متحدہ عرب امارات میں موجود بے یارومددگار پاکستانی

یہ ذکر ہے متحدہ عرب امارات کا جہاں اس وقت 12 لاکھ سے زائد پاکستانی بسلسلہ روزگار موجود ہیں، یہ پاکستانی ہر سال  ہر سال ترسیلات زر کی شکل میں قیمتی زرمبادلہ مہیا کرتے ہیں اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے مالی سال 2019-20 کے لیےصرف پانچ ماہ میں 9 ارب 29 کروڑ 85 لاکھ ڈالر کی ترسیلات بھیجیں گئیں، ان میں متحدہ عرب امارات سے کُل 4 ارب 61 کروڑ 90 لاکھ ڈالر ملک میں بھیجے گئے۔

یہ کتنی بڑی رقم ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ آئی ایم ایف سے 12 ارب ڈالر کے حصول کے لیے حکومت کو ایک لاڈلے  وزیر خزانہ کی قربانی اورعوام دشمن شرائط پراظہار آمادگی ظاہر کرنا پڑی تب جاکے چمن میں دیدہ ور پیدا ہوا۔ لیکن اب ریاست پاکستان ان پاکستانیوں کے ساتھ کیا سلوک کررہی ہے  اس بات کا اندازہ  ان تبصروں سے کیا جاسکتا ہے جو مشکلات میں گھر ے پاکستانی سفارتخانے کے سوشل میڈیا پر موجودصفحے پر  ہر اس پوسٹ کے بعد کرتے ہیں جس میں بتایا جاتا ہے کہ پاکستان قونصلیٹ نے پی آئی اے کی خصوصی پروازوں کے ذ ریعے ابھی تک اتنے ہزار پاکستانیوں کو وطن واپس بھیجا۔

مندرجہ بالا معلومات  جیسے ہی  دبئی میں موجود پاکستانی سفارتخانہ کی طرف سے  سوشل میڈیا پر مہیا کی جاتی ہیں تو بلاوے کے منتظر ہزاروں پاکستانی  تبصرہ کے کالم میں اپنا حال دل کچھ یوں بیان کرتے ہیں”سب جھوٹ ہے ماما چاچا کو واسطوں پہ ٹکٹ مل رہے ہےہیں، کونسلر جنرل صاحب آپ لوگوں کی بہت جھوٹی باتیں ہم لوگوں نے سن لیں اورسیز پاکستانیوں کو اور گمراہ نہ  کیا جائے جس جس نے اپلائی کی ہے ان کی لسٹ قو نسلیٹ کے دیوار پر لگائی جائےاس امید پر ایسے تبصرے کرتے ہیں کہ “شائد تیرے دل میں اتر جائے میری بات “

پاکستانی سفارتخانہ کے مطابق 60000 پاکستانیوں نے گھر کو لوٹنے کے لیے  سفارتخانہ میں مروجہ طریقہ کار کے مطابق نام درج کیا ہے، اب تک پی آئی اے کی 26 خصوصی پروازوں کے زریعے 5,883 پاکستانیوں کو وطن واپس بھیجا گیا۔لیکن بعض ذرائع کا  دعوی ہے کہ گھر  کو لوٹنے والے پاکستانیوں  کی تعداد 93000 تک ہے۔ ( میں نے پاکستانی سفارتخانہ سے مسلسل رابطہ کرنے کی کوشش کی تاکہ تازہ ترین معلومات مل سکیں ، مگر کامیابی نہ ہوئی )۔غور طلب امر یہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں پاکستانیوں کی جس رفتا رسے واپسی  جاری ہے اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ سلسلہ کتنا طویل ہوگا، اور دیار غیر میں  اتنے عرصہ تک کون ان بے روزگاروں کو اشیا ضروریہ مہیا کرے گا، ۔(یہاں پر عرض کرتا چلوں ایک فرد کا  کم ازکم ماہانہ خرچہ سات سو درہم تک ہے) ۔

یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ریاست نے اپنےکماو پوت کو ایک ایسے وقت میں بے یارومدد گار چھوڑ دیا ہے جب ان کو مدد کی ضرورت ہے۔یہاں پر متحدہ عرب امارات کی حکومت کی تعریف نہ کرنازیادتی ہوگی جس نے عوام کو  ، ویزے کی معیاد ختم ہونے  پر ہر قسم کے جرمانوں سے چھوٹ دی ہے، اور بعض ذرائع تو یہ تک دعویٰ کرتے ہیں کہ فضائی آپریشن  بھی متحدہ عرب امارات کی طرف سے دباو ڈالنے پر شروع کیا گیا۔

ضرورت اس امر کی ہے اس سے پہلے کہ لاوا پھٹ جائے پی ٹی آئی سرکار اس معاملے کو سنجیدگی سے لے، فلائٹس کی تعداد کو بڑھایاجائے، اقربا پروری کاخاتمہ ہو، سفارتخانہ کی طرف سے لسٹوں کو آویزاں کیاجائے، سفارتخانہ کے معلوماتی نمبرز کو فعال کیاجائے ، سفارتخانہ کا عملہ کو  آنے والے افراد کے ساتھ احسن سلوک کرنے کاپابند کیاجائے ، ملک میں پہنچ جانے والے، بے یارومدگار افراد کی ملک میں موجود مفلوک الحال افراد کی طرح مالی مدد کا بندو بست ہو۔

 بہتر ہوگا  اگر  خان صاحب  کسی ممبر قومی اسمبلی کو اس معاملے کا ذمہ دار مقرر کردیں اور اگر ایسا ممکن نہ ہوتو زیر اعظم  اپنے 15 غیرمنتخب معاون خصوصی میں سے کسی کواس مشن کا نگران مقرر کر دیں  ۔کیونکہ حکومت کو آج نہیں تو کل یہ مسئلہ بہرحال حل کرنا ہی ہے  ، لیکن اگر بروقت حل ہوجائے تو یہ حکومت اور متاثرین دونوں کے لیے اچھا ہوگا۔

حصہ
mm
بلاگر پنجاب کالج سے کامرس گریجویٹ ہونے کے ساتھ ، کمپیوٹر سائنسز ،ای ایچ ایس سرٹیفیکٹس  اور سیفٹی آفیسر  ڈپلومہ ہولڈر ہیں۔فی الوقت ایک ملٹی اسکلڈ پروفیشنل ہیں۔علاہ ازیں بائی نیچر صحافی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں