صحافی کی مشکلات

ایک دوست سے ملاقات ہوئی ، جس کا تعلق پاکستان کے ایک موقر اخبار سے ہے، جب کہ مختلف صحافی تنظیموں کے رکن ہونےکے ساتھ ساتھ پریس کلب کے بھی ممبر ہیں۔ طبیعت معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ اس دوست کو دو دن سے بخار اورکھانسی ہورہی ہے ،کورونا ٹیسٹ سے متعلق پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اتنے پیسے نہیں کہ ٹیسٹ کرائوں، 7-8ہزار روپے نارمل لیبارٹری سے ٹیسٹ ہورہے ہیں جب کہ آغاخان اوردیگر بڑی لیباٹریوں کے ٹیسٹ تو ا س سے بھی زیادہ ہیں،جب کہ میرے پاس اتنے پیسے نہیں کہ میں نارمل لیبارٹری سے ہی ٹیسٹ کرائوں۔

اس کی باتیں سن کر میں نے کہا کہ اس سلسلے میں حکومت یا کلب کی جانب سے صحافیوں کے لیے کوئی انتظامات نہیں کیے گئے ، جس پر اس دوست نے جواب دیا کہ بھائی یہ سب اونچی دکان پھیکے پکوان والی بات ہے۔ صحافیوں کو سنہرے خواب دکھائے ضرور جاتے ہیں مگر ان پر عمل ہوتے ہوتے صدیاں گزرجاتی ہیں، اور کورونا تو اس وقت ہاٹ ایشو بنا ہوا ہے تو پھر ایسے میں اس پر کیسے اقدامات ہوسکتے ہیں۔

یہ صرف ایک دوست کی کہانی نہیں ایسی انگنت کہانیاں ہمیں روزانہ فیلڈ کے دوران دیکھنے اور سننے کو ملتی ہیں۔ ایک ایماندار صحافی کے گھر دو وقت کا کھانا بھی انتہائی مشکل سے بنتا ہے ، بچوں کی اسکول فیس،گھر کا کرایہ ، یوٹیلیٹی بلزسمیت ماہانہ اخراجات کم از کم 30ہزار سے ہوجاتے ہیں ،اورتنخواہ دیکھی جائے تو محض 18ہزار روپے سے 25روپے ملتی ہے اور وہ بھی کبھی دو ماہ بعد تو کبھی تین ماہ بعد، اس دوران اس صحافی کے گھر کے حالات کہاں پہنچتے ہوں گے یہ وہ جانتا ہے یا پھر اس کا خدا، ادارے تباہی کے دہانے پر پہنچ  چکے ہیں ، گورنمنٹ اشتہارات مل نہیں رہے ،پرائیوٹ اشتہارات واٹس ایپ اورسوشل میڈیا کے باعث تقریبا ختم ہوچکے ہیں ایسے میں کسی ادارے کا برقرار رہنا حیرت ناک ہی ہے۔

صحافی روزانہ کی بنیاد پر اپنے فرائض سرانجام دیتا ہے ،ایک دن بھی چھٹی نہیں کرتا، چھٹی والے روز بھی کوئی نہ کوئی خبر فائل کرہی لیتا ہے ، لیکن بدلے میں اسے صرف رسوائی اورذلت ہی ملتی ہے ،تنخواہ کے نام پر بھیک ملنے پر بھی ایک صحافی اپنے فرائض سے منہ نہیں موڑتا۔ اسی طرح گزشتہ دنوں ایک اور دوست نے انتہائی پریشانی کے عالم میں بتایا کہ اس کے گھر میں آج بچوں کے لیے کھانا تک میسر نہیں، یہ میرے لیے ایک انتہائی افسوس ناک خبر تھی ،فوری طورپر جو ہوسکتا تھا کیا ،مگر مستقل حل کوئی نہیں ہے۔ صحافی تنظیمیں اورکلبز اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں ،لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ متحد ہوں تو پھر معاملا ت ایک دن میں ہی حل ہوجائیں۔ لوگ کہتے ہیں صحافیوں کے مزے ہیں ،جہاں جاتے ہیں کارڈ دکھا کر اپنا کام کروالیتے ہیں ،لیکن ان لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ قبر کا حال مردہ ہی جانتا ہے ۔

صحافی دنیا کے سامنے کمیض اوپر اٹھا کر اپنا پیٹ نہیں دکھاتا، وہ انتہائی خوش باش انداز میں سب سے ملتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ اس کے ساتھ پریشانی نہیں۔ مسائل میں وہ بھی جکڑا ہوتا ہے ،تاہم وہ پریس کلبوں کے سامنے احتجاج نہیں کرسکتا، وہ ادارے میں شور شرابہ نہیں کرسکتا، اپنے حق کے لیے کسی کے سامنے آواز نہیں اٹھاسکتا، وہ دوسروں کے مسائل تو فوری طورپر حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے مگر جہاں اپنے مسائل کی بات آتی ہے تو وہ بے بس اورمجبور ہوجاتا ہے ۔

روزانہ آفس آنے جانے کے لیے پیٹرول ،دوستوں اوردیگر محفل میں جانے کے لیے اچھے کپڑے،جوتے اوربال سلیقے سے بنے ہونے لازمی ہوتے ہیں ، ان پر بھی خرچہ ہوتا ہے مگر وہ مجبور ی میں یہ سب کرتا ہے ،اپنے گھریلواخراجات کو انتہائی قلیل کرنے کے بعد جو دو پیسے بچ جاتے ہیں وہ ان پیسوں کو اپنے اوپر لگاتا ہے تاکہ بچوںکی کفالت کرسکے۔ ایسے میں کوئی ورکشاپ وغیرہ بھی اٹینڈ کرنی ہوتی ہے تو اس کے لیے بھی فیسوں کی ادائیگی کرنا اس کے لیے ایک وبال بن جاتا ہے یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان میں صحافت زوال کی طرف جارہی ہے ،اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی اگر دو وقت کی روٹی عزت سے نہ ملے تو پھر انسان کس طرف جائے گا یہ سب کو معلوم ہے۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ وطن عزیز میں صحافت کا  پیشہ داغدار ہوتا جارہا ہے ، لیکن آج  بھی بااصول اورسچے صحافی موجود ہیں جو صحافت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ یہ ان کی ایمانداری کا ہی نتیجہ ہے جس کی بدولت آج صحافتی ادارے برقرار ہیں ۔

گھروالے کہتے ہیں صحافت چھوڑ کر کوئی دوسرا کام کیوں نہیں کرلیتے۔ اکثر یہ سوال سننے کو ملتا ہے ،آج اس کا جواب بھی دیتا جائوں کہ صحافی نے صحافت کے علاوہ کچھ سیکھا ہی نہیں ہوتا، وہ دن رات لکھنے اورپڑھنے میں گزار دیتا ہے ،اس کے تعلقات ایسے ہوتے ہیں کہ کوئی سوچ  بھی  نہیں سکتا ، ایسے میں وہ اگر کوئی  بچوں کی روزی روٹی کے لیے کوئی معمولی سا ٹھابہ بھی لگانا چاہیے تو نہیں لگاسکتا، اس کے تعلقات اور اس کی عزت اس کے آڑے آجاتی ہے۔ کئی صحافی دوست آج بھی ڈھکے چھپے کوئی نہ کوئی چھوٹا موٹا کام کررہے ہیں جس کا علم صرف ان کے قریبی دوستوں کو ہی ہوتا ہے ،لیکن کبھی اگر ان سے آپ کی ملاقات ہوتو یقین کریں وہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے ہیں ۔

ہمارے یہاں رواج بن چکا ہے کہ صحافی دونمبرذرائع سے پیسہ کماتا ہے ،لیکن یہ غلط ہے ،ایماندار صحافی جس نے اپنی صحافتی زندگی میں ایک گھر تک نہ بنایا ہو بھلا وہ کس طرح دونمبر ذرائع سے پیسہ کماسکتا ہے۔ یہ کام ان لوگوں کا جن کا صحافت یا صحافتی ادارے سے دور دور تک کا کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ نہ حکومت کی جانب سے کوئی صحافیوں کو کوئی گرانٹ ملتی ہے اور نہ ہی کوئی کلب بچوں کی اسکول فیس کی مد میں کوئی مدد کرتاہے۔ صحافی جب تک زندہ ہے اس کے گھر کی دال روٹی چل رہی ہوتی ہے ،اگر مرجائے تو گھروالے سڑکوں پرآجاتے ہیں۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں صحافی مزے میں ہیں تو میں ان سے پھر یہ ہی کہوں گا کہ دور کے ڈھول ہمیشہ سہانے ہی ہوتے ہیں،نزدیک جانے پر وہی ڈھول آپ کے کان کے پردے نہ پھاڑ دے تو کہنا۔

ملک میں صحافت کے نام پر دونمبری صرف اس لیے بڑھتی جارہی ہے کہ ایماندار اوراصول پسند صحافی اپنی معاشی مسائل کے حل میں جت گئے ہیں ،جن کا فائدہ ان لوگوں نے بخوبی اٹھایا ہے جنہیں معلوم ہے کہ اب یہ کچھ نہیں کرسکتے۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ آج صحافی تو صحافت سے آہستہ آہستہ کنارہ کشی اختیار کررہے ہیں جس کی جگہ ان بلیک میلروں نے لے لی ہے ، اس لیے یہ شعبہ آج  انتہائی پستی کی جانب جارہاہے اور لوگوں کی نظروں میں ذلیل ہورہاہے ،آپ اگر ایک ایماندار صحافی ہے اور کسی سے آپ نے اپنا تعارف بطورصحافی کرایا تو وہ آپ کو ایسے دیکھے گا جیسے آپ صحافی نہ ہوئے بلکہ کوئی بہت بڑے چور ڈاکوں ہوں۔

آخر میں صرف اتنا ہی کہنا چاہوں گا کہ صحافت بری چیز نہیں ، مگر حکومت اور اداروں کو بھی اس پر دھیا ن   دینا چاہیے تاکہ وہ صحافی آج کے دور میں خود کو زندہ رکھ سکیں، اگر اس پر فوری توجہ نہ دی گئی توشاید چند برسوں بعد ملک میں صحافی کی جگہ بلیک میلر ہی نظرآئیں گے، جو ہرایماندار اوربے ایمان سرکاری ونجی افسران کے سر کا درد بن جائیں گے ،جب کہ ادارے اس وقت انہیں لوگوں کو ترجیح دیں گے جو انہیں پیسہ کما کردیں گے ،لیکن کام کوئی ایماندار اوربااصول صحافی تو ہرگز نہیں کرسکتا، پھر ایسے میں بلیک میلر ہی مارکیٹ میں آپ ہرجگہ دکھائی دیں گے،جو اپنے ساتھ ساتھ آپ کی عزت بھی تارتار کررہے ہوں گے۔

حصہ
mm
روزنامہ جسارت سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف بلاگز ویب سائٹس پر بلاگ ‘فیچرز اور تاریخی کہانیاں لکھتے ہیں۔ روزنامہ جسارت کے سنڈے میگزین میں بھی لکھ رہے ہیں۔ روزنامہ جناح کراچی میں بطور سندھ رنگ میگزین کے انچارج کے طورپر اپنی خدمات بھی انجام دے چکے ہیں۔ زیادہ تر معاشرتی مسائل پر لکھنے کا شوق ہے۔ اس کے علاوہ کراچی پریس کلب کے ممبر اورپاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کے بھی ممبرہیں۔

جواب چھوڑ دیں