رمضان المبارک کا سنہری دور

رمضان المبارک کا مہینہ کتنا پیارا مہینہ ہے، پوری دنیا کے مسلمان اس مہینے کا انتظار کرتے ہیں، اس کا آغاز رمضان کا چاند دیکھنے کے روح پرور منظر سے ہوتا ہے، جب چاند دیکھتے ہی ہر جانب مبارک اور اس کی برکت حاصل کرنے کی خواہش اور اس سے فیضیاب ہونے کی دعائیں شروع ہو جاتی ہیں، چاند دیکھ کر دعا مانگنا رسول ِ کریم ؐ نے سکھایا ہے:   اللھم اھلہ علینا بالیمن والایمان، والسلامۃ والاسلام، ربّی وربّک اللہ۔

(اے اللہ اس (چاند) کو ہم پر برکت اور ایمان اور سلامتی اور اسلام کے ساتھ طلوع کرنا۔ (اے چاند) میرا رب بھی اللہ ہے اور تیرا بھی)

رمضان المبارک کا چاند دیکھتے ہیں آپ اپنے اندر نشاط اور خوشی کی کیفیت محسوس کرنے لگتے ہیں، آپ کی باتیں، عمل، سوچ، اور عبادت کا رنگ ہی مختلف ہو جاتا ہے، جیسے کچھ بھی مارے باندھے نہ ہو رہا ہو، بلکہ دل کی خوشی اور اطمینان اندر تک طاری ہو جائے، اور روح ہلکی پھلکی ہو جائے،آپ اپنے اوقات میں ایک دم فراخی محسوس کرتے ہیں، اوراس میں کوئی شک نہیں کہ رمضان المبارک میں اللہ کے ذکر اور قرآن کی تلاوت اور فرض اور نفل نمازوں کی لذت دو چند ہو جاتی ہے، اور دیگر کام بھی چابکدستی سے ادا ہونے لگتے ہیں۔اور ہم سے بڑھ کر اس ماہ کی قیمتی گھڑیوں کو کون جان سکتا ہے، کہ ہم نے ماہ ِ سعادت کو محض ٹیلیوژن، سوشل میڈیا پر برباد نہیں کرنا، نہ کھانے پینے اور پہننے کو ہی مقصود بنا لینا ہے، اور رات کی گھڑیوں کو محض رت جگے میں ضائع کرنا ہے۔

رمضان المبارک میں ایک خوبی زیادہ نکھر کر آجاتی ہے، بندے کا دل اخلاص کی جانب مائل ہو جاتا ہے، اور ہر نیکی کو دل ی گہرائیوں سے ادا کرنا چاہتا ہے، وہ اللہ تعالی سے خالص تعلق استوار کرتا ہے؛ اس کے سامنے سپر ڈال دیتا ہے، اس کی زبان ذکر الہی کی جانب مائل ہوتی ہے تو دل مسرت سے بھر جاتا ہے، زبان پر استغفار جاری ہوتا ہے تو اس کے سابقہ قصور اس کی آنکھیں نم کر دیتے ہیں، وہ استغفار کے بعد اس صاف ستھرے کپڑے کی مانند ہو جاتا ہے، جس کی میل کچیل دھل کر صاف ہو گئی ہو، توبہ اسے پاک صاف کر دیتی ہے، اور وہ اپنے پیارے مہمان ’’رمضان المبارک‘‘ کا کھلے دل سے استقبال کو تیار ہو ہو جاتا ہے، وہ اپنے عزم ِ صادق کو عمل کے سانچے میں ڈھالتا ہے اور رمضان المبارک کو پورے اکرام اور احترام کے ساتھ قبول کرتا ہے۔

رمضان المبارک کے صبح و شام برکت ہی برکت ہے، رمضان کا آغاز چاند کے نکلنے سے ہوتا ہے، اور اس کی تیاری کا آغاز عشاء اور تراویح کی نماز سے ہوتا ہے، اسی قیام کے لئے رسول ِ کریم ؐنے بشارت دی ہے:’’من قام رمضان ایماناً واحتساباً غفر لہ ما تقدّم من ذنبہ‘‘(مسلم)

(جس نے رمضان میں ایمان اور احتساب کے ساتھ قیام کیا، اس کے گذشتہ گناہ معاف کر دیے گئے۔)

پھر پورا رمضان اسی عبادت کونیت کے طور پر قائم کیا جاتا ہے، اور عبادت کے طور پر ہی رمضان کی سحری میں کھایا پیا جاتا ہے، اسی کی ترغیب بھی رسول کریمؐ نے دی: ’’تسحّروا، فانّ فی السحور برکۃ‘‘ (رواہ البخاری)(سحری کیا کرو، کیونکہ سحری میں برکت ہے۔)

اور پہلے روزے کی صبح ہی بندہ اپنے دل کی توبہ اللہ کے حضور پیش کرتا ہے، اور حسنِ عمل کے ساتھ روزہ شروع کرتا ہے، اس کا دل چاہتا ہے کہ اس کا روزہ بہت اچھا گزرے، وہ مفسدات سے پاک ہو، اور محض کھانا پینا اور خواہشاتِ نفس کو ہی نہ چھوڑے بلکہ اپنے نفس کو اللہ کی منع کی ہوئی چیزوں سے باز رکھے، وہ اللہ کے بندوں کے ساتھ تکبر سے نہ پیش آئے، اگر اس کا نفس اسے دنیاوی ترغیبات میں الجھائے، یا کوئی انسان اس سے لڑائی جھگڑے پر آمادہ ہو، یا کوئی اس سے جہالت برتے تو وہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیتا ہے، اور ایسے ہر موقع پر پورے یقین بھروسے اور اخلاص کے ساتھ اعلان کر دیتا ہے ۔۔ ’’انّی صائم‘‘ یعنی میں روزے سے ہوں۔ شاید یہی سبب ہے کہ اللہ تعالی کو روزے دار کے منہ کی بساند مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پسند ہے، جیسا کہ رسول اللہ ؐ کا فرمان ہے۔

اور روزے کے دنوں کا کیا کہنا، وہ تو اس طرح گزرتے ہیں جیسے کوئی مقابلہ منعقد ہو رہا ہو، اور ہم بھاگتے ہوئے بھلائیاں جمع کر رہے ہوں کہ کوئی خیر اور بھلائی ہم سے چوک نہ جائے۔ اور جو رہ جائے اس کو حاصل کرنے کی کوشش بڑھ جاتی ہے، علاوہ بریں روزہ دار اپنی نیت کی درستی اور استغفار کا خوب اہتمام کرتا ہے، وہ اللہ تعالی کے فرض کی ہوئی عبادات کا اہتمام کرتا ہے۔اس کا دن اللہ تعالی کے بتائے ہوئے کاموں کی ادائیگی اور منع کی ہوئی باتوں سے رک جانے میں گزرتا ہے، اور اس کی راتیں اللہ کے حضور مناجات اور دعائیں کرتے ہوئے بسر ہوتی ہیں، وہ اللہ کی رحمت، مغفرت اور آتشِ جہنم سے نجات کا خواستگار ہوتا ہے، وہ اپنے اخلاق کو اعلی بناتا ہے، اور روزے کے آداب اور شرائط کی پابندی اختیار کرتا ہے، وہ اللہ کی خاطر اللہ کے بندوں سے محبت کرتا ہے، اور ایسے اعمال کرتا ہے جو اللہ کو محبوب ہیں۔

روزہ دار اپنے اہل ِ خانہ سے محبت کرتا ہے، وہ اپنے والدین سے نیکی اور حسنِ سلوک اختیار کرتا ہے، بہن بھائیوں سے نرمی اختیار کرتا ہے اور صلہ رحمی کرتا ہے، پڑوسی کے حق کی نگہداشت کرتا ہے، رمضان کا مہینہ ان سب کی میٹھی محبتوں کا زمانہ ہے، سحر اور افطار کے دسترخوان بھی ان محبتوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں، اور روزہ، ذکر اور قیام، اللہ کی محبت میں ایک دوسرے سے تعاون کا سبب ہیں۔

رمضان المبارک کے مہینے میں اللہ کی رحمت بڑے پیارے انداز میں ظاہر ہوتی ہے، مسلمان اس مہین، میں کھلے اور چھپے، خفیہ اور اعلانیہ طور پر اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتا ہے، وہ اپنے ارد گرد کے علاقوں میں بسنے والے فقراء و مساکین کو بھی یاد رکھتا ہے، وہ اللہ کے عطا کردہ مال کو اس کی راہ میں خرچ کر کے پاک کرتا ہے، وہ صدقہ دیتے ہوئے اس بات کا اہتمام کرتا ہے کہ وہ اسے احسان جتا کر یا اذیت دے کر ضائع نہ کر دے، بلکہ وہ جس طرح ان مساکین کو اپنے لقمے میں شریک کرتا ہے، وہ اپنی دعاؤں میں اسے شریک رکھتے ہیں، اور قبولیت کے اس مہینے میں مانگی جانے والی دعائیں کس سرعت سے قبول ہوتی ہیں، اور اللہ کی دی ہوئی نعمتیں خرچ کرنے سے کم نہیں ہوتیں بلکہ مزید بڑھتی ہیں۔

اس طرح توحید کا تناور درخت روزہ دار کے دل میں پنپنے لگتا ہے، اس کی شاخیں تروتازہ پھلوں سے بھر جاتی ہیں، اور وہ اس کے میٹھے اور رسیلے پھل چنتا ہے، اور وہ اللہ تعالی سے ایسے اجر کا طالب ہوتا ہے جس کی نعمت ختم ہونے والی نہیں اور جس کی عطا باقی رہے گی۔

رمضان المبارک کی خوبصورت فضائیں: رمضان المبارک میں پورے کنبے کی ایمانی، اخلاقی، معاشرتی حالت بلندی کی جانب جاتی ہے، لوگوں کے دل عبادت کی جانب راغب ہو جاتے ہیں، مساجد میں نمازیوں کی صفیں بڑھ جاتی ہیں، لوگ شوق سے تراویح ادا کرتے ہیں، اور خوشی سے تلاوتِ قرآن سنتے ہیں، اور ان کے خشوع و خضوع میں اضافہ ہو جاتا ہے، اللہ کے ذکر سے ان کے رونگٹے کھڑے کھڑے ہو جاتے ہیں اور دل کانپ اٹھتے ہیں، رسول کریم بھی خوبٹورت آواز سے تلاوت کرنے والے اصحاب کی تعریف کرتے تھے، اور فرماتے تھے: ’’زیّنو القرآن بأصواتکم، فانّ الصوت الحسن یزید القرآن حسنا‘‘۔(البانی، صحیح الجامع) (قرآن کو اپنی آوازوں سے زینت دو، کیونکہ اچھی آواز قرآن کے حسن کو بڑھاتی ہے۔)اور فرمایا: ’’سب سے اچھا قرآن پڑھنے والا شخص وہ ہے، جب تم اس کی تلاوت سنو تو تمہیں محسوس ہو کہ وہ اللہ سے ڈر رہا ہے‘‘۔

رمضان المبارک میں یہ احساس بھی بہت خوشگوار لگتا ہے جب مشرق و مغرب میں تمام لوگ ایک ہی اصول کے تحت روزہ رکھتے ہیں، ہر جگہ سحر اور افطار کا ایک سا منظر ہوتا ہے، اور راتوں کو قیام کرنے کا بھی، اور رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف کا بھی! وہ آنکھ جھپکے بنا اس لذت کو پاتے ہیں جو اللہ نے ان کے لئے رکھ دی ہے اور بے اختیار پکار اٹھتے ہیں: ’’رضیت باللہ ربّا و وبالاسلام دیناو وبمحمد رسولا، رواہ مسلم(

مساجد میں اعتکاف کرنے والوں کا باہم بھی ایک عمدہ تعلق قائم ہوتا ہے، وہ ایک ہدف کے حصول کے لئے جمع ہوتے ہیں، اور اللہ کی اطاعت پر اکٹھے صبر کرتے ہیں، اور ان کی زبان ’’لسانِ حال‘‘ سے پکار کر کہہ رہی ہوتی ہے: ’’وعجلت الیک ربّ لترضی‘‘، (اے رب میں جلدی سے تیرے حضور آگیا، اے رب تاکہ تو مجھ سے راضی ہو جائے‘‘۔اور وہ باہم تقوی اور خیر پر جمع ہوتے ہیں۔

رمضان کا بہت پیارا تحفہ یہ ہے کہ وہ صبر سکھاتا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: ’’فالصبر صبراً جمیلا‘‘ (المعارج، ۵) (پس صبر کرو، صبر ِ جمیل) یعنی ایسا صبر جس میں جزع فزع نہ ہو، (تفسیر طبری) اور رمضان کو رسول کریم نے صبر کا مہینہ قرار دیا، فرمایا: ’’صم شہر الصّبر رمضان‘‘۔ (النسائی) ماہِ صبر ، رمضان کے روزے رکھو۔روزہ بھوک پیاس میں بھی صبر کا تقاضا کرتا ہے اور قیم اللیل میں بھی، اور جب معاملہ دیگر انسانوں سے ہو تو ان سے پہنچنے والی تکلیف پر بھی صبر روزے کے اجر کو بڑھا دیتا ہے۔ اسی طرح اپنی کئی عادات کو چھوڑنے اور ان کو ترک کرنے کا صبر۔

نیکیوں میں سبقت: نیکیوں میں سبقت ہر زمانے میں اہم ہے، لیکن رمضان کا اجر و ثواب جس قدر زیادہ ہے، نیکیوں میں سبقت کی طلب بھی اسی حساب سے ہو، زندگی میں آنے والا ہر رمضان گزشتہ رمضان سے بہتر ہو، اور رات اور دن کے اوقات میں نیکیوں کے حصول کو اس طرح لازم کیا جائے کہ کوئی پہر بھی اس سے خالی نہ رہے، اس کی ابتداء اپنے گھر اور والدین اور بہن بھائیوں سے ہو، اور جب بھی کوئی عمل کیا جائے تو اخلاصِ نیت کا جائزہ لیا جائے، اورعبادات، اور معاملات میں توازن قائم کیا جائے، اور وہ اللہ کا تقوی اختیار کرے جس قدر کر سکے، اور اپنی زبان اور دل کو اللہ کے ذکر سے آباد رکھے، اور چلتے پھرتے، سفر میں، گھر کے کام کاج کرتے، ہر مشغولیت میں زبان اور دل کو اللہ کے ذکر سے آباد رکھے، یہاں تک کہ رمضان کے بعد بھی یہ عادت ، عادتِ ثانیہ بن کر اس کے ہمراہ رہے۔

اللہ تعالی ہم میں سے ہر ایک کو ایسا دل عطا کر دے جو اسے زندہ کر دے، اور اس کے جسم کو ہر اذیت سے محفوظ رکھے، اپنے اعضاء و جوارح سے ایسے کام لے، جو اسے اللہ کے قریب کر دے، اور اللہ کی خاطر رمضان کو اس کا حق دے، اور یہ بھی اچھا انداز ہے کہ رمضان کے مہینے میں دوسرے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کر لیں، ’’اور نیکیوں میں سبقت لے جانے کی کوشش کریں‘‘، کون جانے اگلے رمضان تک کون زندہ رہے گا۔

