ہشت صفات شخصیت ناصرنا کاگاوا

جی ،ہشت صفات شخصیت ناصرناکاگاوا، المعروف’’ چھوٹے بھائی‘‘جوفیصل آباد کے رہنے والے ہیں۔ دوسرے پاکستانیوں کی طرح یہ بھی جاپان روزی کمانے گئے۔ خوب روزی کمائی اور پھر وہیں کے ہوگئے۔ جاپانی خاتون سے شادی کی۔جاپانی خاندان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے، اپنی بیوی کے خاندانی نام’’ ناکاگاوا‘‘ اپنے نام کے ساتھ لگا یا۔ اللہ نے فرمانبردار اولاد سے نوازا۔ ایک بیٹا جوان ہو کر گورنر ہائوس بطور سول سرونٹ ملازمت کر رہا ہے۔تیس برس سے وہیں رہ رہے ہیں۔ ایک چھوٹا سا گھر بھی بنا لیا ہے۔ کسی کمپنی میں ملازمت کے ساتھ ساتھ دستاویزات کا ترجمہ اور عدالتوں میں مترجم کا کام بھی کرتے ہیں۔

جاپانی امیگریشن سے متعلق کسی بھی قسم کی معلومات اور مشورے کی بغیر فیس کے خدمت کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک صحافی، ادیب، مصنف، مزاح نگار، سیاح،فوٹوگرافر، سفر نامہ نگار،افسانہ نگار، ترجمہ نگار اور سب سے خاص بات کہ دنیا کے ساٹھ سے زائد ممالک میں پڑھا جانے والا، جاپان کا نمبر ون آن لائین اُردو اخبار’’اُردو نیٹ جاپان‘‘ ویب سائٹ کے بانی اور چیف ایڈیٹرہیں۔ راقم سے اِسی اُرود اخبار کا مضمون نگار ہونے کے ناتے تعارف ہوا۔ راقم کو اپنی نئی کتاب ’’دیارِ دوستاں‘‘ تحفہ میں عنایت کی۔ حسب عادت آج کا مضمون اسی کتاب پر تبصرہ اور ناصر ناکا گاوا صاحب کی ہشت صفات شخصیت پرکچھ عرض کرنا مقصود ہے۔

اپنے وطن پاکستان اور اس کی قومی زبان اُردو سے پیار کرتے ہے۔ وطن میں رشتہ داروں کے ساتھ ساتھ وطن کے مشہو رو معروف شخصیات ،جیسے عبدالقدیر خان صاحب، جنہوں نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنایا سے رابطہ رکھتے ہیں۔ ساری دنیا میں علمی و ادبی دوستوں کا جال پھیلا رکھا ہے۔ ہم جیسے غیر معروف لوگوں سے بھی  ٹیلیفونک رابطہ رکھتے۔ وطن آنے پرشرف ملاقات کا بھی وعدہ کیاہے۔ ناصر ناکا گاوا نے اپنی کتاب ’’ دیارِ دوستان‘‘  میں جاپان اور پاکستان کی بہت سی مشترکہ روایات کا فخر سے ذکر کیا ہے۔ ان کی بہن سیدہ زہرہ عمران صاحبہ اپنے ’’ چھوٹے بھائی ‘‘ناصر ناکا گاوا کے لیے فرماتی ہیں کہ کتاب’’ دیارِ دوستاں‘‘میں ادب کی کئی اصناف پرطبع آزمائی کی گئی ہے۔ ہم نے بھی کتاب ’’دیارِ دوستاں‘‘ کے مطالعہ کے بعد ناصر ناکا گاوا کو ہشت صفات شخصیت کا نام دیا ہے۔

اس کتاب کے فکری مضامین ’’ندامت ‘‘اور’’ غلط فہمی‘‘ کو پڑھ کر قاری کی سوچ و فکر میں نئی راہیں کھلتی ہیں مثال کے طور’’ غلط فہمی‘‘ مضمون میں ایک پاکستانی حمید اللہ برنی کا اس طرح ذکر کرتے ہیں کہ وہ جاپان میں روزی کمانے کے لیے غیر قانونی طریقہ سے طرح آیا۔پھر اُسے مستقل ویزہ کے لیے کسی ادھیڑ عمرجاپان خاتون سے شادی کرنی پڑی۔ اللہ نے ایک پیاری سی بیٹی دی۔ بیٹی پیدا ہونے سے اسے اُمید ہو چلی کہ اب اسے جاپان کا مستقل ویزہ مل جائے گا۔ بیٹی کوجاپانی ماحول سے بچانے کی پریشانی کرنے لگا۔جہاں روزی کما رہا ہے وہاں ہی کے جاپانی ماحول اور جاپانیوں سے نفرت کرنے لگا۔وہ بیٹی کو مستقل طور پر اپنے ملک بھیجنا چاہتا تھا۔مگر اس کی جاپانی بیوی اپنی بچی کو اپنے سے جدا کرنے پر تیار نہیں تھی۔

اس وجہ سے بیوی کے ساتھ ان بن ہوئی۔ نوبت کئی بار جھگڑے تک پہنچی، جبکہ اسی بیوی کی وجہ سے بار بار ویزہ میں توسیع ملتی رہی اورجاپان میں بچی پیدا ہونے کی وجہ سے اسے مستقل ویزہ ملنے کی بھی سبیل ہوئی۔ ویزہ ملنے میں چند باقی تھے کہ کسی کام سے بنک گیا۔ صوفے پر بیٹھا اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا کہ ایک نوجوان لڑکا اِسے گھورنے کے بعد قہقہے لگا کر ہسنے لگا۔ حمید اللہ برنی نے غصے میں لڑکے کے چہرے پر مکوں کی بارش کر دی ۔ لڑکا نیچے گر کر بے حوش ہو گیا۔ اس دوران ایک عورت باگتی ہوئی آئی اور نوجوان سے لپٹ کر رونے لگی۔ وہ حمید اللہ برنی کی بیوی تھی اوروہ ذہنی مریض لڑکا اُس کے سابق شوہر سے تھا۔ حمید اللہ برنی کو علم اس کا نہیں تھا۔ حمید اللہ برنی کو پولیس ذہنی مریض پر تشدد کرنے کے جرم میں گرفتارکر لیا گیا۔مصنف نے اس کہانی میں باہر سے رزق کمانے کے لیے آنے والوں اور مقامی عورتوں سے شادی کر کے مفاد حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ مناسب رویوں کی فکر کرنے کا سبق سکھانے کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی ہے۔

دوسری طرف ارض طلوعِ خورشید ــ’’جاپان‘‘ کی تہذیب اور پاکستانی تہذیب کا میلان اور مقامی تہذب سے مناسب رویہ ا ن کے ایک مضمون ’’عادل یوتا‘‘ میں نظر آتا ہے۔ جس میںاپنے دونوں بچوں کی فرمانبرداری اور جاپان پاکستان دونوں ملکوں کی تہذیب کے تقابلی جائزے پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ اپنے دونوں بیٹوں کا نام ’’عادل یوتا ‘‘اور چھوٹے کا نام’’ شاہ رخ یوسوکے‘‘ رکھا۔ یعنی پاکستانی اورجاپانی زبان کا ملاپ ۔ اس سے ہم ناصر ناکا گا وا کو دو تہذیبوں کے ملاپ کا پاکستانی سفیر کہنے میں حق بجانب ہیں۔ عام طور پرجاپان قوم نرم مزاج اور اصلاح پسند ہے۔ شاید اسی وجہ سے مجدد مولاناسید ابولاعلیٰ مودودیؒ نے کسی جگہ لکھا ہے کہ اسلام پھیلانے کے لیے جاپان کی زمین بڑی زر خیز ہے۔

ناصر ناکا گاوا اپنی کتاب ’’ دیار ِدوستاں‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ادھیڑ عمر میں کئی ممالک کو ادھیڑ چکا ہوں۔ اس میں شک نہیں کہ شوق کا کوئی مول نہیں ہوتا۔ ناصر ناکا گاوا ،نہ سرمایا دار ہیں نہ کوئی بڑے تجارت پیشہ ہیں۔ ایک عام سے ملازم پیشہ فرد ہیں۔ مگر اپنے شوق کی تسکین کے لیے ساری دنیا کی سیر میں کثیر سرمایا خرچ کرتے ہیں۔ کئی کتابیں اور سفر نامی تحریر کیے۔ مشہور و معروف جگہوں کے فوٹوگرافی کرتے ہیں۔ ان کی کتاب ان فوٹوں سے بھری پڑی ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے ایک بندہ بیٹھے بیٹھے پوری دنیا کی سیر کر لیتا ہے۔ ناصر ناکا گاوا نے دنیا کی مشرقی سرحد جاپان میں رہتے ہوئے تقریباً ساری دنیا کے سفر کئے۔ ایک سفر،جاپان سے چلی کا تھا۔ جس میں اکتالیس گھنٹے لگے ہیں۔ناصر ناکا گاوا نے بامقصد سفر نامے لکھے۔ یہ سفر نامے پاکستانیوں کے ذکر سے بھرے پڑے ہیں ۔

براعظم امریکا میں چلی کے سفر کو ’’چلو چلو چلی چلو‘‘ کا نام دیا۔ اس میں لفظ ’’چ‘‘ کا چار دفعہ استعمال کر کے ادب کی چاشنی پیدا کی۔ ہمیں بھی ایک ایسا ہی فقرہ یاد آیا۔ہم نے بھی ملازمت کے سلسلے میں پورے پاکستان کی سیر کی ہے۔ ملتان میں قیام کے دوران ایک ادبی ذوق رکھنے والے دوست نے سرائیکی کی ایک کہاوت بیان کی۔ مجھے اس وقت کچھ اس طرح یا دآتی ہے۔’’ ڈاڈا مکو ںڈو آنے ڈے۔ ڈاڈی کو ڈو آنے کی ریوڑھیاں ڈینی ہیں‘‘ اس میں لفظ’’ ڈو ‘‘چھ بار استعمال کیا گیا ہے۔ خیر چلی میں ان کی کتاب ’’دنیا میری نظرمیں‘‘ کی تقریب رونمائی منعقد ہوئی۔جہاں عامر بن علی غائبانہ میز بانی اور ندیم بٹ کی جانب سے ’’لاہوری‘‘ ضیاف کا ذکر ہے۔ یوگنڈا کے سفرمیں دریائے نیل کی سیر اور سید رفاقت شاہ اور چوہدری الیاس سے ملاقات کی روداد ہے ۔

پاکستان ایسوسی ایشن یوگنڈا نے ان کی کتاب کی تقریب رونمائی منعقد کی۔ دوحہ گئے وہاں بھی ان کی کتاب کی تقریب رونمائی ہوئی۔ عبدالاحد بٹ اور چوہدری اقبال کاذکر خیر کیا، سلطنت عمان گئے وہاں پاکستان کے سفیر سے ملاقات کی ،ان کی کتاب ’’ دیس دیس کا سفر‘‘ کی تقریب رونمائی ہوئی۔ پاکستانیوں کی ادبی سرگرمیوں اور شادیوں میں شرکت کے ساتھ یہاں بھی پاکستان کے شہری چوہدری عباس اور چوہدری الیاس کو یاد کیا گیا۔مشرق کا مغرب زدہ ملک بحرین ملک کی سیاحت کر ذکر کرتے ہوئے باب البحرین کی سیر، پاکستان کلب کی سرگرمیاں، سفیر پاکستان سے ملاقات اور چوہدری شوکت کے دولت خانے پر شاندار ضیافت کی کہانی بیان کی۔دوبئی کی تیز رفتار ترقی اور شارجہ میں اسلامی ثقافت کا رنگ جیسی معلومات سے قاری کو روشناس کیا۔ کتاب ’’ دریارِ دوستاں‘‘ معلومات کے خزانوںسے بھری پڑی ہے۔ جب کبھی بھی جاپان سے سیاحت کے لیے نکلتے تو دوستوں کو تحفہ میں دینے کے لیے اپنی کتابوں کا ایک تھیلا بھر کر ساتھ لے جاتے۔

ناصر ناکا گاوا صاحب ہشت صفات شخصیت ہیں۔ ان کی آن لین اُردو اخبار’’ اُردو نیٹ جاپان‘‘ ساٹھ سے زائد ملکوں میں پڑھی جاتی ہے۔ اس میں ساری دنیا کے ادبیوںاور کالم نگاروں کی تحریریں شایع ہوتی ہیں۔ان کی خوبی ہے کہ ان سارے لوگوں سے رابطہ رکھتے ہیں۔ان کو اپنے کتابیں تحفہ میں پیش کرتے ہیں۔ ان حلقہ بہت احباب وسیع ہے۔ یہ دیار غیر میں پاکستانی تہذیب و ثقافت کے نمائندے ہیں۔ ا ایک چھوٹا کا گھر بھی بنا لیا ہین کی کوششیں قابل تعریف ہیں۔

جواب چھوڑ دیں