رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں خواتین

(دوسرا حصّہ)(گزشتہ سے پیوستہ)

۲۔ رسول اللہ ﷺ کی ازواج: رسول اللہ ﷺ کی ازواج کو تمام مسلمان گھرانوں کے لئے ایک مثال کی حیثیت حاصل ہے، قرآنِ کریم میں جہاں ازواج کو مخاطب کر کے کوئی حکم دیا تو وہ ان کے لئے تاکیدی حکم ہے اور دیگر مسلمان عورتوں کے لئے ایک اسوہء حسنہ کی حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ جب نبی اکرم ﷺ کے گھر سے کسی پاکیزہ عمل کی ابتداء ہو گی تو باقی سارے مسلمان گھرانوں کی خواتین خود اس کی تقلید کریں گی، کیونکہ یہی گھر ان کے لئے نمونہ کی حیثیت رکھتا ہے۔

نبی کا گھرانہ وہ مرکز ہے جہاں سے ساری دنیا کو اللہ کے احکام اور ان کے نبیؐ کا طریقہ ملتا ہے، اسی لئے اس گھر میں آباد ازواجِ مطہرات بھی ایسی ذمہ دار، با شعور اور با کردار خواتین تھیں، کہ اس گھر سے برامد ہونے والا نمونہ ایمان، عمل ِ صالح اور بہترین کردار کا نمونہ تھا، جس میں جاہلیت کا شائبہ تک نہ تھا۔ ازواج ِ مطہرات جو کچھ دیکھتی اور سنتی تھیں اسے امت کی فلاح کی خاطر بیان کرتی رہتی تھیں، تاکہ حیاتِ رسول کے وہ پہلو جو دوسروں سے پوشیدہ ہیں ان کے بارے میں بھی ہدایات ان کے ذریعے لوگوں کو معلوم ہو جائیں۔

حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد بھی سرکارِ عالم ان کا بہترین الفاظ میں تذکرہ کرتے، اور ان کی سہیلیوں کو تحائف بھجواتے رہتے۔ حضرت سودہؓ سن رسیدہ تھیں، انہوں نے آخری زمانے میں اپنی باری حضرت عائشہؓ کو دے دی تھی، جسے انہوں نے خوشدلی سے قبول کر لیا ۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں: ’’میں نے کسی عورت کو جذبہء رقابت سے خالی نہ دیکھا، سوائے سودہؓ کے‘‘۔رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن حجۃ الوداع میں آپؐ کے ساتھ تھیں، آپؐ کی ازواج نے اس کے بعد بھی حج ادا کیا مگر حضرت سودہؓ اور حضرت زینب بنت جحشؓ اس کے بعد کہیں سوار ہو کر نہ گئیں، اور گھر میں بیٹھنے کو ترجیح دی۔(نساء حول الرسولﷺ، ص۵۶)

رسول اللہ ﷺ کی عائلی زندگی میں چار واقعات بہت اہم ہیں، اور حضرت عائشہؓ ان سب میں موجود ہیں،واقعہ افک حضرت عائشہؓ کے خلاف گھڑا جانے والا جھوٹ تھا، جو رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی کا برپا کیا ہوا فتنہ تھا، جو اس نے بڑی دیدہ دلیری سے پھیلایا۔ اس فتنے نے رسول ِ کریمﷺ کو بھی اذیت کا شکار کر دیا، اور آپؐ نے خطبے میں فرمایا: ’’مسلمانو! کون ہے جو اس شخص کے حملوں سے میری عزت بچائے جس نے میرے گھر والوں پر الزامات لگا کر مجھے اذیت پہنچانے کی حد کر دی ہے ۔۔ ‘‘(تفہیم القرآن، ج۳، ص۳۱۳)۔ اس طرح یہ واقعہ انسانی زندگی کی اصلاح و تعمیر کے لئے قانونی، اخلاقی اور معاشرتی تدابیر کے لئے رہنمائی کا ذریعہ بن گیا، اور پاکدامن عورتوں پر تہمت لگانے پر سخت سزا اور آخرت میں عذاب کی وعید سنائی گئی۔

واقعہء تحریم میں بیویوں کو خوش کرنے کے لئے کسی حلال چیز کو خود پر حرام کر لینے کے حوالے سے تنبیہ آئی ہے، اور صرف رسول ِ کریمﷺ کو اس فعل سے باز نہیں رکھا گیا بلکہ ازواجِ مطہرات کو ان کی نازک ذمہ داریوں کا احساس بھی دلایا گیا ہے۔ اور معاملہ شہد کھانے یا ماریہ قبطیہؓ سے ازدواجی تعلق توڑنے کا نہیں، حلال کو حرام کر لینے کا ہے، کہ کسی زوجہ (تاریخ میں شہد کے معاملے میں حضرت عائشہؓ ، حضرت حفصہؓ، حضرت سودہؓ اور حضرت صفیہؓ کا ذکر آتا ہے اور دوسرے واقعہ میںحضرت حفصہؓ اور حضرت عائشہؓ کا ) کے لئے مناسب نہیں کہ وہ ایسی تدبیر کرے۔

واقعہ ء ایلاء اس زمانے میں پیش آیا جب رسول اللہ ﷺ کی ازواج ان کو گھر کے اخراجات کے لئے مطالبہ کر رہی تھیں، اور جو غلہ اور کھجور انہیں دیا جاتا تھا اس کی مقدار ان کے لئے ناکافی تھی، ایک روز حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دیکھا کہ آپؐ کی ازواج آپؐ کے گرد بیٹھی ہیں اور آپؐ خاموش ہیں۔ آپؐ نے حضرت عمرؓ کو مخاطب کر کے فرمایا: ’’یہ میرے گرد بیٹھی ہیں جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو۔ یہ مجھ سے خرچ کے لئے روپیہ مانگ رہی ہیں‘‘۔ اس پر دونوں صاحبوں نے اپنی بیٹیوں کو ڈانٹا اور ان سے کہا کہ تم رسول اللہﷺ کو تنگ کرتی ہو اور وہ چیز مانگتی ہو جو آپؐ کے پاس نہیں ہے‘‘۔ اس وقت آپؐ کے نکاح میں چار بیویاں تھیں: حضرت سودہؓ حضرت عائشہؓ ، حضرت حفصہؓ اور حضرت امّ سلمہؓ۔ ابھی حضرت زینب سے حضورؐ کا نکاح نہیں ہوا تھا۔ (احکام القرآن، لابن العربی، ج۳، ص۱۵۱۲)

اسی زمانہ میں حضورؐ گھوڑے سے گر پڑے، اور پہلوئے مبارک پر چوٹ لگی، آپؐ نے حضرت عائشہ کے حجرے کے بالا خانے میں قیام کیا اور عہد کیا کہ ایک مہینے تک ازواجِ مطہرات کو نہ ملیں گے، منافقین نے مشہور کر دیا کہ آپؐ نے ازواج کو طلاق دے دی ہے، حضرت عمرؓ آپؐ سے ملنے گئے، اور آپؐ سے اس بارے میں پوچھا تو آپؐ نے فرمایا: ’’نہیں‘‘۔ حضرت عمرؓ نے مسلمانوں کو یہ خوش خبری سنائی جس پر ازواجِ مطہرات اور سب لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں ایک ایک دن گنتی تھی، جب انتیس (۲۹) دن پورے ہوئے تو رسول اللہﷺبالا خانے سے اتر کر سب سے پہلے میرے پاس تشریف لائے۔ میں نے عرض کی: ’’یا رسول اللہ، آپؐ نے ایک ماہ کا عہد کیا تھا اور آج انتیس دن ہوئے ہیں‘‘۔ فرمایا: ’’مہینہ کبھی انتیس (۲۹) کا بھی ہوتا ہے‘‘۔ (تذکار صحابیات، ص۵۷)

تخییر کا واقعہ ایلاء کے بعد کا ہے، ایک روز رسول ِ کریمﷺ حضرت عائشہؓ کے پاس آئے اور ان سے کہا:’’میں تم سے ایک بات کہتا ہوں، جواب دینے میں جلدی نہ کرنا، اپنے والدین کی رائے لو پھر فیصلہ کرو‘‘۔ پھر حضورؐ نے ان کو بتایا کہ اللہ کی طرف سے یہ حکم آیا ہے؛ ’’اگر تم دنیا اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ، میں تمہیں کچھ دے دلا کر بھلے طریقے سے رخصت کر دوں۔ اور اگر تم اللہ اور اس کے رسولؐ اور دار ِ آخرت کی طالب ہو تو جان لو کہ تم میں سے جو نیکو کار ہیں، ان کے لئے اللہ نے بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے‘‘۔ ( الاحزاب،۲۹)

انہوں نے عرض کیا: ’’کیا اس معاملے کو اپنے والدین سے پوچھوں؟ میں تو اللہ اور اس کے رسولﷺ اور دارِ آخرت کو چاہتی ہوں۔‘‘ اس کے بعد حضورﷺ باقی ازواجِ مطہرات میں سے ایک ایک کے پاس گئے، اور ہر ایک سے یہی بات فرمائی، اور ہر ایک نے وہی جواب دیا جو حضرت عائشہؓ نے دیا تھا۔ (مسند احمد، مسلم، نسائی)

حضرت عائشہؓ رسول کریمﷺ کو بہت محبوب تھیں، رسول اللہؐ انہیں عائش کہہ کر پکارتے، کبھی حمیرا، اور ابوبکر کی بیٹی بھی کہتے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اے اللہ، یوں تو سب بیویوں سے برابر کا سلوک کرتا ہوں، مگر میرا دل میرے بس میں نہیں ہے، کہ وہ عائشہؒ کو زیادہ محبوب رکھتا ہے، اے اللہ، اسے معاف فرمانا‘‘۔ (مسند ابو داود) حضرت حفصہؓ رسول کریم ﷺ سے بے باکی سے سوال بھی کر لیتی تھیں، اور ان کو رسول کریم ﷺ کو دو بدو جواب دینے پر حضرت عمرؓ نے خبردار بھی کیا تھا، اور کہا تھا: ’’بیٹی خبر دار ، میں تمہیں خدا کے عذاب سے ڈراتا ہوں، تم اس خاتون ( حضرت عائشہؓ) کی ریس نہ کرو جس کو رسول اللہﷺ کی محبت کی وجہ سے اپنے حسن پر ناز ہے‘‘۔ (رواہ البخاری)

رسول کریم ﷺ نے حضرت حفصہؓ کی تعلیم کا خاص اہتمام فرمایا۔ رسول اللہ ﷺ کے حکم کے مطابق شفاء بنت عبد اللہ عدویہ نے ان کو لکھنا سکھایا۔ امام احمد کے مطابق شفاءؓ نے ان کو چیونٹی کے کاٹے کا منتر (دم) بھی سکھایا۔(مسند احمد) بعض اہل سیر نے لکھا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے قرآن کریم کے تمام کتابت شدہ اجزاء جمع کر کے حضرت حفصہؓ کے پاس رکھوائے تھے۔ یہ اجزاء تمام عمر ان کے پاس رہے، بلکہ حضرت ابوبکرؓ نے قرآن کریم کی تدوین کے بعد اس کا نسخہ بھی انہیں کے پاس محفوظ کروایا تھا، اور عہدِ عثمانی میں اسی نسخے کی نقول پوری مملکت میں بھجوائی گئی تھیں۔

