غیر فطری نظام تعلیم

مس! کیا میں ایک سوال پوچھ سکتا ہوں؟ کلاس کے سب سے نکمے اور ہر ٹیڑھے کام میں شریک رہنے والے بچے نے ہاتھ اٹھا کر سوال پوچھا۔ مس نے ایک طنزیہ اور حیرت زدہ نگاہ اس پر ڈالی اور آنکھیں اچکاتے ہوئے بولیں؛ “اوہ! تو اب آپ بھی سوال پوچھیں گے؟” اس نے شرمندگی سے نظریں جھکا لیں۔ اب کی بار مس کی آواز بلند ہوئی “جی جی پوچھیں”۔

 اس نے دوبارہ نظریں اٹھائیں اور بولا “مس! ہم  پیسوں  کے اور کمانے  کے بارے میں کب پڑھیں گے؟” پوری کلاس میں سناٹا چھا گیا یہ اتنا “عجیب سا” سوال تھا کہ ٹیچر سے لے کر کلاس میں موجود ہر بچہ لمحے بھر کے لیے چپ ہو کر رہ گیا۔”اس بے تکے سوال کا کیا مطلب ہے؟” ٹیچر نے منہ بناتے ہوئے پوچھا۔

 مس اب ہم چوتھی جماعت میں آگئے ہیں، میں نے جس دن سے اسکول آنا شروع کیا ہے اس دن سے میرے گھر والے، امی، ابو وغیرہ سب بولتے ہیں کہ؛ “زیادہ سے زیادہ محنت کرو، زیادہ پڑھائی کرو گے تو زیادہ کمائی کروگے”۔ مس مجھے اسکول آتے ہوئے 7 سال ہوگئے ہیں، لیکن میں نے کبھی کسی کے بھی منہ سے “پیسے کمانے” کے بارے میں تو کچھ بھی نہیں سنا ہے۔

 “بیٹا! جب آپ اچھی طرح دل لگا کر پڑھو گے، دن رات محنت کرو گے، ہر کلاس میں پوزیشن لاؤ گے اور اچھے گریڈز کے ساتھ میٹرک، انٹر کر کے اعلی تعلیم کے لیے کسی بہترین یونیورسٹی سے شاندار سی ڈگری لے کر نکلو گے، تو آپ ایک بڑے آدمی بن جاؤ گے۔”

مس! ابھی تو آپ نے دوبارہ ساری وہی باتیں دہرا دی ہیں جو روز امی اور ابو میرے سامنے دہراتے ہیں”، اس کے لہجے میں شرارت تھی۔ مس نے جھلا کر جواب دیا؛ “اپنی عمر دیکھو! ابھی تمہارے پڑھنے کی عمر ہے اور تم ابھی سے اتنی بڑی بڑی باتیں کرتے ہو چلو پڑھائی میں دھیان لگاؤ شاباش”۔

 یہ ہے وہ رویہ اور یہی ہے وہ المیہ جس نے ہمارے بچوں کو لکیر کا فقیر بنا دیا ہے۔ آپ کمال دیکھئے، ہم بچوں کو اسکول اس لیے بھیجتے ہیں تاکہ وہ اچھے “کمانے والے” بن جائیں لیکن المیہ یہ ہے کہ اچھا کمانے کا کوئی فریم ورک سرے سے ہمارے تعلیمی اداروں کے پاس موجود ہی نہیں ہے، اور آپ یقین کریں مسئلہ صرف کمانے کا بھی نہیں ہے بلکہ زندگی کے کسی بھی پہلو اور معاملے میں ہمارے بچے اور ہماری نسل مقصد سے بے بہرہ اور لاعلم ہے۔

 ہمارا نظام تعلیم فطرت سے بالکل مختلف ہے۔ آپ نے کبھی غور کیا ہے، اس نظام تعلیم سے پہلے برصغیر میں بلکہ مجموعی طور پر پورے عالم اسلام میں بچوں کو “منطق اور فلسفہ” پڑھایا جاتا تھا۔  ہمارے اہل علم و دانش نے کبھی غور فرمانے کی بھی زحمت کی یہ دو مضامین بچوں کو کم عمری سے ہی کیوں پڑھائے جاتے تھے؟

کیونکہ یہ دونوں مضامین  بچوں میں مکالمے کی مشق پیدا کرتے ہیں۔ وہ ایک طرف اپنے استاد سے مختلف باتوں اور معاملات میں مکالمہ کرتے تھے، کبھی اتفاق اور کبھی اختلاف کرتے تھے، اس سے ان کی ذہنی صلاحیتوں اور علمی استعداد میں بے پناہ اضافہ ہوتا تھا۔ مگر پھر جب سے ہمارے اوپر یہ تعلیمی نظام آیا اس میں بچے کو کچھ بھی سوچنے کی، کوئی مختلف رائے رکھنے کی، مکالمہ کرنے کی اور ٹیچر سے اختلاف کرنے کی آزادی چھین لی گئی۔

 اسکاٹ  فٹز گیرالڈ نے کہا تھا کہ “دو مختلف خیالات کو ایک ہی وقت میں اپنے ذہن میں رکھنا اور موقع محل کی مناسبت سے ان میں سے درست والے کو استعمال کرلینا ہی اصل ذہانت ہے” لیکن ہمیں بتایا گیا کہ ہر کلاس اور ہر مضمون میں صرف ایک ہی درست اور صحیح جواب ہوتا ہے جو ٹیچر کو معلوم ہے اور وہ جو آپ کو بتائے گا آپ نے بھی صرف اور صرف وہی بولنا، لکھنا اور پڑھنا ہے۔

 حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارا موجودہ تعلیمی نظام جو ہم پر کم و بیش پونے دو سو سال سے مسلط ہے وہ ہمیں اور ہمارے بچوں کو زندگی کے بجائے غلامی کے لیے تیار کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ کبھی آپ کھلی آنکھوں سے دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ انسانی نفسیات ایسی ہیں کہ وہ غلطیوں سے سیکھتی ہے۔ غلطی کرنا غلط نہیں ہے، بلکہ غلطی سے نہ سیکھنا غلط ہے۔ آپ غور کرلیں آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ آپ جب بھی کسی کام کو بار بار کریں گے، اس میں غلطیاں کریں گے، اگلی دفعہ اس کو ٹھیک کرنے کی کوشش کریں گے، پھر غلطی کریں گے اور پھر ٹھیک کریں گے یہاں  تک کہ ایک دن آپ اس میں “طاق” ہوجائیں گے اور یہ سب غلطیاں کرنے کے نتیجے میں ہوگا غلطی نہ کرنے کے نتیجے میں نہیں، لیکن ہمارا نظام تعلیم “غلطی” کو کفر سے بڑا گناہ سمجھتا ہے، غلطی کرنے والے کو اسکول میں نکما، نالائق اور نہ جانے کن کن الفاظ کے ذریعے سے ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

ٹھیک اسی طرح اسکول کالج اور یونیورسٹی میں آپ کو ہر امتحان بالکل اکیلے اور تنہا دینا ہوتا ہے اور اگر اس سلسلے میں کوئی آپ کی مدد کرے تو آپ “چیٹر” کہلائیں گے اور اس کو “چیٹنگ” کروانے کے الزام میں دھر لیا جائے گا۔ جبکہ اصل زندگی میں آپ جب بھی کسی امتحان میں پڑتے ہیں، گھر والوں سے لے کر آپ کے سینکڑوں چاہنے والے آپ کی مدد کے لئے پہنچتے ہیں، لیکن ہمارا تعلیمی نظام بچوں کو “خودغرض” اور صرف “اپنے لیے” جینے والا بنانے پر تعمیر کیاگیا ہے ۔

دلچسپ بات تو یہ ہے کہ آپ کو اپنی زندگی میں درپیش امتحان میں اپنے پاس موجود ہر قسم کے وسائل کو استعمال کرنا ہوتا ہے اور آپ اس کے بعد مزید “نکھر اور سنور”جاتے ہیں اور پچھلے امتحان اور اس میں آپ کا سرخرو ہونا آپ کو بہترین طریقے سے یاد رہ جاتا ہے۔ جبکہ یہ “جعلی امتحانی نظام” آپ کو اپنے پاس موجود کسی بھی قسم کے وسائل کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور آپ اگلے امتحان میں آنے سے پہلے ہی پچھلے امتحان کا سب کچھ بھول چکے ہوتے ہیں۔

 کیونکہ ہم نے وہ امتحانات کچھ سیکھ کر نہیں بلکہ خالصتاً رٹے لگا لگا کر دیئے ہوتے ہیں اور اس اصلی زندگی میں “رٹے” لگا کر امتحان دینے کی نہ کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی ضرورت۔ اس بے تکے اور بغیر سر پیر والے تعلیمی نظام سے پاس آؤٹ ہوکر ہمیں لگتا ہے کہ ہم اپنی اور دوسروں کی زندگیوں میں کوئی آسانی اور امید کا ذریعہ بنیں گے تو ہم سب مل کر ایک “غیر حقیقی او رغیرفطری” دنیا کے لئے خود کو تیار کر رہے ہیں۔ رابرٹ کیوساکی سے کسی نے پوچھا کہ دنیا میں لوگوں کے غریب ہونے اور غریب رہنے کی سب سے بڑی وجہ کیا ہے؟ تو اس نے لگی لپٹی بغیر جواب دیا “اسکول جانا اور پھر اس اسکول پر بھروسہ کرنا”۔

حصہ
mm
جہانزیب راضی تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں،تعلیمی نظام کے نقائص پران کی گہری نظر ہے۔لکھنے کے فن سے خوب واقف ہیں۔مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں