونت اختیار کرتے ہیں تاہم حضرت عثمان غنی ؓ کے دور میں اجازت لے کر رخصت ہوتے ہیں تو پھر واپس مدینہ مستقل سکونت کے لئے کبھی نہیں آئے۔یہ تھی حضرت بلال ؓ کی وفاداری،جانثاری اور انقلاب کے داعی کی آواز پر لبیک کی ایک مثال جو رہتی دنیا تک زندہ رہے گی۔

مارٹن لوتھر کنگ جونئر اور نیلسن منڈیلا کی نسلی تعصب کے خاتمہ کے لئے قربانیوں کی اگر دیکھا جائے تو تاریخ اس بات کی شاہد ہوگی کہ نیگرو قوم کے لئے انہوں نے اپنی پوری زندگی وقف کر رکھی تھی۔ بلکہ نیلسن منڈیلا نے تو اپنے اس عظیم مقصد کے لئے اٹھائیس سال کی قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں،ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب وہ جیل گئے تھے تو جوان تھے اور جب رہا ہوئے ان پہ بڑھاپا آچکا تھا لیکن کمال ہے اس شخص کی قوت ارادی کا کہ انہوں نے اپنے مقصد کو بوڑھا نہیں ہونے دیا۔اسے اسی طرح جوان رکھا بلکہ اس مقصد میں اور شباب کا رنگ بھر دیا کیونکہ جب وہ جیل سے رہا ہوئے تو نسلی تعصب کی تحریک ایک انقلاب بن چکی تھی اور یہی ان کی کامیابی تھی۔

جنوبی افریقہ میں نسلی تعصب کا خاتمہ ہوا،آزادی ملی اور نیلسن منڈیلا پانچ سالوں کے لئے ملک کے صدر منتخب ہوئے تاہم دوسری مرتبہ انتخابات میں حصہ یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اب نوجوان نسل کو ملک کی باگ ڈور سنبھالنی چاہئے۔یہ ہوتی ہے لیڈر شب کی خوبی میرے ملک کی طرح نہیں کہ ایک بار جو طاقت کا مزہ لیا تو پھر ایسا چسکہ پڑا کہ تین تین بار حکومت کرنے سے بھی من نہیں بھرتا۔

حالیہ امریکی صورت حال کہ جس میں ایک پولیس مین نے ایک نیگرو جارج کلائیڈ کو محض بیس ڈالر کا جعلی نوٹ چلانے کے جرم کی پاداش میں جان سے مار ڈالا۔حالانکہ وہ پولیس کی حراست میں تھا اور کہیں بھاگا بھی نہیں جا رہا تھا۔اس ایک شخص کی موت نے نیلسن منڈیلا کی تحریک کو ایک بار پھر سے زندہ کردیا ہے اور مارٹن کے خیالات کو اپنی جان کی قربانی دے کر جلا بخشی ہے کیونکہ نسلی تعصب کے خاتمہ کی تحریک ایک بار پھر ایک ایسے انقلاب کا پیغام لا رہی ہے کہ یا تو اب امریکہ میں اس کا خاتمہ ہو کر رہے گا یا پھر ایوانوں میں اس کی گونج تادیر گونجتی رہے گی اور جارج کلائیڈ کی اس سوچ کو زندہ رکھے گی جو وہ اکثر اپنے دوستوں میں کہا کرتا تھا کہ میں دنیا کو بدلنا چاہتا ہوں۔

اگرچہ اسے اس بات کا قطعی کوئی اندازہ نہیں تھا نہ ہی اس کے پاس کوئی لائحہ عمل تھا نا ہی کوئی انقلابی سوچ اور نعرے کہ جس سے اندازہ ہو سکے کہ وہ ایک انقلاب چاہتا ہے کیونکہ وہ تو ایک نشہ کا عادی شخص تھا بے روزگار بھی تھا سزا یافتہ بھی تھا،مگر اس کی سوچچ یہ ضرور تھی کہ اسے دنیا میں تبدیلی کے لئے ضرور کچھ کرنا ہے ۔دنیا گواہ ہے کہجو کام وہ زندہ رہ کر نہیں کرپایا اس کی موت نے وہ کردکھایا ۔

جارج کلائیڈ کی موت نے نہ صرف نسلی تعصب کے خاتمہ کی آواز کو ایک بار پھر سے اٹھایا ہے بلکہ اس تحریک میں گورے بھی اب شامل ہو رہے ہیں کہ پوری دنیا میں جارج کے حق میں اور نیگرو لوگوں پہ تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کے خلاف کالوں کے ساتھ ساتھ گوروں نے بھی ان کی آواز کے ساتھ آواز شامل کرنا شروع کردی ہے۔گویا ایک اور نیگرو کی موت ایک نئے انقلاب کی آواز بن جائے گی۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں