سوشل میڈیا پاکستانیوں کے ہاتھ میں

انسانی تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو انسان ہر دور میں رابطے اور مواصلات کے ذرائع کو بہتر بنانے کی تگ ودو کرتا نظر آتا ہے۔ کیونکہ بقول ارسطو انسان ایک social animal ہے وہ دوسرے انسان سے کٹ کر زندگی نہیں گزار سکتا۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب انسان نے کپڑے کے اوراقِ اور لکڑی کے تختوں پر لکھ کر قاصدوں کے ذریعے پیغامات کا تبادلہ شروع کیا۔ وقت گزرا اور پندرہویں صدی میں ایک جرمن شہری جوہانس گٹنبرگ کی جانب سے پرنٹنگ پریس کی ایجاد نے ذرائع موصلات کی تاریخ میں ایک انقلاب برپا کردیا اس ایجاد نے اس وقت کے اسکالرز اور محققین کو اپنی تحقیق اور کتب کو زیادہ سے زیادہ قارئین تک پہنچانے کی سہولت مہیا کی۔ یوں یورپ میں ایک نئے تعلیمی اور تحقیقی دور کا آغاز ہوا۔

وقت کا پہیہ مزید حرکت میں آیا اور انسویں اور بیسویں صدی میں ٹیلی فون ٹیلی گراف ریڈیو جیسی حیران کن ایجادات ذرائع مواصلات کا حصہ بن گئے۔ بیسویں صدی کے درمیان میں انسان کے تخلیق کردہ اس مواصلاتی نظام میں satelite technology کی شکل میں ایک غیر معمولی انقلاب برپا ہوا اور اسی انقلاب سے موجودہ دور تک کی جدید اور اسمارٹ ایجادات کی کڑی ملتی ہے۔ 1983 میں ARPANET ایک تحقیقی ادارے کی جانب سے دنیا کا پہلا آن لائن سسٹم متعارف کرایا گیا اس آن لائن سسٹم کو اس وقت کے محققین نے اپنی تحقیق آگے پہنچانے کے لیے استعمال کیا۔

انسانی عقل کا تجسس ختم نہیں ہوسکتا اس لیے ایجادات کا سلسلہ بھی رک نہیں سکا۔ 1990 میں ٹم برنرز لی کی جانب سے world wide web کی تخلیق نے مواصلاتی نظام کو ایک اہم منزل طے کرادی اور اسی تخلیق کے ذریعے دنیا “گلوبل ویلیج” میں تبدیل ہوگئ اسی پروگرام کی تخلیق کے ذریعے سوشل میڈیا وجود میں آیا جس نے دنیا کو سیکھنے سیکھانے اظہار کرنے اور ردعمل دینے کے نئے ڈھنگ سے متعارف کرایا اسی سوشل میڈیا نے انسان کی ہر سرگرمی کو ڈیجیٹلائز کردیا۔ اگر ارسطو آج کے دور میں زندہ ہوتا تو یقیناً وہ اپنے مقولہ میں انسان کے لیے social animal کی جگہ Dijital animal کا لفظ استعمال کرتا۔

سوشل میڈیا نے انسانی زندگی کے ہر شعبے میں قدم جمادیے چاہے وہ آن لائن مارکٹنگ ہو فلم انڈسٹری ہو یا سیاست کا شعبہ۔اکیسویں صدی کے اس دور میں فیسبک ٹوئٹر یوٹیوب پر مشتمل سوشل میڈیا کو ماہرین کی جانب سے ریاست کا پانچواں عنصر قرار دیا جانے لگا ہے۔ یعنی اکیسویں صدی میں ریاست کے ان چار عناصر آبادی علاقہ حکومت اور اقتدار کے بعد سوشل میڈیا کو بھی ریاست کا اہم جز سمجھا جانے لگا ہے۔ تعلیم سے لے کر کاروبار تک ہر چیز آن لائن متعارف کرادی گئی۔ الیکٹرونک میڈیا سے لے کر پرنٹ میڈیا کے گروپ تک خبر کو ناظرین اور قارئین تک تیز رفتاری سے پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کررہے ہیں۔

جب ہم تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں اور ایک ایسے مواصلاتی نظام کو دیکھتے ہیں جو کپڑے کے اوراق، لکڑی کے تختوں اور قاصدوں پر مشتمل تھا تو درحقیقت رابطہ کا یہ نظام “سوشل میڈیا” جہاں ہر چیز تک پہنچ ایک کلک کی محتاج ہے تو درحقیقت ہمیں یہ کسی نعمت سے کم معلوم نہیں ہوتا۔ بات کریں وطن عزیز کی اور یہاں بسنے والے لوگوں کی، یہ ہمیشہ سے ہمارا المیہ رہا ہے کہ ہم ہر چیز کے صحیح استعمال سے زیادہ اس کا غلط یا بیکار طریقہ سے استعمال کرتےہیں۔ دوسرے ممالک میں سوشل میڈیا کا استعمال اس کی تخلیق کے مقاصد SLIM یعنی Shareing,learning,Interaction, Marketing کے لیے کیا جاتا ہے ۔ لیکن پاکستان میں اسکا استعمال بدقسمتی سے معاشرے میں انتشار پھیلانے اور بے سد قسم کے بحث و مباحثہ کے لیے کیا جاتا ہے. ایسی چیزوں اور معاملوں پر بحث جن کا کوئ حرف آخر نہیں نکلنا اور اگر کوئ نتیجہ نکل بھی جاتا ہے تو وہ معاشرے کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔

ہم اس سلسلے میں یہاں دو تین مثالوں کو سامنے رکھ لیتے ہیں۔ سال 2018 میں گلوکار علی ظفر اور گلوکارہ میشا شفیع کا اسکینڈل سامنے آیا دونوں جانب سے ایک دوسرے کے اوپر الزامات کی بھرمار کردی گئ اور ہماری عوام نے اپنی فراغت حالی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے اپنے طور پر طویل سے طویل غیر ضروری تبصرے کیے۔ دوسری طرف رواں سال نجی چینل کی جانب سے ایک ڈرامے میں “دو ٹکے کی عورت” والے ڈائیلاگ کو لے کر ایک لا حاصل بحث کی گئ اور ہر بار کی طرح اس بحث کا فائدہ بھی کسی کو نہیں پہنچا۔ اسی طرح گزشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان کے برانڈڈ کپڑوں کو لے کر بحث و مباحثہ کیا گیا۔ یہ صرف چند مثالییں ہیں ایسی مزید مثالوں کی ایک طویل اور نہ ختم ہونے والی فہرست ہے۔ ان ساری مثالوں کو یہاں تحریر کرنا ممکن نہیں ہے۔

ایک بات بلکل ناقابل فہم ہے کہ ہماری عوام اس قسم کے موضوعات اور معاملوں پر بحث و مباحثہ کو “تنقید” کا نام دیتی ہے اور آگے سے یہ بات بھی سننے میں آتی ہے کہ “تنقید کرنا عوام الناس کا حق ہے”. اس بات سے کوئ اختلاف نہیں بلکل تنقید کرنا ہر باشعور شہری کا حق ہے لیکن ہماری عوام اس بات سے بلکل ناواقف ہے کہ تنقید بھی حسب ضرورت کی جاتی ہے تنقید کے بھی کچھ اصلاحی پہلو ہوتے ہیں اور اس کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں. ہماری عوام کو تین باتیں خاص طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے پہلی بات ایسے معاملات جن کا تعلق کسی فرد کی ذاتی زندگی یا ذاتی فعل سے ہو وہ تنقید کے دائرے میں نہیں آتے۔

دوسرا کسی فرد یا گروہ کے کسی ایسے برے فعل پر تنقید جس کے سبب اس برائی کی تشہیر ہو تو اس سے بہتر ہے کہ آپ اس برائ پر خاموشی اختیار کریں یا کم از کم اس فعل پر لعن طعن کرنے کے بجائے اصلاح کریں۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے یہاں کسی کے برے فعل کی اصلاح کے بجائے اس پر تنقید کے نام پر بدترین اور نامناسب الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ تنقید کے حوالے سے جو تیسری اور آخری بات عوام کو سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ کسی بھی معاملہ پر تنقید یا ردعمل دینے کے لیے صحیح وقت کا انتظار کیا جائے سوشل میڈیا نے ہماری عوام میں سے صبر نام کی چیز بلکل ختم کردی ہے جس کی وجہ سے ہماری عوام خاص طور پر نوجوان کسی بھی معاملہ یا اسکینڈل کے سامنے آنے کے فوراً بعد ردعمل دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں اور اس کے لیے وہ کسی بھی قسم کا انتظار کرنے کے متحمل نہیں ہوتے۔

تنقید کے بعد سوشل میڈیا نے ہمارے یہاں “تحقیق” کا معیار بھی بالکل صفر کر کے رکھ دیا ہے۔ ایک وقت تھا جب کسی بھی مسئلے  پر حقائق جاننے کے لیے لوگ اخبارات کتب اور معاشرے کے باشعور افراد پروفیسرز اسکالرز سینئر صحافیوں اور لکھاریوں سے رابطہ کرتے تھے لیکن آج کل سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والے ٹوئیٹس اور پوسٹ کو کسی بھی معاملہ کی دلیل کے لیے حرف آخر سمجھ لیتے ہیں۔ اصل حقائق جو کتابوں اور باشعور لوگوں اور اہل دانش کے ذہنوں میں محفوظ ہیں وہ منظر عام پر آتے ہی نہیں اور اگر آ بھی جائیں تو سوشل میڈیا کے دانشوروں کی ڈھیروں ڈھیر ناقص دلائل تلے دب جاتے ہیں۔ غرض یہ کہ سوشل میڈیا کے تنقید نگار حقائق سے منہ پھیرنے کو آسان جاننے لگے ہیں اور سوشل میڈیا پر موجود بہت سے ناقص دلائل مہیا کرنے والے کئ ایکٹوسٹ نے انکے لیے یہ راستہ مزید آسان کردیا ہے۔

بات سیاست کی کریں تو اس شعبے میں بھی ہماری عوام خاص طور پر ہمارے نوجوانوں نے سوشل میڈیا کا انتہائی غلط استعمال کیا اور اب بھی کررہے ہیں۔ سیاسیات کے شعبہ میں سوشل میڈیا کا اصل کام عوام کو یہ سہولت مہیا کرنا ہے کہ وہ سیاستدانوں کی پالیسیز پر تنقید اور تبصرہ کرسکیں اور اپنی رائے ک جامع طریقہ سے سے اظہار کرسکیں تاکہ سیاستدان رائے عامہ سے باآسانی واقف ہوجائیں۔ لیکن ہماری عوام اور نوجوانوں نے اس مقصد کو چھوڑ کر سیاستدانوں کی ذاتی زندگی اور فعل مثال کے طور پر شکل صورت، خاندان اور ازدواجی زندگی کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کردیا اور اب بھی وہ اس کام میں پوری لگن سے مصروف ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کسی بھی سیاستدان کی کرپشن یا اس کی غلط پالیسیاں سامنے آنے پر عوام کو اتنا حق حاصل ہے کہ اسکے اس فعل پر تنقید کریں نا کہ اس معاملے میں اس کی ذاتی زندگی اور خاندان کو تنقید کا نشانہ بنائیں۔

مختصر احوال یہ کہ سوشل میڈیا کے غلط استعمال سے ہم نے تنقید سے لے کر بحث تک تحقیق سے لے کر ادب تک ہر چیز کا معیار صفر کردیا۔ ہم نے بے جا تنقید کرتے وقت یہ بھی بھلا دیا کہ ہم اس دین اسلام کے پیروکار ہیں جس کے مطابق اللہ تعالیٰ کا حکم ہے “اے اہل ایمان! بہت گمان کرنے سے احتراز کرو کہ بعض گمان گناہ ہیں۔ ” (سورۃ الحجرات)۔ اس طرح ہم نے حقائق کی تصدیق کے بغیر غلط خبریں پھیلاتے ہوئے نبی ﷺ کی نصیحت بھی بھلا دی جو انہوں نے ایک نو مسلم کو فرمائ تھی۔ ایک نومسلم نے کہا کہ مجھے صرف ایک گناہ ترک کرنے کا کہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ جھوٹ بولنا چھوڑ دو۔۔

غرض یہ کہ ہمیں باحیثیت قوم اپنی توجہ کی ترجیحات کو بدلنا ہوگا۔ ہمیں سوشل میڈیا کے صحیح استعمال کو سیکھنا ہوگا اور اس لیے ہمیں غیر ضروری معمالات پر غیر معیاری تنقید اور بحث کو ترک کرنا ہوگا ہمیں کسی انفرادی برائ کے بجائے اجتماعی خامیوں کی نشاندہی شروع کرنی ہوگی۔ ہمیں مسائل پیدا کرنے والوں پر معیاری تنقید کے ساتھ معیاری بحث کے زریعے ان مسائل کا حل بھی ڈھونڈنا ہوگا۔ آخر میں اتنا کہ کوئی بھی ایجاد یا تخلیق اچھی یا بری نہیں ہوتی یہ انسان کی فطرت ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی ایجاد یا تخلیق کو اپنے عقل و فہم کا صحیح استعمال کرکے کس طرح اپنے اور اپنے معاشرے کی بھلائی اور فلاح کے لیے استعمال کرتا ہے۔

اگر افراد کسی چیز یا ایجاد کا غلط استعمال کرتے ہیں تو اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ چیز بری ہے اور اس چیز کے استعمال پر پابندی لگادی جائے۔ بلکہ ضرورت اس عمل کی ہے کہ لوگوں کو اس چیز یا ایجاد کا صحیح استعمال سکھایا جائے اور اس کے غلط استعمال سے باز رکھا جائے۔ اور اس سلسلے میں عوام الناس کی اصلاح کے لیے سینئر دانشوروں سائبر کرائم کے اداروں اور حکومت کو باقاعدہ طور پر ایک ساتھ مل کر مستقل حکمت عملی سے کام کرنا ہوگا تاکہ سوشل میڈیا کے استعمال کو حقیقی معنوں میں ریاست کی تعمیر اور ترقی میں حصہ دار بنایا جائے۔

جواب چھوڑ دیں