رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں خواتین

(پہلا حصّہ)  رسول اللہ ﷺ کی حیات ِ مبارکہ میں کئی خواتین کا حصّہ رہا، ان میں آپؐ کی حقیقی والدہ بھی ہیں اور رضاعی بھی، آپؐ کی پھوپھی بھی اوررضاعی بہن بھی، چار بیٹیاں بھی اور متعدد ازواج بھی! نبی اکرم ﷺ کا گھر طبقہ ء اناس کے لئے ایک مثال ہے، نیکی اور حسنِ عمل کا اعلی نمونہ ! یہ گھر تقدس، طہارت اور محبت سے بھر پور گھر ہے، عاجزی اور مروت کی مثال بھی! دنیا کے بادشاہوں کے محلات اور بڑے بڑے قصر بھی ایسا نمونہ پیش کرنے سے عاجز ہیں ۔۔ یہ نبوت کا گھرانا ہے، دنیا کی سب سے با اخلاق شخصیت ، اور سچے رسول کا گھر ۔۔ ایک ایسا گھر، جہاں سے خوشی اور سعادت کی شعائیں پھوٹتی ہیں ۔۔ یہ ایک انفرادی نمونہ ہے ۔۔ قناعت اور رضا مندی کا راستہ ۔۔ دنیا کے سب سے بہترین گھر کی سیرت کی کرنیں ۔۔ تاریخ کے صفحات کا سب سے روشن ورق !!

ہم رسول اللہ ﷺ کی گھریلو زندگی کی کچھ خوشبو اور عطر حاصل کریں گے، آپؐ کے بچپن کا کچھ حصّہ، اور آپ کی ازواج مطہرات کی زندگی کی کرنیں ۔۔ اور آپؐ کی پاکیزہ اطوار بیٹیوں کا مشکبار تذکرہ، جو اس آسمان تلے دنیا کی بہترین بیٹیاں تھیں، بلکہ انسانی تاریخ کی بہترین بیٹیاں!! آپؐ کی زندگی کا ازدواجی سفر بھی بڑا ایمان افروز ہے، اور یہ بھی انسانی تمدن کا سب سے حسین قصّہ ہے، جس میں قدم قدم پر مودت اور رحمت کی مثالیں بھی ہیں اور صبروثبات کی بھی!!

۱۔ رسول اللہ ﷺ کی مائیں: حضرت آمنہ بنت وہب کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ حضرت محمد ﷺ نے ان کے رحم میں تخلیق پائی، وہ کہتی ہیں کہ ’’جب آپؐ کی ولادت ہوئی تو میرے اندر سے ایک نور نکلا، جس نے شام کے محل اور اس کے بازارروشن کر دیے، حتی کے میں نے اونٹوں کی گردنوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا‘‘، اور ایک مرتبہ خواب میں ان سے کہا گیا: ’’تمہارے پیٹ میں اس امت کا سردار ہے، جب وہ پیدا ہو تو اس کا نام محمد رکھنا‘‘۔(ابن ِ سعد، ۱۔۶۳)ابنِ سعد ہی نے ایک روایت میں خواب میں ’’احمد‘‘ نام رکھنے کا ذکر بھی کیا ہے۔ (سیرت سرورِ عالم، سید مودودی، ص۹۵)۔

ایک مرتبہ ان سے یہ بھی کہا: جب وہ پیدا ہو تو کہنا: میں اسے اس اکیلے کی پناہ میں دیتی ہوں، ہر حاسد کے شر سے، اور اس کا نام محمد رکھنا‘‘۔ (نساء حول الرسول، ص۱۳) ولادت کے وقت حضرت عبد الرحمن بن عوف کی والدہ شفاء بنت عوف حضرت آمنہ کے پاس تھیں، ابتدا میں چند روز آپؐ نے ابولہب کی لونڈی ثویبہ کا دودھ پیا، اس خدمت کے صلہ میں آپؐ اس کے ساتھ حسنِ سلوک فرماتے تھے، شادی کے بعد حضرت خدیجہؓ نے اسے خرید کر آزاد کرنا چاہا تو ابو لہب نے انکار کر دیا، اور بعد میں خود آزاد کر دیا۔ آپؐ مدینہ ہجرت فرما جانے کے بعد بھی اس کے لئے کپڑے اور خرچ بھجوایا کرتے تھے، ۷ ھ میں ثویبہ کا انتقال ہو گیا، آپؐ نے اپنے دودھ شریک بھائی مسروح کے بارے میں پوچھا تو معلوم ہوا کہ وہ بھی انتقال کر چکا ہے۔ (دیکھئے: سیرت سرورِ عالم، ج۲، ص۹۶)

آپؐ کی رضاعی ماں حلیمہ بنت ابی ذوئیب نے آپؐ کو اس لئے گود لیا تھا کہ انہیں کوئی دوسرا بچہ ملا نہ تھا، ورنہ ایک یتیم بچے کو گود لینا کسی مرضعہ کی خواہش نہ تھی، لیکن حلیمہ سعدیہ کی گود میں آتے ہی ان پر اور ان کے جانوروں پر برکت کے آثار نظر آنے لگے، اگلی صبح ہی ان کا شوہر حارث کہنے لگا: ’’اے حلیمہ، اللہ کی قسم تو نے تو بڑا ہی مبارک بچہ لیا ہے، کیا تو نہیں دیکھ رہی کہ اس کے آتے ہی ہم نے بڑی خیر و برکت کی رات گزاری ہے ۔۔ ، اور اللہ تعالی ان برکتوں کو بڑھاتا ہی رہا۔ (نساء حول الرسول، ص۱۵) اور محمد ﷺ کی صحت اتنی اچھی تھی کہ آپؐ دو برس میں چار برس کے دکھائی دیتے، اور حلیمہ سعدیہ مدتِ رضاعت مکمل ہونے کے بعد انہیں مکہ لائیں لیکن حضرت آمنہ سے بہت اصرار کر کے اور مکہ میں پھوٹی ہوئی وبا کا خوف دلا کر انہیں اپنے ساتھ لے گئیں، دو سال مزید ہمراہ رکھا، لیکن شق صدر کے واقعہ پر گھبرا کر واپس مکہ لے آئیں۔

حضرت محمد ﷺ نے عہدِ طفولت کی اس محبت اور تعلق کو تمام عمر یاد رکھا، ایک مرتبہ حلیمہ سعدیہ آپؐ سے ملنے آئیں، اس وقت آپ کی حضرت خدیجہؓ سے شادی ہو چکی تھی، آپ ان سے میری ماں میری ماں کہتے ہوئے لپٹ گئے، انہوں نے اپنے علاقے میں قحط کی شکایت کی تو آپؐ نے انہیں چالیس (۴۰) بکریاں اور ایک اونٹ سامان سے لدا ہوا دیا۔ فتح مکہ کے بعد حلیمہ کی بہن آپؐ کے پاس حاضر ہوئی اور حلیمہ کے انتقال کی خبر سنائی تو آپ کے آنسو بہہ نکلے۔

غزوہ حنین میں بنو ہوازن کا مالِ غنیمت اور لونڈیاں آپ تک پہنچائی گئیں تو ان میں آپؐ کی رضاعی بہن ’’شیما‘‘ بھی تھی، وہ رحم کی خواستگار ہوئی ، اور اس نے بتایا کہ بچپن میں آپؐ نے اس کی کمر میں کاٹ لیا تھا ۔۔ آپؐ نے اپنی چادر بچھائی اور اسے اس پر بٹھایا۔(ابن سعد) ہوازن کے قبیلے کے لوگ آپ کے پاس آئے اور کہا کہ ان قیدیوں میں آپ کی انائیں اور خالائیں بھی ہیں جنہوں نے آپؐ کو بچپن میں کھلایا ہے تو آپ نے اپنا اور بنی عبد المطلب کا حصّہ چھوڑ دیا، انصار نے بھی اپنا حصّہ چھوڑ دیا، اس طرح اس روز چھ ہزار (۶۰۰۰) قیدی رہا کئے گئے، اورجو مال انہیں واپس کیا گیا اس کی قیمت پچاس (۵۰) کروڑ درہم تھی۔(سیرت سرورِ عالم، ص۹۹)

والدہ کے ہمراہ پہلے سفر میں ہی حضرت آمنہ کا ابواء کے مقام پر انتقال ہو گیا، تو امِّ ایمن (برکۃ) کے ہمراہ مکہ واپس ہوئے، جو ان کے والد کے ترکے میں ملی تھی، اور اگلے کئی برس انہیں کی شفقت میں گزارے۔امِّ ایمن نے بچپن میں محمد ﷺ کو دودھ بھی پلایا تھا، اور جب ان کی پرورش ان کے ذمہ آئی تو انہوں نے بڑی محبت، اور کھلے دل سے آپؐکی خدمت کی، اور میٹھے انداز میں بات کی، آپؐ انہیں ماں کہہ کر بلایا کرتے، آپؐ کہا کرتے: ’’میرے گھر والوں میں یہی باقی رہ گئی ہیں‘‘۔

حضرت خدیجہؓ سے نکاح کے بعد آپؐ نے ام ایمنؓ کو آزاد کر دیا اوراور انہوں نے عبید بن زید سے نکاح کر لیا، آپؐ نے نبوت کا اعلان کیا تو امِّ ایمنؓ نے آگے بڑھ کر اسلام قبول کر لیامگر ان کے شوہر نے کفر کو ترجیح دی، بعد ازاں اس سے علیحدگی ہو گئی۔ ایک مرتبہ آپؐ نے فرمایا: ’’جو کسی جنتی خاتون سے نکاح کرنے پر خوش ہو، وہ ام ایمن سے نکاح کر لے‘‘، توآپؐ کے غلام زیدؓ نے آگے بڑھ کر ان سے نکاح کرلیا، اور آپؐ کا بعد میں بھی ان کے آنا جانا قائم رہا۔