ایک مرتبہ غزوے میں جاتے ہوئے قرعہ حضرت حفصہؓ کے نام کا نکلا، وہ رسول اللہ ﷺ کے خیمے میں تھیں، لیکن جب معرکہ گرم ہوا ، تو وہ لشکریوں کو پانی پلانے کی خدمت سرانجام دینے لگیں، انہوں نے زخمیوں کی مرہم پٹی بھی کی، تاریخی روایات میں ذکر ہے کہ اس غزوہ کے اختتام پر نبی اکرمﷺ نے آپ کو اسی (۸۰) وسق گیہوں مالِ غنیمت بھی دیا۔ (نساء حول الرسولﷺ، ص۸۲)

حضرت حفصہؓ نے بیتِ نبیؐ میں ایسی خوبصورت زندگی گزاری جس سے بڑھ کر وہ تصور بھی نہ کر سکتی تھیں، انہوں نے کئی احادیث روایت بھی کی۔ رسول ِ کریمﷺ کے رفیقِ اعلی کے پاس جانے کے بعد وہ بہت غمزدہ رہتیں، اور وہ کبھی گھر سے باہر نہ نکلیں۔ وہ عبادت میں مشغول رہتیں اور فقراء و مساکین میں کثرت سے صدقہ دیتیں۔

رسول ِ کریمﷺ کی دوسری زوجہ جنہوں نے آپؐ کی زندگی ہی میں وفات پائی زینب بنت خریمہؓ ہیں، جن کا آپؐ کے ساتھ چند ماہ کا ساتھ تھا۔ جب رسول اللہ ﷺ نے حضرت امِّ سلمہؓ سے نکاح کیا تو انہیں حضرت زینبؓ کا حجرہ دے دیا۔ حضرت امِّ سلمہؓ نے پہلے ہی دن اپنے ہاتھ سے کھانا تیار کیا، اور رسول اللہﷺ نے انہیں ایک خرمے کی کھال سے بھرا ہوا تکیہ، دو مشکیزے اور دو چکیاں عنایت کیں۔انہوں نے نبیﷺ کے گھر میں رہتے ہوئے اپنے پہلے شوہر کی اولاد کی پرورش کی۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: کیا مجھے اس پر اجر ملے گا؟ آپؐ نے فرمایا: ’’ہاں‘‘۔  حضرت امِّ سلمہؓ نے اپنے غلام سفینہؓ کو اس شرط پر آزاد کر دیا کہ وہ رسول اللہﷺ کی خدمت کریں گے۔ (تذکارِ صحابیات، ص۸۱)

رسول اللہ ﷺ کے مرض الموت میں حضرت امِّ سلمہؓ حضرت عائشہؓ کے حجرے میں چلی جاتیں، ایک روز آپؐ کو تکلیف میں دیکھ کر ان کی چیخ نکل گئی۔ حضورؐ نے منع فرمایا کہ چیخنا مسلمانوں کے لئے مناسب نہیں۔ ( ابنِ سعد) حضرت عائشہؓ کے بعد آپؓ سے ۳۷۸ احادیث مروی ہیں، اور فضل وکمال میں آپؓ کا ہی درجہ مانا جاتا ہے۔آپؓ قرآن کریم کی تلاوت نہایت عمدہ طریقے سے کرتی تھیں، اور یہ رسول ِ کریم کی تلاوت سے بہت مشابہ تھی۔

حضرت زینب بنتِ جحشؓ سے رسول اللہ ﷺ کا نکاح اللہ تعالی نے وحی کے ذریعے کیا تھا۔اس کا ولیمہ بھی شاندار تھا، بکری کے گوشت کا سالن اور روٹی حضرت امِّ سلمہ نے بھجوایا تھا۔اس دعوت میں ستر سے زائد صحابہؓ نے شرکت کی۔(رواہ ابن سعد) اسی کے بعد سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر ۵۳ نازل ہوئی۔ حضرت عائشہؓ اور حضرت زینبؓ میں مقابلہ بھی رہتا تھا، وہ اس بات پر بہت خوش ہوتی تھیں کہ حضرت عائشہؓ کی مانند ان کے بارے میں بھی ہمیشہ پڑھی جانے والی کتاب قرآن کریم میں ذکر آیا ہے۔اور وہ انہیں فخر سے کہتی تھیں: ’’اللہ کی قسم، میں باقی ازواج کی مانند نہیں ہوں، ان کا نکاح مہر باندھ کر ان کے اولیاء (جمع ولی) کی مرضی سے ہوا، اور مجھے اللہ نے رسول ِ کریمﷺ کی زوجہ بنا دیا، اور میرے بارے میں کتاب نازل ہوئی، جسے کسی تغیر وتبدل کے بغیر مسلمان پڑھتے ہیں‘‘۔(نساء حول الرسول ﷺ، ص۱۱۴)

رسول اللہ ﷺ نے انہیں کے پاس شہد کا شربت پینے کے سبب زیادہ دیر قیام کرنا شروع کیا تو دیگر ازواجِ مطہرات نے آپؐ کو اس سے باز رکھنے کے لئے منصوبہ بنایا۔ اللہ تعالی نے تحریم کی آیات میں رسول اللہﷺ کو تنبیہ فرما دی۔حضرت عائشہؓ نے ان کے بارے میں فرمایا: ’’میں نے دین کے معاملے میں زینبؓ سے بہتر کوئی عورت نہیں دیکھی‘‘۔واقعہ افک میں حضرت زینب کی بہن حمنہ بنتِ جحشؓ بھی منافقین کے پروپیگنڈے کا شکار ہو گئیں، مگر حضرت زینب ؓ نے حضرت عائشہؓ کے بارے میں گواہی دی: ’’میں عائشہ میں بھلائی کے سوا کچھ نہیں پاتی‘‘۔(تذکارِ صحابیات، ص۹۱)

رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ فرمایا: ’’تم میں مجھ سے سب سے پہلے وہ ملے گی، جس کے ہاتھ لمبے ہیں‘‘۔ سب ازواج ہاتھ ماپنے لگیں، لیکن اس سے مراد زیادہ صدقہ کرنے والی تھی، اور یہ بات حضرت زینبؓ کے حق میں پوری ہوئی۔وہ دباغت کا فن جانتی تھیں، اور جو آمدنی ہوتی اسے اللہ کی راہ میں صدقہ کر دیتیں۔حضرت جویریہؓ بنو المصطلق کے سردار کی بیٹی تھیں، مالِ غنیمت کے طور پر تقسیم ہوئیں، مگر ان کی غیرت نے گوارا نہ کیا اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر مکاتبت کی خواہش کی، رسول اللہ ﷺ نے ان کا زرِ مکاتبت ادا کر کے ان سے نکاح کیا۔ جب وہ حرمِ نبویؐ میں داخل ہو گئیں تو سب صحابہؓ نے قرابتِ نبوی کا پاس کرتے ہوئے تمام اسیران کو رہا کر دیا۔ اس طرح بنو المصطلق کے سو خاندانوں کو آزادی ملی۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: ’’میں نے جویریہؓ سے بڑھ کر کسی کو اپنے قبیلے کے لئے باعثِ رحمت نہیں پایا‘‘۔(ابنِ اثیر)

حضرت امِّ حبیبہؓ کفر کے مرکز میں مومنہ تھیں، وہ ابو سفیان اور ہند جیسے سخت دشمنانِ دین کی صاحب زادی تھیں، ہجرت کا عذاب بھی بھگتا، اور شوہر کے مرتد ہو جانے کا غم بھی، حبشہ ہی میں بیوگی کا صدمہ برداشت کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں نکاح کاپیغام بھجوایا، اور نجاشی نے ان کا مہر ادا کر کے بعد از نکاح انہیں مدینہ بھجوایا۔ حضرت امِّ حبیبہ ؓ بہت صالح فطرت تھیں۔ فتح مکہ سے پہلے ابوسفیان مدینہ آیا، اور بیٹی سے ملنے گیا تو انہوں نے بستر لپیٹ دیا، اور کہا: ’’مجھے پسند نہیں ہے کہ رسول ِ کریم ﷺ کے بستر پر ایک مشرک بیٹھے‘‘۔ابو سفیان خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا اور یہی کہہ کے رہ گیا: ’’تم میرے بعد بہت بگڑ گئی ہو‘‘۔(نساء حول الرسول ﷺ، ص۱۳۶)

حضرت صفیہؓ حضرت ہارونؑ کی اولاد میں سے تھیں، خیبر کے اسیران میں سے تھیں، دحیہ کلبیؓ نے انہیں اپنے لئے لیا تو بعض صحابہ رسول اللہ ﷺ کو انہیں اپنے لئے لینے کا مشورہ دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان پر اسلام پیش کیا تو انہوں نے بخوشی اسلام قبول کر لیا۔ آپؐ نے انہیں آزاد کر دیا اور انہیں نکاح کا اختیار دیا، حضرت صفیہؓ نے اس دعوت کو خوشی سے قبول کر لیا۔ ان کی آزادی ہی ان کا مہر قرار پائی۔ صہبا کے مقام پر رسم ِ عروسی ہوئی، حضرت امِّ سلمہ نے انہیں دلہن بنایا۔ واپسی کا وقت آیا توآپؐ نے انہیں خود اپنے اونٹ پر سوار کرایا اور اپنی عبا سے ان پر پردہ کیا۔ حضرت صفیہؓ کے چہرے پر آنکھ کے پاس سبز سا نشان تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے بارے میں پوچھا تو حضرت صفیہؓ نے بتایا: انہوں نے ایک رات خواب دیکھا کہ چودھویں کا چاند آسمان سے گرا اور ان کی گود میں آرہا‘‘۔ انہوں نے یہ خواب اپنے شوہر کنانہ بن الربیع کو سنایا تو اس نے غصّے سے ان کے چہرے پر ایک زور دار تھپڑ مارا، اور کہا: ’’تم عرب کے بادشاہ کی ملکہ بننے کے خواب دیکھ رہی ہو؟‘‘۔

حضرت صفیہؓ سے نکاح کی برکت کے سبب یہود کبھی مسلمانوں کے مقابلے میں نہ آئے۔حضرت صفیہؓ مدینہ پہنچیں ، تو خواتین ان کو دیکھنے کے لئے جمع ہو گئیں، رسول اللہﷺ نے ان کے درمیان حضرت عائشہؓ کو دیکھ کر پوچھا: ’’تمہیں کیسی لگیں یہ اے عائشہ؟‘‘۔وہ بولیں: ’’میں نے یہودیہ کو دیکھ لیا ہے‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: ’’ایسا نہ کہو عائشہؓ، یہ اسلام لے آئی ہیں، اور ان کا اسلام بہت اچھا ہے‘‘۔ (نساء حول الرسولﷺ، ص۱۴۴) ایک مرتبہ رسول اللہﷺ گھر آئے تو دیکھا کہ حضرت صفیہؓ رو رہی ہیں۔وجہ دریافت تو کہنے لگیں کہ عائشہؓ اور زینبؓ کہتی ہیں ہم رسول اللہﷺ کی ازواج ہونے کے ساتھ ان کی قرابت دار بھی ہیں، اس لئے افضل ہیں، لیکن تم یہودن ہو۔ آپؐ نے فرمایا: تم نے ان سے یہ کیوں نہ کہا کہ میرا باپ ہارونؑ، چچا موسی اور شوہر محمدﷺ ہیں۔

حضرت صفیہؓ کا اخلاق بہترین تھا، اور اللہ نے انہیں حسن و جمال کی نعمت بھی عطا فرمائی تھی، آپؓ رسول کریم سے بہت محبت کرتی تھیں۔ مرض الموت میں تمام ازواجؓ آپؐ سے ملنے حضرت عائشہؓ کے حجرے میں آئیں، حضرت صفیہؓ نے حضورﷺ کو بے چین دیکھا تو بولیں: ’’یا رسول اللہؐ ، کاش آپ کی بیماری مجھے ہو جاتی‘‘۔ ازواج نے ان کے کہنے پر ایک دوسرے کو دیکھا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’تم انکی طرف آنکھ سے اشارے کیوں کر رہی ہو، اللہ کی قسم، یہ سچ کہہ رہی ہیں‘‘۔ (نساء حول الرسول ﷺ، ص۱۴۵) حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ ’’میں نے کوئی عورت صفیہؓ سے زیادہ اچھا کھانا پکانے والی نہیں دیکھی‘‘۔ (تذکار صحابیات)

رسول ِ کریم ﷺ جب عمرۃ القضاء ادا کرنے مکہ گئے تو حضرت عباسؓ کی وساطت سے آپؐ کو میمونہؓ بنت حارث سے نکاح کا پیغام دیا گیا۔ حضرت میمونہؓ خالد بن ولید کی خالہ اور حضرت عباسؓ کی زوجہ امِّ فضلؓ کی بہن تھیں۔ سید المرسلینؐ نے مکہ سے واپسی پر مقام سرف پر آپؓ سے نکاح کیا، اور وہیں آپؓ کے لئے خیمہ نصب کیا گیا۔ آپؓ کا نام برۃؓ تھا، اور نکاح کے موقع پر میمونہؓ نام رکھا گیا۔ حضرت میمونہؓ آپؐ کی آخری بیوی تھیں، ان کے بعد آپؐ نے کسی عورت سے نکاح نہیں کیا۔

حضرت عائشہؓ نے ان کے بارے میں فرمایا: ’’میمونہؓ ہم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والی اور صلہ رحمی کا خیال رکھنے والی تھیں‘‘۔ (تذکار صحابیات) حضرت میمونہؓ سے ۴۶ یا ۷۶ احادیث روایت ہیں، کئی مسائل میں فقہی رائے بھی دی۔ انہوں نے ۵۱ھ میں وفات پائی، اور انہیں ان کی خواہش کے مطابق مقامِ سرف (جس مقام پر نکاح ہوا تھا) میں دفن کیا گیا۔(اسد الغابہ، ابن ِ اثیر)

۳۔ رسول اللہ ﷺ کی بیٹیاں:  زینبؓ رسول اللہ ﷺ کے آنگن میں کھلنے والی پہلی کلی تھی، جو خدیجہؓ کے بطن سے پیدا ہوئی، یہ قاسم سے چھوٹی تھی، ان کے دم سے گھر کی رونق اور حرکت تھی، ایک برس بعد رقیہؓ بھی اس محبت اور اعزاز میں شریک ہو گئی، اور اس کے بعد امِّ کلثوم کا ستارہ جگمگا اٹھا۔قریش کی مجالس میں لوگ سرگوشیاں کرتے کہ محمد (ﷺ) کے ہاں بیٹیاں ہی پیدا ہو رہی ہیں، اس سے اگلے برس سیلاب سے کعبہ کی عمارت کمزور ہو گئی، اور اس کی دوبارہ تعمیر کے دوران حجرِ اسود کو نصب کرنے پر قریش کے قبیلوں میں جھگڑا ہو گیا، اور قریب تھا کہ تلواریں نیام سے باہر آ جائیں جب محمد ﷺ کی کی حکمتِ بالغہ سے خون کی ندیاں بہنے سے رک گئیں اور ہر قبیلے نے آپؐ کے فیصلے کو دل سے قبول کیا، انہیں دنوں آپؐ کے گھر میں فاطمہ الزہراء کی آمد ِ مبارک ہوئی۔

حضرت زینبؓ کی شادی کمسنی میں ان کے خالہ زاد ابو العاص سے ہو گئی۔ جب رسول کریمﷺ نبوت پر فائز ہوئے تو زینبؓ فوراً ایمان لے آئیں، لیکن ان کے شوہر ایمان نہیں لائے۔ کفار نے ابو العاص کو بہت اکسایا کہ وہ زینبؓ کو طلاق دے دیں، مگر انہوں نے انکار کر دیا اور ان سے بہت اچھا سلوک کرتے رہے۔ ابن سعد کا بیان ہے کہ حق و باطل کے پہلے معرکے غزوہ بدر میں آپؐ کے داماد ابوالعاص بھی گرفتار ہو کر آئے، انہیں چھڑوانے کے لئے حضرت زینبؓنے فدیہ بھیجا، جس میں حضرت خدیجہؓ کا ایک ہار بھی تھا، جو انہوں نے زمانہ جاہلیت میں زینبؓ کی شادی پر انہیں دیا تھا، اس ہار کو دیکھ کر حضورﷺ پر رقت طاری ہو گئی، اور آپؐ نے صحابہ سے کہا: اگر تم مناسب سمجھو تو زینبؓ کے قیدی کو اسی طرح چھوڑ دو، اور اس کا فدیہ واپس کر دو، سب لوگ اس پر راضی ہو گئے، اور ابو العاص کو فدیے کے بغیر چھوڑ دیا گیا۔مکہ جاتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے انہیں کہا کہ زینبؓ کو مدینہ بھجوا دیں، اب وہ ایک کافر کے نکاح میں نہیں رہ سکتیں۔

مدینہ منورہ جاتے ہوئے انہیں کفار نے گھیر لیا، اسی دوران وہ اونٹ سے گر پڑیں، جس کے نتیجے میں ان کا اسقاطِ حمل ہو گیا۔ وہ مدینہ پہنچ کر بھی ٹھیک نہ ہوئیں۔ ابو العاص ان کی جدائی میں تڑپتے رہے، اور آخر کار ۷ ھ میں مکہ والوں کی امانتیں ادا کر کے مدینہ آ گئے۔ رسول کریم ﷺ نے پرانے مہر پر ہی سیدہ زینبؓ کا ان سے نکاح کر دیا۔ایک سال تک ان کا گھر خوشی اور سعادت سے معمور رہا، اور ۸ھ میں زینبؓ ہجرت کے دوران پہنچنے والیاسقاط ِ حمل کے بعد کی تکلیف سے انتقال فرما گئیں۔ابو العاصؓ اس قدر زنجیدہ تھے کہ ان کو دیکھنے والے بھی آبدیدہ ہو جاتے۔ رسول اللہﷺ کی آنکھیں بھی برس رہی تھیں، دل مغموم تھا۔ آپؐ نے ان کے غسل کا طریقہ خود سمجھایا، اور پھر اپنا تہہ بند انہیں کفن کے اندر پہنانے کے لئے دیا۔رسول اللہؐ نے خود ان کا جنازہ پڑھایا، اور فرمایا: ’’زینب میری سب سے اچھی لڑکی تھی، جو میری محبت میں ستائی گئی‘‘۔

رسول اللہ ﷺ کی دوبیٹیوںرقیہؓ اور امّ کلثومؓ کی شادیاں ابو لہب کے دو بیٹوں عتبہ اور عتیبہ سے ہوئی تھیں، اسلام دشمنی میں اس نے بیٹوں کو حکم دیا کہ ان دونوں کو طلاق دے دیں، لیکن اللہ کی رحمت کس قدر وسیع ہے، اللہ تعالی نے رقیہؓ کو عثمان بن عفانؓ جیسا زوج عطا کر دیا، جو صاحبِ ایمان بھی تھا اور قریش کے نوجوانوں میں سب سے زیادہ مال دار اور عزت و حشم والا بھی۔ رسول اللہ ﷺ نے نعمتوں میں پلی ، نئی نویلی دلہن صاحب زادی رقیہؓ کو اپنے دولھاحضرت عثمان بن عفانؓ کے ہمراہ حبشہ کی جانب ہجرت پر آمادہ کیا، تو انہوں نے تسلیم سر خم کیا اور جلا وطنی کے مصائب سے قطعاً ناواقف، اور بے گھروں کو گھر عطا کرنے والا یہ جوڑا سمندر کا سینہ چیرتے ہوئے حبشہ جا پہنچے۔ (دیکھئے: النبی الخاتم، علامہ سید مناظر احسن گیلانی، ص۳۳)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ابراہیمؑ اور لوطؑ کے بعد عثمانؓ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اپنی بیوی کے ہمراہ اللہ کی راہ میں ہجرت کی‘‘۔ (تذکار صحابیات،ص۱۲۲) انہوں نے دو مرتبہ حبشہ کی جانب ہجرت کی اور ایک مرتبہ مدینہ منورہ کی جانب، لیکن ان کی عمر نے ساتھ نہ دیا۔ وہ ہجرت کے دوسرے برس بیمار ہو گئیں، اور جب بدر کا قاصد مدینہ میں فتح کی خوشخبری لے کر پہنچا تو حضرت رقیہؓ کو دفن کیا جا رہا تھا۔ان کی وقات پر رسول اللہ ﷺ کو عثمان بن مظعون ؓ بھی یاد آگئے، جن کا ہجرت کے بعد انتقال ہوا تھا، غالباً حضرت رقیہؓ مہاجرین میں دوسرے نمبر پر فوت ہوئیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’عثمان بن مظعونؓ جا چکے، اب تم بھی ان سے جا ملو‘ (ابنِ سعد؛ حافظ ابنِ حجر) حضرت فاطفہ الزہراءؓ بھی بہن کی قبر پر آئیں اور پاس بیٹھ کر رونے لگیں، حضورؐ اپنی چادر مبارک کے کناروں سے ان کے آنسو پوچھنے لگے۔ حضرت رقیہؓ اور حضرت عثمانؓ میں اتنی محبت تھی کہ اسے ضرب المثل کے طور پر بیان کیا جاتا تھا۔(تذکارِ صحابیات،ص۱۲۴)

