میرا سانس رک رہا ہے 

مارٹن لوتھر کنگ جونئر نے 1963 میں عوام الناس کے جم غفیر سے خطاب کرتے ہوئے اپنی مشہور زمانہ تقریر i have a dream میں دوباتوں پر زور دیا تھا ایک یہ کہ سماجی اور معاشی حقوق میں یکسانیت اور دوسرا نسلی تعصب کا خاتمہ۔بلاشبہ نیلسن منڈیلا اور مارٹن لوتھر کنگ دو ایسے نام ہیں جنہوں نے سیاہ فام نسل میں سماجی،انسانی اور برابری کے حقوق کا شعور بیدار کیا۔اس خیال کی عملی شکل اس وقت دنیا کے سامنے آئی جب امریکا کے پہلے سیاہ فام صدر باراک ابامہ نے حلف اٹھایا۔

اس روز حقیقت میں دنیا نے محسوس کیا کہ باراک ابامہ کی جیت نسلی تعصب کے اس تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگی۔لیکن حالیہ ایک واقعہ نے ان تمام خیالات کو باطل قرار دے دیا جس کا خواب جدت پسند گورے اور کالے دیکھ رہے تھے۔واقعہ یہ ہے کہ ایک پولیس مین نے ایک سیاہ فام شخص کو صرف بیس ڈالر کی چوری کے عوض اس قدر تشدد کا نشانہ بنایا کہ وہ سیاہ فام اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔زندگی کی سانسیں ٹوٹتے ہوئے اس شخص نے جو آخری کلمات ادا کئے وہ یہ تھے کہ میرا سانس رک رہا ہے،میرا سانس رک رہا ہے۔

پولیس اور عوام کے درمیان یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے ایسے کئی بار دیکھنے میں آیا ہے،لیکن جارج کی ٹوٹتی ہوئی آخری سانسوں نے امریکا کی عوام میں ایسی زندگی بھر دی کہ اب تمام شہری جارج کی موت کا بدلہ لینے کے لئے سڑکوں پہ آگئے ہیں،سرکاری املاک کو نقصا پہنچایا جا رہا ہے جوکہ کسی بھی ملک میں کسی طور میں مثبت عمل خیال نہیں کیا جاتا ۔اس لئے کہ سرکاری املاک دراصل عوامی ملکیت ہوتی ہیں،ایسے اداروں اور املاک کو مقصان پہنچانے سے مراد ہوتا ہے کہ عوام اپنی دولت اپنے ہاتھوں سے ضائع کر رہی ہے اور کوئی بھی ذی شعور قوم اپنے پائوں پہ کلہاڑی خود سے نہیں مارتی۔

بات کر رہا تھا کہ ایسے واقعات ہر ملک میں ہوتے ہیں لیکن کبھی کبھار ایک واقعہ ہی بڑی بڑی تبدیلیوں ،واقعات اور انقلابات کے جنم کا باعث بھی بن جاتا ہے۔جیسے کہ باستیل جیل کا واقعہ،ٹی انقلاب کا واقعہ،چین کا انقلاب وغیرہ،وغیرہ۔انہیں انقلابات کی بنیادوں میں بہنے والا خون اور سانس کی آخری حرارت قوموں کی زندگیوں کے لئے ایسے ایسے تاج محل تعمیر کر دیتے ہیں کہ جہاں نسلیں سکون وراحت کی زندگیا بسر کرتے ہیں۔

1947 میں جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو ہر اس شخص نے اپنی جانوں کا نذرانہ یہ سوچ کر پیش کیا کہ اس کی آخری سانس آنے والی نسل کے لئے زندگی کی حرارت اور سکھ کا سانس مہیا کرے گی۔سات دہائیو ں سے زائد کا عرصہ ہوا چلا ہے لیکن قحط الرجالی اور سیاسی شعور کے فقدان نے ملک کو قرضوں کے ایسے بوجھ تلے دبا دیا کہ بائیس کروڑ عوام میں سے تقریبا بیس کروڑ تو ضرور قرض کے شکنجے میں جکڑے پکار رہیں ہیں کہ ہمارا سانس رک رہا ہے،ہمارا سانس رک رہا ہے۔

