بے روزگاری سے نجات، مگر کیسے؟

بچپن کی یادوں میں سے ایک کہانی گوش گزار ہے جو کہ ایک میگزین میں پڑھی تھی۔ کہانی ایک لڑکے کی ہے جس کا نام غالباً عمر تھا۔ عمر آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا،پڑھائی سے بھی بے انتہا لگا ؤ رکھتا تھا۔ اور اس کے والد  بازار میں دال چاول کی ریڑھی لگاتے تھے۔ ایک دن سڑک پر پڑے کیل نے عمر کے والد صاحب کے پیر کو شدید زخمی کر دیا۔ وہ کئی روز کے لئے بسترعلالت پر تشریف لے گئے۔

والد صاحب گھر کے واحد کفیل تھے۔ ایسے میں ذمہ داری گھر کے اکلوتے بیٹے عمر کے کندھوں پر آ ئی۔ والد صاحب کی علالت کے دوران عمر روزانہ اپنی امی سے دال چاول پکواتا اور سکول کے بعد ریڑھی لگاتا تھا۔ وقت کے ساتھ عمر کے والد صاحب کا زخم بھر گیا اور وہ اپنے کام پر واپس آ گئے۔ بعد ازاں عمر نے دن رات شدید محنت کی اور گریجویشن مکمل کیا۔ اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ وہ اپنے والد صاحب کا بھی ہاتھ بٹاتا تھا۔

گریجویشن مکمل کرنے کے بعد عمر نے دال چاول کا ایک چھوٹا مگر عمدہ ہوٹل بنایا۔ اور اسی کام کو آگے لے جانے کی غرض سے محنت شروع کی۔ رشتے داروں اور دوست احباب کے طعنے کہ “اتنا پڑھنے کی کیا ضرورت تھی اگر دال چاول کا ہوٹل ہی بنانا تھا۔ ڈگری لی ہے تو کوئی افسروں والی نوکری کرو” عمر کو اکثر رنجیدہ کر دیتے تھے۔ لیکن اسے اپنے کام سے محبت اور اپنی کامیابی کا مکمل یقین تھا۔ اس نے آہستہ آہستہ اپنے کام کو بڑھایا اور دیانتداری اور نیک نیتی کی بنیاد پر اس معمولی دال چاول کے ہوٹل کو چند ہی سالوں میں ایک فائیوسٹارہوٹل کی شکل دے دی۔

پھر اسی فائیو سٹار ہوٹل کی شاخیں کچھ عرصے میں شہر کی مختلف جگہوں پر بن گئی اور عمر کا شمار شہر کے پڑھے لکھے اور کاروباری شخصیات میں ہونے لگا۔ لہذا عمر نے نہ صرف خود کو مالی لحاظ سے مضبوط کیا بلکہ دیگر پڑھے لکھے نوجوانوں اور بے روزگار لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع بھی پیدا کیے۔آج پاکستانی نوجوان ڈگریاں ہونے کے باوجود بے روزگار ہیں۔ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کہ باوجود کم تنخواہ پر کام کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ معاشرے میں روزگار کے مواقعوں کی عدم دستیابی ہے۔ اور ہم یہ شکوہ بھی حکومت وقت سے کرتے ہیں کہ  ملک میں روزگار کے  مواقع پیدا کیے جائیں۔

لیکن کیا بحیثیت فرد ہم خود کچھ نہیں کرسکتے؟ آج بھی یونیورسٹیوں کالجوں میں پڑھنے والے زیادہ تر طلبہ و طالبات اپنی تعلیم
مکمل ہونے کے بعد ایک اچھی نوکری کے خواہشمند ہیں۔ لیکن یہ خواہش صرف چند کی ہی پوری ہو پاتی ہے۔ زیادہ تر افراد یا تو کم تنخواہ پر کام کر تے ہیں یا پھر بے روزگار رہتے ہیں۔ اس سے معاشرہ معاشی بدحالی کا شکار ہوچکا ہے۔ اس لیے اس مسئلے کا اگر دیر پا حل چاہیئے تو تعلیم یافتہ نوجوانوں میں نوکری کی بجائے کاروبار  کا رجحان پیدا کرنا ہوگا۔ تاکہ وہ نہ صرف خود مالی طور پر مضبوط ہو سکیں بلکہ دوسروں کے لیے بھی روزگار پیدا کرسکیں۔ اور حدیث کا بھی مفہوم ہے کہ ” نو حصے رزق کے کاروبار میں اور ایک حصہ نوکری میں ہو تا ہے”۔
اس کے علاؤہ پاکستان ایک زیر تعمیر ریاست ہے یہاں ہر شعبہ میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مختلف قسم کی انڈسٹریز کو آباد کرنے اور سائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ کی ضرورت ہے۔ کوئی بھی شعبہ ہو سب سے زیادہ سکوپ ایمانداری اور اعلی معیاری کام کا ہے۔ اس لیے نوجوانوں کو کاروبار ی دنیا میں دلچسپی لینی چاہیے۔ اور ڈگری حاصل کرنے کا  ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان صرف اعلی قسم کی نوکری کرےاور کوئی چھوٹا کام اسے زیب نہیں دیتا۔ چھوٹے سے کاروبار کو محنت ،لگن اور علم کی بدولت آگے بھی لے جایا جاسکتاہے۔

جواب چھوڑ دیں