یوم تکبیر اور محسن پاکستان

کون جانتا تھا کہ  ریاست بھوپال ( بھارت ) سے  بے سروسامانی کی حالت  میں ہجرت کر کے آنے والا سولہ سالہ نوجوان آئندہ آنے والے وقتوں میں پاکستانی قوم کا قیمتی سرمایہ ثابت ہوگا۔جوہری اصل ہیرے کو پہچان لیتا ہے لیکن یہاں ہیرے نے جوہری کو پہچان لیا اور کچے دھاگے سے بندھے ہوا اس کے پاس چلا آیا۔۔اپنا گھر بار چھوڑا گلیاں چھوڑیں وہ فضائیں چھوڑیں جہاں بچپن گزارا تھا تھا کیسی کیسی یادیں اس کو ستاتی ہونگی ۔ہجرت کوئی آسان کام ہے ؟ بڑے دل گردے کا کام ہے،..لوگ آساں سمجھتے ہیں مسلماں ہونا…!!

اور پھر بے سروسامانی کی حالت میں پاکستان چلا آیا صرف ایک صندوق سر پر رکھے جہاں آگے کا مستقبل کالے بادلوں کے مرغولے کی طرح تھا کہ پار کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا مگر خدا پر بھروسہ اور وطن خداداد سے محبّت پر آبائی وطن نچھاور کر دیا۔ اور اس نے ایک بار نہیں کئی بار وطن سے محبت کا ثبوت دیا ہے 74ء میں جب بھارت نے ایٹمی دھماکا کیا یہ ہالینڈ میں اپنا اسٹیٹس؛ بینک بیلنس؛ اپنی لاکھوں کی ملازمت اور نیشنلٹی جیسے قیمتی لوازمات کہ جس کو حاصل کرنے کے لیے ہر پڑھا لکھا پاکستانی نوجوان خواب دیکھا کرتا ہے یہ وہ سب کچھ قربان کرکے وطن لوٹ آئے۔اس لئے حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر نے ایک بار نہیں اس وطن کے لیے دوبارہ ہجرت کی ہے ۔وطن حاصل کرنا آسان مگر اس کی حفاظت کرنا مشکل ہے؛ افواج پاکستان کے شانہ بشانہ ڈاکٹر عبدالقدیرنے بھی پاکستان کی حفاظت کی ہے…؎

                   فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی     یا بندہ صحرائی یا مرد کوہستانی

یہ مرد کوہستانی۔۔۔ بلاشبہ ہماری آنکھوں کا تارا ہمارے دل کا قرار اور ہمارے ماتھے کا جھومر ہے۔سیاستدانوں نے آپس میں لاکھ اختلافات کیے ہوں گے مگر ڈاکٹر صاحب کے لیے ہمیشہ راہیں آسان کیں ان کو مواقع دیے ان کو سہولیات دیں تحفظ دیا ۔بھٹو کے نعرے” ہم گھاس کھا لیں گے مگر ایٹم بنائیں گے” کے خواب کو پورا کیا ۔ کیا جنرل ؛کیا بے نظیر؛ کیا نواز شریف سب نے ذاتی سیاسی اختلافات کو پس پشت رکھا۔یہ پاکستان کی سیاسی مذہبی جماعتوں؛ دانشوروں اور عوام کا دباؤ تھا جس کی وجہ سے سیاستدانوں کی ذاتی رنجشیں ڈاکٹر صاحب کے راستے کو کھوٹا نہ کر سکیں۔ڈاکٹر صاحب نے بھی بارہ بارہ گھنٹے اپنی ٹیم کے ساتھ کام کیا اور وہ وقت آگیا جو اس قوم کا سر فخر سے بلند کر سکتا تھا۔۔28 مئی سے پہلے کی رات نہ جانے ڈاکٹر صاحب نے کتنے طویل سجدے اپنے رب کے حضور کیے ہوں گے ہاتھ پھیلا کر ایٹم بم کے کامیاب تجربے کے لیے دعائیں کی ہونگی قوم کے سامنے شرمسار ہونے سے بچا لینے کی دعائیں کی ہونگی…

پھر 28 مئ کے ایک طویل دن میں بلوچستان کی سرزمین چاغی میں کیمرے لگے ہوں گے میڈیا کی ٹیمیں آئی ہونگی حکومتی نمائندے پہنچے ہوں گے سائنسدان تیار بیٹھے ہوں گے ڈاکٹر صاحب اور ان کی ٹیم کا دل کس انداز سےدھڑکتا ہوگا۔۔پھر بٹن دبایا گیا زمین لرزنے لگی چاغی کا بلند اور مضبوط پہاڑ زرد پڑ گیا بلوچستان کی سرزمین اللہ اکبر کے نعروں سے گونجنے لگی۔۔۔وہاں پر موجود لوگوں کی آنکھوں میں آنسو اور ان کے سجدے میں پڑے ہوئے سر اس بات کا ثبوت تھے کہ ہم جتنے بھی طاقتور ہوجائیں سپرپاور صرف خدا ہے۔۔ چاغی اب جغرافیہ کے مشکل ترین لفظ کے تصور سے نکل کر پورے پاکستان کا محبوب ترین لفظ بن گیا تھا۔اب بھارت پاکستان کے لیے برا سوچنے اور برا کرنے سے پہلے ہزار بار سوچے گا….. ؎

                        وہ اور ہی ہوں گے کم ہمت جو ظلم و تشدد سہ نہ سکے

                       شمشیر و سناں کے دھاروں پر رودادِ صداقت کہہ نہ سکے

                       یہ چشم فلک نے دیکھا ہے طاقت میں جو ہم سے بڑھ کر تھے

                       توحید کا طوفاں جب بھی اٹھا وہ مدمقابل رہ نہ سکے

                       اس جذبہ حصول مقصد نے یو ں حرص و ہوس سے پاک کیا

                       ہم کفر کے ہاتھوں بک نہ سکے اور وقت کی رو میں بہہ نہ سکے

ڈاکٹر صاحب کے ساتھ انہیں نظربند کرنے اور دیگر پابندیاں لگانے جیسے ناروا سلوک سے نہ ہی ان کی شخصیت کا قد ذرا برابر کم ہوا ہے اور نہ ہی پاکستانی قوم کے دلوں سے ان کی محبت کم ہوئی ہے وہ محسن پاکستان ہیں اور وہ ہمیشہ ہمارے ہیرو رہیں گے۔پاکستان کا وہ فرد واحد جس نے زندگی میں ہی اتنی محبتیں سمیٹ لی ہیں کہ لوگ مرنے کے بعد بھی وصول نہیں کر پاتے۔ان کی پگ کا شملہ اونچا اور پاکستان کا جھنڈا بلند رہے گا ۔… پاکستان زندہ باد…

2 تبصرے

جواب چھوڑ دیں