وقت کو پر لگ گئے ہوں جیسے

رمضان کا ماہ مبارک گزر چکا ہے ، شائد یہ اسلامی تاریخ کا سب سے اہم رمضان رہا ہوگا جو اتنا افسردہ سا گزر گیا ۔ نا تو اس ماہ مبارک میں عمرہ کیا جاسکا جبکہ رمضان میں عمرہ ادا کرنے والوں کی تعداد لگ بھگ حج کرنے والوں کے قریب ہوتی تھی ، ہر مسلمان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ عمرہ رمضان میں ادا کرے ۔ انسان نے اپنے علم سے دنیا کو ایسی ترقی کی راہ پر گامزن کیا کہ دنیا کو گلوبل ویلیج کہا جانے لگا اور اس ترقی نے انسان کو وقت کی قید سے آزاد کردیا، انسان نے اس ترقی اور وقت کو قید کرنے کیلئے کی جانے والی کوششوں میں کتنا وقت لگایا ہے اس کا اندازہ حضرت انسان بھی اندازً ہی بتا سکتے ہیں ۔

گوکہ یہ قدرت کے عطاء کردہ علوم کے ہی مرہون منت ممکن ہوسکا لیکن انسان نے اسے اپنی ذاتی کوششوں کا نتیجہ قرار دیا ، اسی دوران لاتعداد ایسی اشیاء نے دنیا کی زندگی کو سہل بنانے کیلئے اپنی ضرورت کو لازمی قرار کروایا ۔ شائد وہ وقت قریب تھا کہ انسان اپنی ذاتی تخلیقات کی بنیادپر کوئی ایسا دعویٰ کرتا کہ قدرت سے آگے نکل جاتا ایسے میں ایک انتہائی معمولی سے جراثیم نے جسے انسانی آنکھ سے دیکھا بھی نہیں جاسکتا دنیا میں تہلکا مچادیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ساری دنیا کے علوم پر تحقیقا ت پر سوالیہ نشان لگادیا اور انسان کو وہاں لیجاکر کھڑا کردیا جہاں سے اسنے ترقی کی کوششیں شروع کی تھیں ۔ گزشتہ تین ماں کہ حالات کا جائزہ لیں اور دیکھیں دنیا کے ترقی یافتہ ، ترقی پذیر اور تیسری دنیا کے ممالک بھی کس طرح سے اپنے آپ کو محصور کئے بیٹھے ہیں۔

وقت اور حالات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ دنیا تعصبات سے بالاتر ہوکر ایک دوسرے کی ہر ممکن مدد کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے، دکھ اور درد ساری دنیا کا سانجھے ہوچکے ہیں۔ بھلا یہ کیسا وقت ہے کہ دنیا جہان کی مرکزی عبادت گاہوں سے لیکر چھوٹی بڑی تمام عبادت گاہیں بند کردی گئیں ۔ دنیا کی اکثریت نے معیشت کی پروا نہیں کی اور حتی الامکان کوشش کی ہے کہ انسانی زندگیو ں کو بچایا جاسکے ۔ در حقیقت انسان کسی بھی عمر میں موت کو گلے لگانے کیلئے تیار نہیں ہوتا موت آئی بھی کھڑی ہوتو وہ اپنی طرف سے اسے نظر انداز کرتے ہوئے کاموں میں مشغول رہتا ہے کیونکہ ہر انسان کا یہ سمجھنا ہے کہ وہ دنیا میں سب سے اہم انسان ہے، کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ میں سب سے اہم تھا یہی سب سے بڑا وہم تھا ۔

آج وقت کو جیسے پر لگے ہوئے ہیں اور پر وقت کو بہت تیز ہوا کے دوش پر آڑائے لئے جا رہی ہے ۔ حالات کی سنگینی یا ستم ظریفی نے معلوم نہیں کتنے ہی سفید پوشوں کی یا تو سفید پوشی چھین لی یا پھر سانسیں چھین لیں اور معلوم نہیں کیا کچھ چھین لیا ہوگا ۔ کیاہم لوگوں نے ان حالات سے کوئی سبق حاصل کیا ہے یا پھر ہمیشہ کی طرح حادثے کے حالات کے بعد زندگی کے معمول پر آتے ہی ہم اپنی اسی دنیا وی طرز زندگی پر رواں دواں ہوجاتے ہیں ۔ لیکن موجودہ حالات کی مثال شائد تاریخ میں نہیں ملتی، یہ قیامت کے حوالوں کی طرف لے جا رہے ہیں ۔ ہ میں نہیں معلوم کہ ابھی کچھ روز قبل گزرے ہوئے ماہ رمضان میں کس کس نے اللہ کی رضا طلب کی یا پھر لوگ اس آس یا اس تگ و دو میں مصروف رہے کہ کس طرح سے روپیہ پیسہ کمانے کے ذرائع میسر آئیں ۔

ہمیں یہ بھی نہیں معلوم یہ ذرائع میسر آجانے کیبعد کتنے لوگوں نے اس بات کا خیال رکھا کہ شائد اب یہ مہلت کتنے دن کیلئے کہ کوئی بے ایمانی نا کریں کسی کو تکلیف نا پہنچائیں ،صلہ رحمی سے کام لیں ، ایک دوسرے کی بھوک کا خیال رکھیں ، ناپ تول کا حساب درست کیا ہے اور سب سے بڑھ کر اس بات پر یقین کر لیا ہے کہ دنیا جی لگانے کی جگہ نہیں ہے ،کیا جھوٹ بولنے والوں نے جھوٹ بولنا چھوڑ دیا ہے کیا مکر و فریب کرنے والوں نے جو تو بہ کی وہ وقتی تھی ، کیا ہم لوگوں نے اپنے رب کیساتھ بھی دھوکا دیہی سے کام لیا ہے ، معلوم نہیں کتنے لوگوں نے یہ یاد رکھا ہے کہ انہوں نے حالات کی سنگینی میں اپنے رب سے کس طرح سے معافی تلافی کی تھی اور اب پھر سے دنیا کے دھندوں میں مصروف ہوچکے ہیں ۔ ہ میں یاد رکھنا پڑے گا کہ وقت کی رتھ ہوا ہے اور جو سب سے سوا ہے ۔

حالات و واقعات سے بیخبر لوگوں کی سنگ دلی اور دائمی لاعلمی کو دیکھ کر اب لکھنے کا دل نہیں چاہتا یہی وجہ ہے کہ گزشتہ پندرہ بیس دن سے بارہا لکھنے بیٹھا لیکن نہیں لکھ پایا اور یہ سوچ کر پھر لکھنے بیٹھ گیا ہوں کہ ہمارا کام تو ذہنوں پر پڑ جانے والی گرد کو جھاڑتے رہنا ہے ، اگر ہم یہ کام چھوڑ دینگے تو پھر یہ گرد اتنی بڑھ جائے گی کہ پھر صٖفائی کرنے والا صفائی نہیں کر پائے گا ۔ ہماری دعا ہے کہ ہم اپنی حقیقت کو پہچان لیں اور اپنی نئی زندگیاں شروع کریں وہ زندگیاں کہ جن کیلئے ہمیں اس دار فانی میں بھیجا گیا ہے ، ہ میں بارہا اپنے آپ کو یاد کراتے رہنا چاہئے کہ ہم وہ امت ہیں کہ جس کیلئے ہمارے نبی ؐ نے اپنے رب سے رحم و کرم رو رو کر طلب کیا ہے اور ہماری شفاعت کی ذمہ داری اٹھائی ہے لیکن کیا ہم امتی ہونے کا ذرہ برابر بھی حق ادا کر رہے ہیں ۔

موجودہ حالات اللہ رب العزت کی جانب سے ہمارے لئے یہ سب یاد کرانے کیلئے پیدا کئے گئے ہیں کیونکہ اللہ تعالی بھی ہم سے ستر ماءوں سے زیادہ محبت کرتے ہیں لیکن کیا ہم نے اس وقت میں وہ سب کچھ سمجھنے کی کوشش کی کیا ہم نے نماز قران سے دائمی رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی یا پھر حالات کی بہتری کیساتھ ہی واپس اپنی پرانی روش کی طرف لوٹ گئے ہیں ۔ وقت بہت تیزی سے قریب آتا جا رہا ہے اور ایسا نا ہوکہ ہم سامنے والے کو جاتا دیکھ رہے ہوں اور ساتھ ہی ہمارا وقت بھی آجائے ، اس وقت کہ پہنچنے سے پیشتر پلٹ جائیں تو بہتر ہوگا کیونکہ وقت باربار موقع نہیں دیتا ۔

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔

جواب چھوڑ دیں