حضرت امِّ کلثومؓ بعثت سے چھ برس قبل پیدا ہوئیں۔ ابولہب کے بیٹے سے طلاق کے بعد اپنے باپ کے گھر میں رہیں۔ انہوں نے حبشہ کی جانب ہجرت کے مصائب تو نہ اٹھائے، مگر وہ شعب ابی طالب میں اپنے والدین کے ہمراہ محصور رہیں، اورتھکا دینے والے تین برس وہ تکلیفیں اٹھائیں جن کا تصور بھی محال ہے۔ (ابنِ سعد) حضرت رقیہؓ کے انتقال کے بعد حضرت عثمانؓ بہت غمگین رہنے لگے۔ رسول اللہ ﷺ نے جبریلؑ کے کہنے پر امِّ کلثومؓ کا نکاح رقیہؓ ہی کے حق مہر پر حضرت عثمان سے کر دیا۔ آپؐ نے اس موقع پر فرمایا: میں رقیہؓ کی بہن امِّ کلثومؓ کو تمہارے کے نکاح میں دیتا ہوں، اور اگر میری دس بیٹیاں بھی ہوتیں، تو میں تم ہی سے ان کا (باری باری) نکاح کر دیتا‘‘۔(ابن اثیر)

حضرت امِّ کلثومؓ نکاح کے بعد چھے برس تک زندہ رہیں اور ۹ھ ہجری میں ان کا انتقال ہوا۔حضورؐ نے کفن کے لئے اپنی چادر دی، اور جنازہ خود پڑھایا۔جب انہیں قبر میں اتارا جا رہا تھا، تو آپؐ قبر کے پاس بیٹھے تھے اور آنکھوں سے سیلِ اشک رواں تھا۔ جس طرح حضرت رقیہؓ اور حضرت امِّ کلثومؓ حضرت عثمانؓ کے گھر میں رہیں، انہیں قبر بھی ایک ساتھ میسر آئی۔(نساء حول الرسول ﷺ، ص۴۱۷) حضرت فاطمہ الزہراءؓ سب سے چھوٹی بیٹی تھیں، انہیں سے رسول اللہﷺ کی نسل کی حفاظت ہوئی۔ وہ دنیا بھر کی عورتوں کی سردار ہیں۔ اور اپنے زمانے کی خواتین کی سردار کی بیٹی ہیں، رسول اللہ ﷺ کے جگر کا ٹکڑا!! اور ان کی شخصیت کی مہکتی ہوئی خوشبو!!

وہ نہایت متین اور تنہائی پسند تھیں۔ نہ کسی کھیل کود میں حصّہ لیا نہ گھر سے باہر قدم نکالا۔بچپن ہی سے نمود و نمائش پسند نہ تھی۔ حضرت خدیجہ الکبریؓ خود ان کی تعلیم و تربیت کرتیں، اور ان کے سوالات کے جواب دیتیں۔ مشرکین رسول اللہ ﷺ کو اذیتیں دیتے تو وہ اس کی اذیت محسوس کرتیں، اور اشکبار ہو جاتیں، پھر رسول اللہ ﷺ انہیں تسلی دیتے: ’’میری بیٹی گھبراؤ نہیں، اللہ تمہارے باپ کو تنہا نہ چھوڑے گا‘‘۔(تذکار ِ صحابیات، ص۱۲۸)

جب عقبہ بن ابی معیط نے آپؐ پر دوران ِ نماز اوجھ لا کر ڈالی،تو انہیں پتا چلا تو بے چین ہو کر بھاگی، اور ان سے اس کو زائل کیا، رسول اللہﷺ نے ان کافروں کو مخاطب کر کے فرمایا: ’’شریرو، احکم الحاکمین تمہیں ان شرارتوں کی ضرور سزا دے گا‘‘۔اور چند برس بعد یہ سب بدر میں ذلت کے ساتھ مارے گئے۔ حضرت علیؓ نے ان کے لئے نکاح کا پیغام دیا تو رسول اللہ ﷺ نے ان کی کسمپرسی کے باوجود اس پیغام کو بخوشی قبولیت عطا کی۔اور اپنی ہدیہ کی ہوئی زرہ کو بیچ کر شادی کی تیاری کا عندیہ دیا۔رخصتی کے وقت سیدہ فاطمہؓ کا سر اپنے سینے سے لگا کر ماتھے پر بوسہ دیا اور حضرت علی ؓ سے فرمایا: ’’اے علیؓ، پیغمبر کی بیٹی تجھے مبارک ہو‘‘۔اور حضرت فاطمہؓ سے مخاطب ہو کر فرمایا: ’’اے فاطمہؓ، تیرا شوہر بہت اچھا ہے‘‘۔پھر انہیں ایک دوسرے کے حقوق و فرائض بھی بتائے، اور انہیں خیر و برکت کی دعا دی۔ (تذکار ِ صحابیات،۱۳۲)