آپؐ ان سے مزاح بھی کر لیتے تھے، ایک مرتبہ وہ آپؐ کے پاس آئیں اور کہا، مجھے اونٹ پر سوار کروائیے، آپؐ نے فرمایا: ’’میں تجھے اونٹنی کے بچے پر بٹھاؤں گا‘‘، وہ بولیں: یا رسول اللہﷺ، وہ مجھے نہیں اٹھا سکے گا، مجھے وہ نہیں چاہیے‘‘۔ (ہر اونٹ اونٹنی ہی کا بچہ ہوتا ہے) ۔ رسول اللہ ﷺ کے مرض الموت کا زمانہ آپ کو بہت دکھی کرتا، آپ ان کی تیمار داری کرتیں تو بھی آنسو بہتے رہتے، آپؐ کی وفات پر وہ بہت روئیں، جب ان سے کسی نے کہا کہ کیا آپ کو اللہ کی قضا اور قدر پر ایمان نہیں ہے، تو انہوں نے جواب دیا: ’’ہاں اللہ کی قسم، مجھے معلوم تھا کہ رسول اللہ ﷺ کو موت آئے گی، میں تو اس بات پر روتی ہوں کہ آسمان سے وحی آنا بند ہو گئی ہے‘‘۔(نساء حول الرسولﷺ، ص۲۶)۔

رسول اللہ ﷺ چھے برس کے تھے جب ان کی والدہ حضرت آمنہ کا ابواء کے مقام پر انتقال ہوا، ابن سعد کا بیان ہے کہ حضورﷺ کو وہ جگہ بھی یاد تھی، جہاں آپؐ کی والدہ دفن ہوئی تھیں، چناچہ جب آپؐ عمرہ حدیبیہ کے سفر میں وہاں سے گزرے تو فرمایا :’’اللہ نے مجھے اپنی ماں کی قبر کی زیارت کی اجازت دے دی ہے‘‘۔ پھر آپ وہاں تشریف لے گئے، قبر کی مٹی درست کی اور بے اختیار رو دیے، صحابہ نے پوچھا تو فرمایا: مجھے ان کی مامتا یاد آگئی اور میں رو دیا‘‘۔ (طبقات ابنِ سعد )۔

حضرت محمدﷺ آٹھ برس کے تھے جب دادا کی وفات کے بعد آپؐ کی پرورش کی ذمہ داری ابوطالب نے اٹھا لی، اور یہاں آپؐ کو اپنی چوتھی ماں فاطمہ بنت اسد بن ہاشم ملیں، انہوں نے آپؐ سے ایک شفیق اور محبت کرنے والی ماں کا معاملہ کیا، وہ محمدﷺ او ر ابو طالب کی اولاد میں کوئی فرق روا نہ رکھتیں۔تاریخی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ فاطمہ بنت اسدؓ آپؐ پر ایمان بھی لائی تھیں اور مدینہ ہجرت بھی کی تھی، اور وہیں وفات پائی۔

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ جب فاطمہ بنت اسدؓ نے وفات پائی تو رسول اللہﷺ ان کے سر کی جانب بیٹھے اور فرمایا: ’’اللہ آپ پر رحم فرمائے میری ماں، میری ماں کے بعد آپ میری ماں بنیں، آپ بھوک برداشت کر کے مجھے کھلاتی، اور اپنے لباس کی جگہ میرے کپڑوں کا انتظام کرتی، آپ روکھا سوکھا کھا کر مجھے اچھا کھانا دیتی، اور اس سب کا مقصد اللہ کی رضا اور آخرت کے گھر کا حصول تھا‘‘۔ آپؐ نے ان پر خود کافور چھڑکا، اپنی قمیص ان کے لئے دی، جو ان کی چادر کے اوپر پہنا دی گئی۔نبیؐ نے ان کی قبر کھودنے میں بھی حصّہ لیا اور اس میں خود لیٹے، اور لحد میں داخل کرنے میں بھی شریک ہوئے۔ (الطبرانی فی الاوسط)۔

۲۔ رسول اللہ ﷺ کی ازواج : رسول اللہﷺ حسنِ سلوک اور بہترین معاملہ کرنے میں دنیا کی بہترین مثال ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے مردوں کے ساتھ عورتوں کی بھی تربیت کی، اور اس تربیت کا ایک ہراول دستہ آپؐ کے گھر میں تربیت پا کر تیار ہوا، یہ سب خواتین نکاح کی برکت کے ساتھ آپﷺ کے گھر میں رہیں، اور ’’امہات المؤمنین‘‘ قرار پائیں۔

ازواج المطہرات کی زندگی روشن ستاروں کی مانند ہے، یا ان چراغوں کی طرح جو راستہ کی جانب رہنمائی کرتے ہیں، وہ ایسی خوشبو لئے ہوئے ہیں جن سے ہر جانب معطر ہو جاتی ہے، ایمان کے میدان میں وہ کسی بلند وبالا پہاڑ کی مانند ہیں، وہ ایسی مائیں اور بیویاں ہیں جن کا تذکرہ تاریخ کے ہر دور میں زندہ و تاباں رہے گا۔وہ علم اور معرفت میں بلند میناروں کی مانند ہیں۔ان میں حضرت خدیجہؓ اعلانِ نبوت سے پہلے آپ کے حرم میں آئیں اور باقی بنیؐ بننے کے بعد اورخدیجہؓ کی وفات کے بھی بعد ۔

حضرت محمدﷺ اور خدیجہؓ کی زندگی مسرتوں بھری زندگی تھی، یہ دو سمجھدار ذہنوں اور با ادب اور با اخلاق انسانوں کا گھر وندا تھا، اگرچہ حضرت خدیجہؓ آپؐ سے عمر میں ۱۵ پندرہ برس بڑی تھیں، لیکن دونوں کے درمیان اتنی محبت تھی کہ ان کی وفات کے بعد آپؐ تمام عمر ان کو یاد کرتے رہے۔ حضرت علیؓ کی روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا، ’’دنیا کی بہترین عورت مریمؑ ہیں، اور اس امت کی بہترین عورت خدیجہؓ ہیں‘‘۔ (رواہ البخاری) ۔

حضرت خدیجہؓ آپؐ کی رمز شناس تھیں، جب آپؐ غورو فکر کی جانب مائل ہوئے تو انہوں نے آپؐ کا بھرپور ساتھ دیا، اور آپؐ کے لئے خلوت کے تمام اسباب فراہم کر دیے، نبوت پر سرفراز ہونے سے پہلے جب آپؐ کو سچے خواب نظر آنے شروع ہوئے تو آپؐ انہیں خدیجہؓ کو سناتے، اور وہ انہیں کشادہ دلی سے سنتیں، ان کے چہرے پر ایک خوش گوار مسکراہٹ ہوتی۔اس سال جب رمضان کا مہینا شروع ہوا تو محمد ﷺ کی خلوت اور غورو فکر اپنے عروج پر تھا، ان دنوں حضرت خدیجہؓ خود ان کا مشکیزہ اور کھانا حرا تک لیکر جاتیں۔(نساء حول الرسولﷺ، ص۴۳۔۴۴)۔

جب رسول اللہ ﷺ کو پہلی وحی کے بعد گھبراہٹ ہوئی تو حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کو ان الفاظ میں تسلی دی: ’’اے چچا کے بیٹے، خوش ہو جائیے، اللہ کی قسم، اللہ آپ کو ہرگز رسوا نہ کرے گا، آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں، اور سچ بات کہتے ہیں، اور دوسروں کے بوجھ اٹھاتے ہیں، اور حاجت مندوں کو مال دیتے ہیں، مہمان نواز ہیں، اور مصیبت زدوں کی مدد کرتے ہیں‘‘۔(رواہ البخاری)پھر انہیں ورقہ بن نوفل کے پاس لیکر گئیں، جنہوں نے آپؐ کی باتوں کی تائید کی، اور اپنی نصرت کا یقین دلایا، (اگرچہ وہ اعلانیہ دعوت سے پہلے ہی وفات پا گئے)۔(رواہ البخاری ومسلم)اور حضرت خدیجہؓ کو سب سے پہلے ایمان لانے کا شرف حاصل ہوا، اور ایمان کی راہ میں ڈٹ جانے اور اپنی نفیس چیزیں خرچ کر دینے کا بھی!۔

قریش نے محمد ﷺ پر ابتلاء و آزمائش کا گھیرا تنگ کیا تو خدیجہؓ کا کاروبار بھی مصائب کا شکار ہو گیا، وہ تیر برسانے والوں کے مقابلے میں رسول اللہﷺ اور ان کی اولاد کے لئے ڈھال بن گئیں، اور سب پریشانیوں کے مقابلے میں اللہ کی رضا پر راضی رہیں، اور رسول اللہ ﷺ جب گھر آتے تو اکثر قوم کے احمقوں کی اذیت کا اثر آپؐ کی پیشانی پر رقم ہوتا، حضرت خدیجہ بڑی محبت اور مہربانی سے آپ کا استقبال کرتیں، آپؐ کے زخموں کو دھوتیں، اور آپؐ کے دل کو مطمئن کر دیتیں، اور مسکرا کر کھانا آپؐ کے سامنے رکھتیں، آپؓ کو جبریلؑ نے سلام کہلوایا اور اللہ کا پیغام دیا: اللہ آپؓ کو جنت میں ایسے گھر کی خوشخبری دیتا ہے جو سونے کی تاروں سے بنایا گیا ہے، جس میں نہ شور و غل ہو گا نہ کوئی تکان لاحق ہو گی‘‘ ، (رواہ البخاری، رقم ۳۸۲۰)۔

جب قریش نے بنو ہاشم اور ان کے ساتھیوں کے خلاف بائیکاٹ کا اعلان کیا، اور اس قرار داد کو کعبہ میں لٹکا دیا گیا تو مسلمان شعب ابی طالب میں محصور ہو گئے، خدیجہؓ ان دنوں میں بھی مسلمان خواتین کی اپنے مال سے مدد کرتی رہیں، اور اس محاصرے کے ختم ہونے کے بعد زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ آپؓ کا انتقال ہو گیا۔ آپؓ کی وفات کے قریب رسول اللہﷺ نے فرمایا: اے خدیجہؓ یہ فراق بہت تکلیف دہ ہے، جنت میں ملیں گے، تمہارے محل میں اے خدیجہؓ، جسے اللہ نے روشن موتیوں سے تیار کیا ہے۔انہوں نے آخری سانسوں میں جواب دیا: ان شاء اللہ ۔۔(نساء حول الرسولﷺ، ص۴۸۔۴۷)

حضرت خدیجہؓ کی وفات کے کچھ عرصہ بعد حضرت سودہ بنت زمعہؓ اور حضرت عائشہؓ آپؐ کے نکاح میں آئیں۔حضرت سودہؓ کے شوہر سکرانؓ ہجرت حبشہ سے واپس آکر انتقال کر گئے، تو حضور ﷺ سے نکاح نے ان کے غموں پر پھاہا رکھ دیا، اور انہیں پیغام بھیجا: ’’تمہاری قوم کا بھلا آدمی تم سے شادی کرے گا‘‘۔(نساء حول الرسولﷺ، ص۵۳)

حضرت سودہؓ نے نبی ﷺ کے گھر کا انتظام بڑی عمدگی سے سنبھال لیا، وہ ان ذمہ داریوں کو بڑی خوشی، محبت اور نرمی سے ادا کرتیں۔ پھر ایک رات جبریلؑ سبز ریشم کے کپڑے میں ایک کم عمر دوشیزہ کی تصویر لائے، اور رسول اللہﷺ کو خبر دی کہ یہ آپؐ کی زوجہ بننے والی ہیں، اور آخرت میں بھی آپ کی رفیقہ ہوں گی۔ تین راتیں مسلسل یہ زیارت ہوتی رہی، اور یہ حضرت عائشہ بنت ابی بکر ؓ کی تصویر تھی۔ ان سے نکاح مکہ ہی میں ہو گیا، اور کم عمری کے سبب رخصتی ہجرت مدینہ کے سات ماہ بعد ہوئی۔ (ترمذی، ابواب المناقب)

حضرت عائشہؓ ایک غیر معمولی قسم کی لڑکی تھیں، دنیا کے کسی رہنما کی بیوی بھی اپنے شوہر کے کام کی تکمیل میں ایسی مددگار نہیں بنی، جیسی مددگار حضرت عائشہؓ ثابت ہوئیں۔ان کی صلاحیتوں کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہ تھا، اسی لئے اللہ تعالی نے خود اپنے نبیؐ کی معیت کے لئے ان کا انتخاب فرمایا۔حضرت عائشہؒ کے ذریعے جتنا علمِ دین مسلمانوں کو پہنچا، اور فقہ اسلامی کی معلومات حاصل ہوئیں، اس کے مقابلہ میں عہدِ نبوی کی عورتیں تو در کنار مرد بھی کم ہی ایسے ہیں، جن کی علمی خدمات کو پیش کیا جا سکے۔آپؓ سے ۲۲۱۰ احادیث مروی ہیں، آپؓ نے صرف احادیث ہی روایت نہیں کیں بلکہ آپؓ فقیہ، مفسر، مجتہد اور مفتی بھی تھیں، آپؓ کا شمار مدینہ کے چند ایسے علماء میں ہوتا تھا جن کے فتوے پر لوگوں کو اعتماد تھا۔(دیکھئے: سیرت سرور عالم، ص۶۳۲۔۶۳۳)

حضرت سودہؓ بڑی تروتازہ شخصیت کی مالک تھیں، رسول اللہﷺ سے مذاق کر لیتی تھیں، ایک مرتبہ انہوں نے رسول اللہﷺ سے کہا: ’’کل رات میں نے آپؐ کے پیچھے نماز پڑھی، آپؐ نے اتنا (طویل) رکوع کیا، کہ میں نے اپنا ناک پکڑ لیا کہ کہیں اس سے خون نہ بہنے لگے‘‘، اور آپؐ ہنس دیے۔آپؓ اپنی باتوں یا حرکتوں سے اکثر مزاح پیدا کر دیتی تھیں۔ حضرت عائشہؓ بتاتی ہیں کہ ایک روز ازواج النبیﷺ جمع تھیں، اور انہوں نے پوچھا: ’’یا رسول اللہﷺ ہم میں آپؐ سے سب سے پہلے (موت کے بعد) کون ملے گی؟ آپؐ نے فرمایا: ’’تم میں سے لمبے ہاتھوں والی‘‘۔ ہم نے ہاتھ ناپنے شروع کر دیے، تو سودہؓ کے ہاتھ سب سے لمبے تھے، عائشہؓ بتاتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد سودہؓ کو آپؐ سے ملنے کی بہت جلدی تھی، لیکن یہ ہمیں بعد میں معلوم ہوا کہ ہاتھوں کے لمبے ہونے سے مراد صدقہ ہے؛ اور وہ خاتون صدقہ دینا پسند کرتی تھیں، یعنی زینب بنت جحشؓ۔

حضرت محمد ﷺ کو حضرت عائشہؓ سے خاص محبت تھی، آپؐ نے حضرت امّ سلمہؓ سے فرمایا: ’’مجھے عائشہؓ کے بارے میں اذیت نہ دو، اللہ کی قسم، ان کے علاوہ کسی اور کے بستر میں مجھ پر وحی نہیں آئی‘‘۔(رواہ البخاری) ۔ابن حبان سے روایت ہے کہ حضرت عائشہؓ نے رسول اللہﷺ سے پوچھا: ’’آپؐ کی ازواج میں سے کون جنت میں آپؐ کے ساتھ ہو گی؟‘‘، آپؐ نے فرمایا: ’’تم ان میں ہو‘‘۔

حضرت عائشہؓ جب رخصت ہو کر آپؐ کے گھر آئیں، تو ابھی بچپنا باقی تھا، آپؓ اپنی گڑیاں بھی ساتھ لے آئیں۔ رسول اللہﷺ ایک روز گھر آئے، تو عائشہؓ انہیں قطار لگائے بیٹھی تھیں، ان میں سے بعض کے پر بھی تھے، آپؐ نے ان سے ان کے بارے میں پوچھا تو وہ بولیں: یہ سلیمانی گھوڑے ہیں، نبی اکرم ﷺ مسکرا دیے اور پوچھا: اور یہ پر کیسے ہیں؟وہ بولیں: کیا حضرت سلیمانؑ کے گھوڑوں کے پر نہیں تھے، جن سے وہ اڑتے تھے؟ رسول اللہ ﷺ اتنا ہنسے کہ آپؐ کی داڑھیں نظر آنے لگیں۔

حضرت عائشہؓ کا بچپنا رسول اللہﷺ کو بہت پسند تھا، آپؐ اس معصومیت سے تنگ نہ ہوتے تھے، نہ اس پر ڈانٹ ڈپٹ اور ملامت کرتے، وہ آپ پر بہت شفقت اور مہربانی فرماتے۔ ایک روز آپؐ گھر میں آئے تو دیکھا کہ عائشہؓ سو رہی ہیں اور بکری نے روٹی کھا لی ہے، آپؐ مسکرا اٹھے اور انہیں بیدار کیا، تو وہ بہت نادم ہوئیں، آپؐ نے ان کی ندامت اور پریشانی میں انہیں تسلی بھی دی۔حضرت عائشہؓ کی عقل بیتِ رسولﷺ ہی میں شعور تک پہنچی، رسول اللہ ﷺ کی محبت او ر اطاعت میں انہوں نے سب اہم کام اور معاملات کی تدبیر سیکھ لی، رسول اللہﷺ ان کے اسی فضل کی بنا پر صحابہ اور گھر والوں سے فرماتے: ’’اس حمیراء سے آدھا دین حاصل کرو‘‘۔

ایک رات رسول ِ کریمﷺ اہل البقیع کے قبرستان میں چلے گئے، حضرت عائشہؓ کی آنکھ کھلی تو وہ پریشان ہو گئیں، لیکن بستر میں لیٹی رہیں، جب آپؐ واپس لوٹے تو انہیں پریشان دیکھ کر بولے: ’’عائشہ ؓ تم پر تمہارا شیطان غالب آگیا تھا ۔۔‘‘۔ انہوں نے پوچھا: ’’کیا میرا شیطان بھی ہے یا رسول اللہ؟‘‘آپؐ نے فرمایا : ہاں، ہر انسان کا شیطان ہے۔ وہ بولیں: اور آپؐ کا؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں، لیکن اللہ نے میری مدد کی اور میں نے اسے مطیع بنا لیا ہے‘‘۔(رواہ مسلم، رقم ۲۸۱۵)

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ مجھے رسول اللہﷺ کی بیویوں میں کسی پر اتنا رشک نہیں آتا تھا جتنا خدیجہؓ پرآتا تھا، حالانکہ آپؐ سے میری شادی سے قبل وہ انتقال کر چکی تھیں، اس کی وجہ یہ تھی کہ میں اکثر آپؐ کو ان کا ذکر کرتے سنتی تھی، آپؐ جب کوئی بکری ذبح کرتے تو خدیجہؓ کی سہیلیوں کو ہدیہ بھیجتے، اور ایک مرتبہ ان کی بہن ہالہ بنت خویلد آئیں، اور اندر آنے کی اجازت طلب کی، رسول اللہﷺ ان کی آواز سن کر تڑپ گئے کیونکہ ان کی آواز حضرت خدیجہؓ سے مشابہ تھی، حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں، میں اس پر جل گئی اور کہا: آپؐ قریش کی ایک بوڑھی عورت کو اتنا یاد کرتے ہیں جسے انتقال کئے مدت گذر گئی ، اور اللہ نے آپؐ کو اس سے اچھی بیوی دے دی، میری اس بات پر حضورؐ کو غصّہ آگیا اور آپؐ کو ناراض دیکھ کر میں نے کہا: اللہ کی قسم جس نے آپؐ کو حق دے کر بھیجا ہے میں اس کے بعد کبھی ان کا ذکر بھلائی کے سوا نہ کروں گی۔ (مسند احمد و الطبرانی)

عہدِ نبیؐ میں جب رسول اللہﷺ کے نکاح میں چار بیویاں حضرت سودہؓ، حضرت عائشہؓ، حضرت حفصہؓ اور حضرت امّ سلمہؓ تھیں، اور آپؐ کا ہاتھ تنگ تھا ، یہ ازواج خرچ کا مطالبہ کر رہی تھیں، ایک روز حضرت ابو بکرؓ او ر حضرت عمرؓ حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دیکھا کہ آپؐ کی ازواج آپؐ کے گرد بیٹھی ہیں اور آپؐ خاموش بیٹھے ہیں، آپؐ نے حضرت عمرؓ کو مخاطب کر کے فرمایا: یہ میرے گرد بیٹھی ہیں جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو، اور یہ خرچ کا مطالبہ کر رہی ہیں‘‘ اس پر دونوں صاحبوں نے اپنی اپنی بیٹیوں کو ڈانٹا۔(تفہیم القرآن، ج۴، ص۸۴)۔ اس کے بعد اللہ کی طرف سے آیات ِ تخییر نازل ہوئیں، اور نبیؐ کی ازواج کو اختیار دیا گیا کہ وہ دنیا کا مال اور اس کی زینت اور نبی ﷺ کے ساتھ رہنے میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لیں، اور آپؐ نے ہر زوجہ کو سوچنے کا موقع فراہم کیا، اور جب ان سب نے رسول ِ کریم ﷺ کے ساتھ کو چن لیا، تو آپؐ سب سے پہلے جن کے گھر گئے، وہ حضرت عائشہؓ تھیں۔

منافقین نے فتنہ سے حضرت عائشہؓ پر تہمت لگائی، اور اللہ کے رسول اور ان کے گھرانے کو اذیت پہنچائی تو اللہ تعالی نے ان کے حق میں وحی نازل کر کے ان کی برأت فرماتی اور حدیث ِ افک پھیلانے والوں پر لعنت فرمائی۔حضرت حفصہ ؓ بنت عمر بن خطاب سن دو ھجری میں بیوہ ہو گئیں، حضرت عمرؓ جوان بیٹی کے بیوہ ہو جانے پر بہت دکھی تھے، رسول ِ کریمﷺ نے ان کے گھر جا کر حفصہؓ سے نکاح کا پیغام دیا، حضرت عمرؓ کے لئے یہ انتہائی خوشی کا پیغام تھا۔حضرت حفصہؓ نے نبوت کے گھرانے سے محبت، وفا اور اخلاص کا حق ادا کیا، وہ سمع و اطاعت پر گامزن رہیں، وہ بہت متقی اور عبادت گزار تھی۔ ان سب خصوصیات کے ساتھ آپؓ ایک خاتون بھی تھیں، اس لئے باقی ازواج کی طرح ان کا دل بھی غیرت اور سوکناپے کے اثر سے خالی نہ تھا۔

زیادہ خرچ کے مطالبے میں وہ اور حضرت عائشہؓ پیش پیش تھیں، جس نے رسول اللہ ﷺ کو رنج پہنچایا تھا اور آپﷺ نے ایک ماہ تک ازواج کا مقاطعہ کیا تھا۔اور یہ خبر پھیلی تو حضرت عمرؓ نے گمان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے حفصہؓ کو طلاق دے دی ہے، لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ آپ ؐ نے محض ارادہ کیا تھا اور جبریلؑ نے آپؐ سے کہا تھا: ’’حفصہؓ کو طلاق نہ دیجئے، وہ روزہ دار اور قیام کرنے والی ہیں، اور آپؐ کی جنت کی بیویوں میں سے ہیں‘‘۔(النساء حول النبیﷺ، ص۷۸) ۔ حضرت حفصہ ؓ کی زندگی آپؐ کے ساتھ بہت خوشی اور مسرت سے بسر ہوئی، اور آپﷺ کے انتقال کے بعد حفصہؓ بہت غمگین رہنے لگیں، وہ گھر کی ہو کر رہ گئیں اور باہر نکلنا چھوڑ دیا، البتہ ان کا عبادت کا شوق اور مساکین پر صدقہ کرنے کی عادات باقی رہیں۔

حضرت ابو سلمہؓ کی شہادت کے بعد حضرت امّ سلمہ ؓ بیوہ ہو گئیں، حضرت ابو سلمہؓ نے موت سے قبل انہیں دعا دی تھی: ’’اے اللہ ، امّ سلمہ کو مجھ سے اچھا شوہر دینا، جو انہیں نہ غم دے نہ کوئی تکلیف دے‘‘۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں بیوگی کے بعد کہا: ’’اللہ سے اس مصیبت پر اجر اور اس کے بعد بہترین کی دعا مانگو‘‘۔ یہ سن کر امّ سلمہؓ رو پڑیں کہ اتنے اچھے شوہر سے زیادہ بہتر اور کون ہو گا ، جس نے ایمان اور ہجرت کے راستے میں ان کا بھر پور ساتھ دیا۔ انہیں حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ نے نکاح کا پیغام دیا مگر انہوں نے انکار کر دیا، اور پھر اللہ تعالی نے آپﷺ کو ان سے نکاح کا حکم دیا۔امّ سلمہ کو نکاح کا پیغام دیا گیا تو انہوں نے کہا، کہ میری عمر بڑھ گئی ہے، اور میں یتیم بچوں کی ماں ہوں اور مجھ میں غیرت بھی بہت ہے، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں آپ سے سن رسیدہ ہوں، اور مرد کے لئے یہ عیب کی بات نہیں کہ وہ اپنے سے بڑی سے نکاح کرے، اور یتیم کی کفالت اللہ اور رسولؐ کے ذمہ ہے، رہی غیرت ، تو اس کے لئے اللہ سے دعا کرو‘‘۔ (ابن سعد)۔

حضرت امّ سلمہ ؓ عمر رسیدہ ہونے کے باوجود بہت خوبصورت تھیں، اور نبی کریم کے ہاں ان کا اتنا اکرام تھا کہ آپؐ عصر کے بعد سب ازواج کے گھروں میں جاتے تو اس کی ابتداء حضرت امّ سلمہؓ سے کرتے، اور سب سے آخر میں حضرت عائشہؓ کے ہاں آتے۔حضرت امّ سلمہ ؓ نبیﷺ کے گھر میں بہت اکرام سے رہیں، اور دیگر امہات المؤمنین سے بھی ان کا تعلق بڑی مودت اور الفت کا تھا۔اور رسول اللہﷺ کو ان کا یہ رویہ بہت پسند تھا۔ صلح حدیبیہ کے روز جب رسول اللہﷺ نے صحابہ کو قربانی کرنے کا حکم دیا تو کوئی ایک بھی آگے نہ بڑھا، اور تین مرتبہ کے حکم کا کسی نے جواب نہ دیا، تو آپؐ ام سلمہﷺ کے پاس آئے اور ان سے اس غم اور الم کا تذکرہ کیا، تو وہ بولیں: ’’اے اللہ کے رسول، کیا آپؐ کو یہ پسند ہے!!!؟ آپ کسی سے کچھ نہ کہیے اور اٹھ کر اپنا جانور ذبح کر دیں، اور بال مونڈنے والے کو بلا کر حلق کروا لیں‘‘۔نبی کریمﷺ نے ان کے مشورے کو درست جان کر قبول کر لیا، اور سب لوگ بھی آپؐ کی اقتداء میں اٹھ کھڑے ہوئے۔

آج بھی مسلمان عورتوں اور لڑکیوں کو نبیﷺ کی ازواج کے نمونہ کو جاننے کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ ان ماؤں سے زندگی گزارنے کا ڈھنگ سیکھیں، اور فتنہ و فساد اور گمراہ کرنے والی ٹیڑھ میں اس روشن راستے پر چل سکیں جو کامیابی کی منزل پر لے جاتا ہے۔(جاری ہے)

حصہ
mm
ڈاکٹر میمونہ حمزہ نے آزاد کشمیر یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات امتیازی پوزیشن میں مکمل کرنے کے بعد انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب میں بی ایس، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ زمانہء طالب علمی سے ہی آپ کی ہلکی پھلکی تحریریں اور مضامین شائع ہونے لگیں۔ آپ نے گورنمنٹ ڈگری کالج مظفر آباد میں کچھ عرصہ تدریسی خدمات انجام دیں، کچھ عرصہ اسلامی یونیورسٹی میں اعزازی معلمہ کی حیثیت سے بھی کام کیا، علاوہ ازیں آپ طالب علمی دور ہی سے دعوت وتبلیغ اور تربیت کے نظام میں فعال رکن کی حیثیت سے کردار ادا کر رہی ہیں۔ آپ نے اپنے ادبی سفر کا باقاعدہ آغاز ۲۰۰۵ء سے کیا، ابتدا میں عرب دنیا کے بہترین شہ پاروں کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالا، ان میں افسانوں کا مجموعہ ’’سونے کا آدمی‘‘، عصرِ نبوی کے تاریخی ناول ’’نور اللہ‘‘ ، اخوان المسلمون پر مظالم کی ہولناک داستان ’’راہِ وفا کے مسافر‘‘ ، شامی جیلوں سے طالبہ ہبہ الدباغ کی نو سالہ قید کی خودنوشت ’’صرف پانچ منٹ‘‘ اورمصری اسلامی ادیب ڈاکٹر نجیب الکیلانی کی خود نوشت ’’لمحات من حیاتی‘‘ اور اسلامی موضوعات پر متعدد مقالہ جات شامل ہیں۔ ترجمہ نگاری کے علاوہ آپ نے اردو ادب میں اپنی فنی اور تخلیقی صلاحیتوں کا بھی مظاہرہ کیا،آپ کے افسانے، انشائیے، سفرنامے اورمقالہ جات خواتین میگزین، جہادِ کشمیر اور بتول میں شائع ہوئے، آپ کے سفر ناموں کا مجموعہ زیرِ طبع ہے جو قازقستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں آپ کے سفری مشاہدات پر مبنی ہے۔جسارت بلاگ کی مستقل لکھاری ہیں اور بچوں کے مجلہ ’’ساتھی ‘‘ میں عربی کہانیوں کے تراجم بھی لکھ رہی ہیں۔

15 تبصرے

جواب چھوڑ دیں