لیکن المیہ یہ ہے کہ عوام کی گردن کو دبوچنے والے اور ان کا گوشت نوچنے والے سیاسی گدھ اپنے بوجھ کو مزید دبائے جاتے ہیں اور یہ اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک جارج کی طرح میری عوام کا سانس بھی اکھڑ نہیں جاتا یا مکمل طور پہ بند نہیں ہوجاتا۔کس کس کی بات کروں ہمارا تو ہی آن،ہر ساعت،ہر لمحہ سانس رک رہا ہے،گھر سے سکول جانے کے بعد جب تک بچہ واپس گھر پہنچ نہیں جاتا بوڑھی ماں کا سانس رکا رہتا ہے،محنے مزدوری سے اپنے بچوں کا پیٹ پالنے والا باپ جب تلک شام کو گھر واپس خیریت سے نہیں پہنچ جاتا چولہے کے گرد بیٹھے اس کی بیوی اور بچے اپنی سانسیں روکے منتظر رہتے ہیں کہ خدا خیر کرے ،بیٹی یونیورسٹی سے جب تک خیریت سے گھر نہ لوٹ آئے ماں کی سانسیں رکی رہتی ہیں۔

بجلی ،گیس پانی کا بل آجائے تو عوام بلبلا اٹھتی ہے،بازار جائیں تو ہزار روپے کی ایک دن کی سبزی ترکاری پر جب خرچ ہو جاتے ہیں تو غریب کی سانسیں رک جاتی ہیں،گویا غریب ہر لمحہ مرتا ہے ،اس کی سانسیں ہر ساعت رکی ہی رہتی ہیں ،اس کی ساری زندگی اسی خوف میں گزر جاتی ہے کہ نہ جانے کب قیمتوں کی گرانی،یوٹیلیٹی بلز،اور احساس غربت کے ہاتھوں اس کی سانسوں کی رمق ٹھنڈی ہو جائے گی۔میرے ملک میں تو نہ جانے کتنے ہی جارج روزانہ مذکور مسائل کا رونا روتے ہوئے یہ کہتے کہتے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں کہ خدا را اب بس کرو کیونکہ میرا سانس رک رہا ہے۔

مل مزدور اپنے مالکان کو یہ کہتے کہتے کہ خدا را ظلم کی انتہا مت کرو میرا سانس رک رہا ہے۔غریب بیٹی کا باپ جہیز نہ دے پانے کی ہمت سے معاشرہ سے دست سوال ہوتا ہے کہ خدا را بس کرو میرا سانس رک رہا ہے۔مزدور ساہوکار کی طرف سے بیگار کاٹے جانے پہ شکوہ کناں ہے کہ خدا را بس کرو میرا سانس رک رہا ہے۔یہاں تو غریب کو مزدوری بھی ایسے ہی دی جاتی ہے جیسے کہ ان پہ احسان جتایا جا رہا ہو،گویا ان کی مزدوری کا ثمر ن ہو جیسے کہ خیرات اور زکوۃ ہو۔اقبال نے شائد اسی لئے کہا تھا کہ ؎

                   دست ِ دولت آفریں کو مزدوری یوں ملتی رہی       اہلِ ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکات

خدا کے لئے انسانوں کی بستی میں انسانیت کو سانس لینے دیجئے اس سے قبل کہ معاشرہ کی سانسیں ہی رک جائیں۔کیونکہ بانس ہوگا تو بانسری کی قیمت رہے گی،انسان ہیں تو معاشرہ ہے۔انسان ہے تو انسانیت بھی باقی رہے گی جب انسان سے اس کی انسانیت ہی چھین لی جائے گی تو پھر یاد رکھئے کہ انسانوں کی سانسیں ہیں بلکہ معاشرہ اور اقوام کی سانسیں رک جائیں گی۔لہذا اگر اہل اقتدار چاہتے ہیں کہ معاشرہ کی سانسیں چلتی رہیں تو پھر انسانیت کی سانسوں کو چلنے دیں۔اسی میں ہی انسان،انسانیت اور اقوام کی زندگی مضمر ہے۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں