تحفہ ٔ شہادت 

“عائیشہ ذرا بھائی سے میری بات تو کراؤ کل عید ہے معلوم تو کروں کہ کل کب تک گھر آرہا ہے” آمنہ بیگم نے فکرمندانہ انداز میں چھوٹی بیٹی سے کہا.”امی آپ بھول گئی اس بار عید پر بھائی گھر نہیں آئیں گے…..وباء کے پھیلاؤ کی وجہ سے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے اس لیے بھائی ہسپتال میں ہی اپنا فرض ادا کرتے ہوئے عید گزاریں گے”… ..عائیشہ نے آمنہ بیگم کو تسلی دیتے ہوئے جواب دیا. …….آمنہ بیگم: ارے ہاں! بیٹی! میں تو بھول ہی گئی تھی. اچھا بھائی کو فون تو لگاؤ، ایک ہفتہ ہوگیا احمد سے بات کئے ہوئے. خیریت تو دریافت کروں میں اپنے بیٹے کی….عائیشہ: جی امی…(عائیشہ فون رکھتے ہوئے امی سے کہتی ہے)امی! بھائی کال ریسیو نہیں کررہے شاید مصروف ہونگے. آپ فکر نہ کریں میں آپکی بات صبح کروادوں گی بھائی سے…آمنہ بیگم: (رضامندانہ انداز میں جواب دیتے ہوئے کہتی ہے) ٹھیک ہے بیٹی…

(آمنہ بیگم اپنے کمرے میں جاتے ہوئے عائیشہ سے مخاطب ہے)چلو عائیشہ اب جاؤ سو جاؤ.. کل صبح بہت کام ہونگے… عائیشہ: جی امی! شب خیر… (عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد آمنہ بیگم اپنے پیارے بیٹے احمد کی تصویر ہاتھوں میں لیئے محبت بھری نگاہوں سے دیکھتی ہوئی کہتی ہے) آمنہ بیگم: احمد بیٹا! میرے پیارے بیٹے! تماری ماں تمہیں بہت یاد کرتی ہے… ایک ماہ گزر گیا تمہیں دیکھے ہوئے اور اب تو ایک ہفتے سے تماری آواز بھی اس ماں کے کانوں نے نہیں سنی…میں جانتی ہوں پیارے بیٹے! تم انسانیت کی خدمت میں اپنے فرائض ادا کررہے ہو.. اے میرے اللہ! میرے احمد کو ہمت اور استقامت عطا فرما اور اسے اپنے امان میں رکھ… آمین (اور اسی طرح بیٹے کی تصویر ہاتھوں میں تھامے آمنہ بیگم کی آنکھ لگ جاتی ہے) ۔

(تہجد کی نماز کا وقت آجاتا ہے آمنہ بیگم نماز کیلئے بیدار ہوتی ہے اور وضو بنانے کے بعد نماز کیلئے کھڑی ہو جاتی ہے…آمنہ بیگم جیسے ہی نماز کا آخری سلام کہتی ہے اسے کمرے میں سفید چاندنی جیسی روشنی محسوس ہوتی ہے. ..وہ جائے نماز سے اٹھتی ہے کہ معلوم کرے کہ یہ روشنی کہاں سے آرہی ہے، جیسے ہی وہ روشنی کی طرف بڑھتی ہے تو کیا دیکھتی ہے…؟)(آمنہ بیگم کے سامنے اسکا لخت جگر، اسکا بیٹا احمد کھڑا ہے.. پیارے بیٹے کو اپنے سامنے موجود پاکر اسکی خوشی کا ٹھکانہ ہی نہیں رہتا..)(آمنہ بیگم اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے بیٹے سے مخاطب ہوتی ہے…)آمنہ بیگم: “احمد! میرے بچے! مجھے یقین نہیں آرہا کہ تم اپنی ماں کے سامنے کھڑے ہو…”(احمد محبت بھرے انداز میں ماں کو جواب دیتا ہے)احمد: “پیاری امی! آپ مجھے سچے دل سے یاد کرتی ہیں.. میرے لیے راتوں کو جاگ جاگ کر دعا مانگتی ہیں تو بھلا آپ کا احمد آپ سے ملنے کیوں نہ آتا…”آمنہ بیگم: میرے پیارے بیٹے! ماں کا تو فرض ہوتا ہے اپنی اولاد کیلئے اللہ سے دعائیں کرتے رہنا… (یہ کہتے ہوئے آمنہ بیگم احمد کی پیشانی کو بوسہ دیتی ہے) احمد: (ماں کی خیریت دریافت کرتے ہوئے) امی آپ کیسی ہیں؟ اپنا خیال تو رکھتی ہیں نا؟ اور دوائیں روزانہ ٹائم سے لے رہی ہیں نا؟ آمنہ بیگم: (مسکراتے ہوئے) ارے ہاں! میرے بیٹے..! میں بالکل ٹھیک ہوں… اپنا خیال بھی رکھتی ہوں… اور دوائیں بھی پابندی سے لیتی ہوں…

(آمنہ بیگم فکرمندانہ انداز میں احمد سے سوال کرتی ہے)آمنہ بیگم: احمد بیٹا تم کیسے ہو؟ سب خیریت ہے ایک ہفتے سے فون بھی نہیں کیا تم نے؟ احمد: (ماں کو تسلی دیتے ہوئے)” جی امی میں ٹھیک ہوں….. آپکی دعاؤں سے بہت اچھی اور پر سکون جگہ پر پہنچ گیا ہوں…”آپ بس میرے لیئے دعا کریں…(ماں بیٹے کے جواب کو ادھورا سمجھ پاتی ہے اور کہہ پڑتی ہے)آمنہ بیگم: احمد بیٹا! تم بس ایمانداری اور خلوص دل سے اپنے فرائض انجام دو.. انشاء اللہ، اللہ سب بہتر کردے گا…احمد: پیاری امی! میں بہت شرمندہ ہوں کہ میں آپکی خدمت نہیں کرسکا. جس عمر میں آپ کو میرے ساتھ کی ضرورت ہے وہیں میں آپکے پاس نہیں. …آمنہ بیگم: (نہایت شفقت سے) احمد بیٹا تمہیں شرمندہ ہونے کی بالکل ضرورت نہیں….تم نے تو ڈاکٹر کے عہدے پر فائز ہو کر میرے خواب کی تعبیر کی ہے…بیٹا مجھے بالکل افسوس نہیں کہ تم میرے پاس نہیں ہو کیونکہ انسانیت کی خدمت ہی تمہارے لیئے سب سے مقدم ہونا چائیے..مجھے فخر ہے تم پر بیٹا….

احمد: امی آپکے خوابوں کی تعمیر مجھ پر فرض ہے….ابو کا دستہ شفقت اٹھ جانے کے بعد آپنے ناجانے کتنی سختیاں برداشت کیں، ہماری معاش کی زمیداری بھی آپکے کاندھوں پر آگئی تھی… اسکے باوجود بھی آپ نے ہماری بہترین تربیت کی، ہماری تعلیم مکمل کروائی،اور ہمارے اچھے مستقبل کے لیے مسلسل محنت کرتی رہیں….. آپ ہی نے مجھے حق کے راستے پر چلنا اور ثابت قدم رہنا سکھایا،میں آپکا بہت احسان مند ہوں پیاری امی…(آمنہ بیگم لخت جگر کی باتیں سن کر مسکراتی رہی) (گفتگو کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے احمد آمنہ بیگم سے سوال کرتا ہے)احمد: “امی! اگر آپکو خبر ملے کہ انسانیت کی خدمت میں آپکے بیٹے کا جذبہ ایثار اللہ کو پسند آگیا اور آپکی دعاؤں کے طفیل اللہ نے آپکے بیٹے کو اس مرتبے پر پہنچا دیا جسکا حصول ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے، تو آپکے کیا تاثرات ہونگے؟”(احمد کی بات سنتے ہی آمنہ بیگم کی آنکھوں میں آنسوں آگئے کہ جیسے بیٹے کی بات سمجھ آگئی ہو، لہذا اس نے مسکراتے ہوئے احمد کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہنے لگی)آمنہ بیگم: میرے احمد! ایک ماں کے لیے نہایت فخر کی بات ہوگی جب اسے پتا چلے کہ اسکا بیٹا اللہ کے محبوب بندوں میں شامل ہوگیا ہے… اللہ تمہاری قربانی قبول فرمائے. آمین…

(ماں کی بات سن کر احمد کے چہرے پہ ایک سکون کی کیفیت طاری ہوئی. اس نے ماں کے ہاتھوں کو بوسہ دیتے ہوئے کہا)احمد: پیاری امی! اب مجھے اجازت دیں، کل آپکے لیے ایک اعزازی تحفہ لے کر آؤں گا. اپنی دعاؤں میں یاد رکھئے گا… اللہ حافظآمنہ بیگم: ٹھیک ہے میرے نورِ نظر! کل نہایت محبت کے ساتھ تمہارا استقبال کیا جائے گا… (اس طرح وہ روشنی مدہم پڑنے لگتی ہے اور آخر ختم ہو جاتی ہے. آمنہ بیگم بھی جائے نماز پر دوبارہ بیٹھ جاتی ہے اور بارِ الہ میں ہاتھوں کو بلند کرلیتی ہے)(اگلی سحر یعنی باروز عید آمنہ بیگم بعد نمازِ فجر صحن میں بیٹھی تلاوت قرآن کررہی ہوتی ہے کہ ایک ایمبولینس فوج کی گاڑی کے ہمراہ محلے میں داخل ہوتی ہے اور آمنہ بیگم کے دروازے پر آٹہرتی ہے اس دوران محلے اور گھر کے دیگر افراد خیریت دریافت کرنے کے لیے جمع ہوجاتے ہیں.)(پاک فوج کی گاڑی میں سوار آفیسر سے معلوم ہوتا ہے کہ وباء سے متاثرہ مریضوں کی خدمت میں معمور ڈاکٹر احمد کو بھی وباء نے اپنا شکار بنالیا تھا لیکن اسکے باوجود بھی انھوں نے ہمت نہ ہاری اور ثابت قدم رہے.بیماری میں مبتلا ہونے کے بعد بھی مجاہد ڈاکٹر احمد اپنے فرائض سر انجام دیتے رہے اور گزشتہ روز سانس نہ آنے کی صورت میں انھیں ایمرجنسی وارڈ میں منتقل کیاگیا لیکن وباء پوری طرح انھیں اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی لہذا اس دوران ہی وہ اپنے خالق حقیقی سے جاملے اور جام شہادت نوش کرگئے.)۔

(احمد کے شہید ہونے کی خبر سن کر وہاں موجود ہر فرد کی آنکھوں سے آنسوں جاری ہوگئے لیکن شہید احمد کی ماں آمنہ بیگم کی آنکھیں سبز ہلالی پرچم میں لپٹے بیٹے کے تابوت کو اس محبت اور عقیدت کے ساتھ دیکھ رہی تھی کہ اپنے نورِ نظر کی شہادت پر اسے مبارک باد دے رہی ہوں اور اسے اخراج تحسین پیش کررہی ہوںاور جیسے کہہ رہی ہوں کہ “اے میرے پیارے احمد! تم نے آج اپنی بیوہ ماں کو تحفۂ شہادت دے کر اسکا سر فخر سے بلند کردیا، وہ اپنی ہر سانس کے ساتھ اپنے پروردگار کی شکر گزار رہی گی کیونکہ اسے ایک شہید کی ماں ہونے کا اعزاز حاصل ہوا…”

جواب چھوڑ دیں