اگلے لمحے کو اپنا نہ سمجھیں

زندگی واقعتاً حادثات سے پُر ہے ۔ اچانک ہمارے دل دکھ سے بھر جاتے ہیں کہ ہونے والا واقعہ لمحوں میں ہو جاتا ہے۔ اسی لئے تو ہر وقت برے وقت ، برے واقعات ، برے لوگوں اور برے حادثات سے پناہ مانگنے کی تا کید ہے ۔ بس اللہ ہی کی ذات مہربان ہے جو ہمیں ہر حال میں اپنے رحم کے دامن میں سمیٹے ہوئے ہوتی ہے ۔ خوش قسمت ہیں آپ اور میں کہ اتنی بڑی آزمائش “کرونا” حادثات، بیماریوں اور طوفانوں اور پریشانیوں سے بچے ہوئے ہیں ۔ ورنہ زندگی تو ہر لمحہ حادثات سے پر ہے ۔

اگلے پل کی خبر نہیں اور واقعی یہ بھی سچ ہے کہ ہر واقعہ ہمیں زندگی کی بے ثباتی کا سبق دیتا ہے ۔ بعض دفعہ تو لگتا ہے کہ یہ بے ثباتی بھی زندگی کا چارم ہے ۔ ہمارا عقیدہ آخرت واقعی بہت ہی بڑی چیز ہے ۔ جو ہماری زندگی بلکہ زندگی کا ہی حسن ہے ۔ کتنی نا پائیدار زندگی اور کتنی مختصر مگر انسان کیلئے پر کشش اور انسان کو کتنا غافل کردینے والی کبھی ہم قرآن پڑھتے ہوئے تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ کس طرح تباہ شدہ بستیوں کے واقعات جو اپنی ہی چھتوں پر اوندھے پڑے رہ گئے اور کس طرح وہ پھلوں کا باغ جو راتوں رات اجڑ گیا ۔

یہ سب اللہ کی نشانیاں پلک جھپکتے آج بھی ہمیں کسی نہ کسی صورت نظر آتی ہیں ۔ بس ایک بریکنگ نیوز ہوتی ہے اور تباہ کاریاں ناقابل یقین و برداشت اللہ اکبر! ابھی “جہاز کا واقعہ ” لینڈنگ کی تیاری گھر نظر آرہے ہیں ۔ سفر جاری ہے مگر نہیں خبر کہاں کا سفر ہے ؟ “سفر آخرت” واقعی اگلا لمحہ !!! اف میرے خدایا !!! کیسی کٹی پتنگ اور وہ کا ٹا!! اور یوں راستے بدل گئے کہانیاں بن گئیں ۔ حیرا ن آنسو خشک ہو گئے ۔

کہتے ہیں نا سکتہ طاری ہو جاتا ہے تو واقعی کچھ لوگوں پر سکتہ طاری ہو گیا ۔ وقت پھر بھی نہ رکا ۔ جسے اوپر سے ایک(ایک بلا) ایک آفت نے آلیا ۔ گھروں پر ٹکرا کر گھروں کو تباہ کرتے ہوئے جہاز کے پرخچے اڑ گئے ۔ تباہ شدہ بستیوں کی طرح ہنستے بستے گھر کھنڈر بن گئے ۔ ان لمحوں نے کیا قیامت بر پا کی ! بے ثباتی کی پہچان کروادی ، دل کانپ گئے ۔ جہاز کا کریش کتنا بڑا المیہ آگ ہی آگ ! مومن کی پہچان ہے کہ ہر حال میں صبر کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا ۔ اللہ پر توکل اسے طاقت دے دیتا ہے ۔

مگر ہے انسان زخموں سے چور اور رہنے پر مجبور ۔ کیا کھویا کیا پایا ؟ سب جان اب جانا کہ میں تو کچھ بھی نہیں تو پھر میری “میں میں ” میں کیا دم ! میرا تو اگلہ لمحہ بھی پتا نہیں ، تو میری اگلی نماز ؟ یا اگلا دن ؟ یا ا گلی عید ؟ یہ میری کیسے ہوسکتی ہے ؟ اس لئے حصار کی دعائیں تسلی دیتی ہیں ، رمضان نصیب فرما اے رب ، شوال ، عید اور خوشیاں عطا فرما اور گذرے ہوئے دنوں اور نعمتوں کا شکر ادا کرتے رہیں کہ یہ تو اللہ کی رحمتوں کا حق ہے ۔

مجھے اتنا اچھا لگا سن کہ ان اجڑے ٹوٹے گھروں کے بچ جانے والے مکین بھی سب کچھ پس پشت ڈال کر دیگر زخمیوں کو بچانے کیلئے اپنی جانیں لڑا رہے تھے یہ ہے انسانیت کا درد، بس یہی در د جگانے ، احساس اجاگر کرنے ، انسانیت کا درد عطا کرنے کے لئے ہی شاید اس قسم کے واقعات رونما ہوتے ہیںکہ بندہ خواب غفلت سے جاگ کر انسانیت کا درد محسوس کرے اور اپنے مقصد حیات کو یاد رکھے تا کہ ہمیشہ رہنے والی آخرت کی زندگی پرسکون اور دنیا کی زندگی میں سکینت پائے ۔

کتنے حادثات ، کیسی کیس موتیں ، ابھی پڑسوں وہ محترمہ ہلکی ہلکی سائنس کی تکلیف میں مبتلا ۔ اپنے چہرے سے ماسک ہٹا کر اپنی پہچان کروائی کہ میں انوری بہن ہوں ۔ اگلے دن انتقال فر ماگئیں آج تیسرا دن ہے وہ شکیل نامی بندہ افطار سے چند منٹ پہلے لفٹ کے دروازے کے درمیان پھنس کر چل بسا ۔ کونے کے گھر والے انکل خود چل کر رکشہ میں بیٹھے اور کلینک میں پہنچنے سے پہلے دنیا ہی سے چل بسے ۔ وہ باس نماز پڑھ کر جمعہ کے بعد کا درس دعا سن رہے تھے اٹیک آگیا ۔

بجلی نہیں تھی گرمی تھی چل بسے ، مطلب کسی کا کوئی وقت ، کوئی لمحہ گارنٹی نہیں کہ اس کا اپنا ہے۔ لوگ کہتے ہیںآج جی تو کھالو پی لو ، جی لو ، کل کی خبر نہیں کل کس نے دیکھی ہے ؟ ارے کل کی کیا بات !! پل کی خبر نہیں ! وہ میری دوست کہہ رہی تھیں زندگی میں ہمیشہ با وضو رہا کرو تا کہ نماز ضائع نہ ہو ہر وقت نیکی کے لئے تیاری کا ارادہ رکھو ۔ کسی نے پوچھا زندگی کتنی مختصر ہے ؟ فر مایا ! ادھر اذان ہوئی ادھر نماز ، تو کہنے لگی نماز اور اذان کے درمیان جو وقفہ ہے بس وہی زندگی ہے لہٰذا وضو کر لو ۔

واقعی دل کو لگتی ہے نا یہ بات ؟ ہمارا بھی یہی خیال ہے لذتوں کو کاٹ دینے والی موت کی ہر وقت تیاری رکھنا چاہئے ۔ تذکیر، دعا ، توبہ و استغفار کے ساتھ ۔ جب میں نے ٹی وی پر شہداء کے گھر والوں کو دیکھا ، ان کو سنا خود بخود آنسو بہہ نکلے کہ وہ شہادت کی مبارک باد اس سکون اور اطمینان سے وصول کر رہے ہیں کیونکہ شہید کے لئے رونے سے منع کیا گیا ہے تو میرے تو کچھ آنسو خشک ہوگئے ہیں مگر کیونکہ میرے بچے شہید ہوئے ہیںاس احساس نے میرے دل کو اطمینان عطا کیا ہے ۔

سبحان اللہ کیا زندگی اور کیا موت ساری بات سمجھ اور شعوری بیداری کی ہے ۔ مقصد حیات سمجھ جانے اور رب کی محبت اور فرمانبرداری میں جو سکھ چین ہے وہ کہیں مل ہی نہیں سکتا ۔ ہر شے کا دوسری شے سے تعلق ہے رشتہ ہے اللہ کا بندے سے بندے کا بندے سے جو محض احساس ، سچے جذبات اور محبت کے ہوتے ہیں ۔ اس بے اعتبارزندگی میں اصل حقیقت ان ہی سچے ، مخلص اور دل کے رشتوں کی ہوتی ہے جو بڑے سے بڑے غم کو برداشت کے قابل بناتے ہیں۔

اس مرتبہ کیسی عید آئی ؟ سب نے ہی محسوس کیا کہ واقعی عید اچھے کپڑے اچھے لباس سے نہیں بلکہ عید تو انکی ہے جو اللہ کی وعید اور پکڑ سے ڈر گئے ، اپنی توبہ پر قائم رہے ۔ اس مرتبہ لوگوں نے دل کھول کر مستحقین کی مدد کی تو واقعی احساس ہوا کہ عید ان کی نہیں جو عمدہ کھانوں ڈشوں میں کھو جا ئیں ۔ چند منٹوں کی لذت اٹھانے کے بجائے عید کی اصل خوشی تو انکو ملتی ہے جنہوں نے پوری کوشش کے ساتھ سعادت حاصل کی اور نیک بننے کی مسلسل کوشش میں ہی رہے ، گویا تقویٰ اور پرہیزگاری کو اپنا طریقہ بنا کر گناہوں کو چھوڑا یعنی صراطِ مستقیم پر گامزن رہنے کی کوشش کی ۔ بس ایک اچھی سوچ ایک اچھا عمل ایک اچھا کام جو آپ کو خوشی دے جائے وہی عید ہے ۔

جب اگلا لمحہ میرا نہیں تو مجھے اسی لمحے خود کو سنوار کر پوری امت کے لئے انسانیت کا درد رکھتے ہوئے کام کرنا ہے “رب “کو راضی کرنا ہے اگلے لمحے کے لئے کیونکہ موجودہ لمحہ تو میرے حساب کا ہے ۔ ایسا نہ ہو کہ مجھے پچھتا نا پڑے کہ میری ذراسی لغزش ذراسی لاپرواہی یا گناہ نسلوں کی سزا بن جائے اور میری آخرت بگڑ جائے ۔ میں کہوں !” اللہ میرا حال دیکھ! جواب آئے ۔ اپنا نامئہ اعمال دیکھ !! …اس لمحہ فکر کو لمحہ عمل بنائیے ۔

جواب چھوڑ دیں