حضرت فاطمہؓ رفتار و گفتار اور عادات و خصائل میں رسول ِ کریم سے مشابہ تھیں،عبادت گزار تھیں، اور صابر بھی! حضرت علیؓ کے گھر کی عسرت کو صبر سے برداشت کیا، اگرچہ بہت تھک جاتی تھیں اور ہاتھوں پر گٹے پڑ جاتے تھے۔ ایک مرتبہ آپؓ کو پیوند لگے لباس میں گھر کے کام کاج کرتے دیکھ کر رسول اللہ ﷺ کا دل پسیج گیا اور فرمایا: ’’فاطمہ دنیا کی تکلیف کا صبر سے خاتمہ کر، اور آخرت کی دائمی مسرت کا انتظار کر، اللہ تجھے نیک اجر دے گا‘‘۔ایسی ہی تنگدستی کے ایک موقع پر آپؐ نے فرمایا: ’’اے لختِ جگر، دنیا کے مصائب سے دل شکستہ نہ ہو، تم جنت کی عورتوں کی سردار ہو‘‘۔

حضرت علیؓ نے جب آلِ ہشام کی لڑکی سے نکاح کرنا چاہا تو رسول اللہ ؐ نے اس کی اجازت نہ دی اور فرمایا: ’’فاطمہؓ میرے جسم کا ٹکڑا ہے، جس نے اسے اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی (۔۔) اللہ کی قسم، رسول ِ خدا کی بیٹی اور دشمنِ خدا کی بیٹی دونوں ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتیں‘‘۔ اور حضرت علیؓ نے حضرت فاطمہؓ کی زندگی میں دوسرا نکاح نہیں کیا۔ (تذکارِ صحابیات، ص۱۴۲)

رسول اللہﷺ نے اپنی بیماری میں انہیں جنت میں عورتوں کی سردار ہونے کی خوش خبری بھی سنائی، اور اس بات سے بھی ان کا دل مطمئن کیا، کہ وہ سب سے پہلے ان سے ملیں گی اور جب حضرت فاطمہؓ آپؐ کو سکرات الموت میں دیکھ کر گھبرا اٹھیں اور بولیں: ’’ہائے، ابا جان کی بے چینی‘‘، تو آپؐ نے فرمایا: ’’تمہارا باپؐ آج کے بعد بے چین نہ ہو گا‘‘۔

یہ رسول اللہ ﷺ کے گھرانے کی ہلکی سی جھلک ہے، جس کا ہر گوشہ امت کی عورتوں کے لئے مشعلِ راہ ہے، خواہ وہ بیٹی ہوں، ماں یا بہن اور بیوی! ایمان اور عملِ صالح اختیار کرنے والوں کے لئے ہر ایک نمونہ عمل کی بہترین راہ متعین کر رہا ہے۔ اللہ تعالی امت ِ مسلمہ کو اسی راہ پر چلائے، جس پر نبی کریمﷺ اور ان کے گھرانے کی پاکباز خواتین نے اپنے نقوش چھوڑے ہیں۔

حصہ
mm
ڈاکٹر میمونہ حمزہ نے آزاد کشمیر یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات امتیازی پوزیشن میں مکمل کرنے کے بعد انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب میں بی ایس، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ زمانہء طالب علمی سے ہی آپ کی ہلکی پھلکی تحریریں اور مضامین شائع ہونے لگیں۔ آپ نے گورنمنٹ ڈگری کالج مظفر آباد میں کچھ عرصہ تدریسی خدمات انجام دیں، کچھ عرصہ اسلامی یونیورسٹی میں اعزازی معلمہ کی حیثیت سے بھی کام کیا، علاوہ ازیں آپ طالب علمی دور ہی سے دعوت وتبلیغ اور تربیت کے نظام میں فعال رکن کی حیثیت سے کردار ادا کر رہی ہیں۔ آپ نے اپنے ادبی سفر کا باقاعدہ آغاز ۲۰۰۵ء سے کیا، ابتدا میں عرب دنیا کے بہترین شہ پاروں کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالا، ان میں افسانوں کا مجموعہ ’’سونے کا آدمی‘‘، عصرِ نبوی کے تاریخی ناول ’’نور اللہ‘‘ ، اخوان المسلمون پر مظالم کی ہولناک داستان ’’راہِ وفا کے مسافر‘‘ ، شامی جیلوں سے طالبہ ہبہ الدباغ کی نو سالہ قید کی خودنوشت ’’صرف پانچ منٹ‘‘ اورمصری اسلامی ادیب ڈاکٹر نجیب الکیلانی کی خود نوشت ’’لمحات من حیاتی‘‘ اور اسلامی موضوعات پر متعدد مقالہ جات شامل ہیں۔ ترجمہ نگاری کے علاوہ آپ نے اردو ادب میں اپنی فنی اور تخلیقی صلاحیتوں کا بھی مظاہرہ کیا،آپ کے افسانے، انشائیے، سفرنامے اورمقالہ جات خواتین میگزین، جہادِ کشمیر اور بتول میں شائع ہوئے، آپ کے سفر ناموں کا مجموعہ زیرِ طبع ہے جو قازقستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں آپ کے سفری مشاہدات پر مبنی ہے۔جسارت بلاگ کی مستقل لکھاری ہیں اور بچوں کے مجلہ ’’ساتھی ‘‘ میں عربی کہانیوں کے تراجم بھی لکھ رہی ہیں۔

13 تبصرے

  1. السلام علیکم و رحمتہ اللہ
    ڈاکٹر میمونہ حمزہ کی تحریر
    رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں خواتین
    (دوسرا حصّہ)(گزشتہ سے پیوستہ)
    یہ گزشتہ سے پیوستہ کا لنک میرا مطلب ہے اس بلاگ کا پہلا حصہ کافی تلاش کیا مگر نہیں ملا ۔ برائے کرم لنک شیئر کر دیں واٹس ایپ پر 03103446600 ۔ جزاک اللہ

جواب چھوڑ دیں