حصہ
mm
ڈاکٹر میمونہ حمزہ نے آزاد کشمیر یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات امتیازی پوزیشن میں مکمل کرنے کے بعد انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب میں بی ایس، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ زمانہء طالب علمی سے ہی آپ کی ہلکی پھلکی تحریریں اور مضامین شائع ہونے لگیں۔ آپ نے گورنمنٹ ڈگری کالج مظفر آباد میں کچھ عرصہ تدریسی خدمات انجام دیں، کچھ عرصہ اسلامی یونیورسٹی میں اعزازی معلمہ کی حیثیت سے بھی کام کیا، علاوہ ازیں آپ طالب علمی دور ہی سے دعوت وتبلیغ اور تربیت کے نظام میں فعال رکن کی حیثیت سے کردار ادا کر رہی ہیں۔ آپ نے اپنے ادبی سفر کا باقاعدہ آغاز ۲۰۰۵ء سے کیا، ابتدا میں عرب دنیا کے بہترین شہ پاروں کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالا، ان میں افسانوں کا مجموعہ ’’سونے کا آدمی‘‘، عصرِ نبوی کے تاریخی ناول ’’نور اللہ‘‘ ، اخوان المسلمون پر مظالم کی ہولناک داستان ’’راہِ وفا کے مسافر‘‘ ، شامی جیلوں سے طالبہ ہبہ الدباغ کی نو سالہ قید کی خودنوشت ’’صرف پانچ منٹ‘‘ اورمصری اسلامی ادیب ڈاکٹر نجیب الکیلانی کی خود نوشت ’’لمحات من حیاتی‘‘ اور اسلامی موضوعات پر متعدد مقالہ جات شامل ہیں۔ ترجمہ نگاری کے علاوہ آپ نے اردو ادب میں اپنی فنی اور تخلیقی صلاحیتوں کا بھی مظاہرہ کیا،آپ کے افسانے، انشائیے، سفرنامے اورمقالہ جات خواتین میگزین، جہادِ کشمیر اور بتول میں شائع ہوئے، آپ کے سفر ناموں کا مجموعہ زیرِ طبع ہے جو قازقستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں آپ کے سفری مشاہدات پر مبنی ہے۔جسارت بلاگ کی مستقل لکھاری ہیں اور بچوں کے مجلہ ’’ساتھی ‘‘ میں عربی کہانیوں کے تراجم بھی لکھ رہی ہیں۔

10 تبصرے

  1. 426965 436355An attention-grabbing dialogue is value comment. Im certain that its much better to write on this subject, towards the often be a taboo subject but typically persons are not sufficient to speak on such topics. To an additional location. Cheers 988041

  2. 121266 386321Thank you, Ive lately been seeking for information about this topic for ages and yours could be the greatest Ive located out so far. But, what in regards to the bottom line? Are you sure concerning the supply? 759958

  3. 89566 70568Amazing beat ! I would like to apprentice whilst you amend your internet web site, how can i subscribe for a weblog website? The account helped me a applicable deal. I had been tiny bit acquainted of this your broadcast provided shiny transparent notion. 897041

  4. 600044 661143Hey! I just wish to give an enormous thumbs up for the great details youve got here on this post. I will likely be coming back to your blog for a lot more soon. 95158

  5. 405981 240918So may be the green tea i buy in cans exactly the same as the regular tea youd buy to put in your morning cup? Ive been told is just normal green tea created to be cooler, but does it have any affect as far as not speeding up your metabolism as quickly as normal hot green tea? 343942

  6. 872584 645272Exceptional read, I just passed this onto a friend who was performing some research on that. And he truly bought me lunch since I discovered it for him smile So let me rephrase that: Thank you for lunch! 317031

جواب چھوڑ دیں