ماں کا ہمدرد ہونا چاہئے

بچے کیلئے سب سے اچھی جگہ ماں کا دل ہوتا ہے بچے کی عمر چاہے کتنی ہی ہو ، ہمارے لئے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ماں کو جو عظمت ملی ہے اس کا کوئی جواب نہیں ۔ واقعی ماں کا پیار جسے حا صل ہو جائے اور جو ماں کے ساتھ وفا کر جائے تو اس کی دنیا اور آخرت دونوں سنور گئے ۔

اللہ نے ماں کے پیار کی ایسی مثال دی کہ جنت اٹھا کے ماں کے قدموں میں ڈال دی

بچے سدا بچے نہیں رہتے وہ سب کچھ دیکھتے ہیں. شعوری اور لا شعوری طور پر ان سے بہت کچھ سیکھتے ہیں ۔ اچھا ئیاں بھی برائیاں بھی ۔ اللہ تعالیٰ نے سب کو یہ نعمتیں عطا کی ہیں مثلاً رشتے ناطے مگر کیا وجہ ہے کہ آج کے دور میں بچے اپنے مطلب پر ہی ٹکے ہوئے ہیں ؟ اور ماں باپ جیسی عظیم ہستیوں کو اور خصوصاً ماں کو استعمال کر رہے ہیں ۔ کہتے ہوئے بھی شرم آتی ہے مگر یہ تلخ حقیقت ہر کسی کو سمجھنا اور ماننا ہی چاہئے کہ وہ جتنی ہمدردی کی توقع ماں سے رکھتے ہیں کیا ذاتی طور پر وہ خود اتنے ماں کے ہمدرد ہوتے ہیں ؟اگر نہیں تو اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ ماں سے ہمدردی کی توقع رکھنے کے بجائے ماں کا ہمدرد ہونا چاہئے یہ آپ پر فرض ہے ورنہ آپ کی زندگی ادھوری اور ہمیشہ بے مزہ رہے گی ۔  دراصل اس روئیے میں بھی بچے سو فیصد قصور وار نہیں بلکہ ناقدرے ، لالچی ، بے مروت اور خود غرض باپوں سے وہ یہ سیکھتے ہیں تو کہیں تعلیم کی کمی خاص کر دینی تعلیم کی کمی وجہ بنتی ہے ۔ جب باپ نکھٹو ، سست ، کاہل ، انا پرست ، بات بات پر بیوی بچوں کو گالی گلوچ تو کیا بری طرح مارنے پر چڑھا ہو ا ہے زبردستی اس کی محنت ، روپیہ پیسے اور مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھاتے برا محسوس نہ کرے ، غیرت نہ دکھائے تو پھر بچے بھی بے حس نا قدرے اور صرف اپنے فائدے کے لئے ماں کو استعمال کرتے ہیں باپ تو اپنی ہی موت خود مرچکا ہوتا ہے کیونکہ وہ سچی ہمدردی توجہ اور محنت ایسی اولاد سے لے ہی نہیں سکتا جو انہیں پیار ، محبت ، ہمدردی اور محنت سے خوشی خوشی سے پالے اور انکی خوشیوں کی دینی تعلیم کی ، دنیا سے زیادہ آخرت کی فکر میں انہیں تربیت نہ دے بلکہ صرف پیسہ بنانے کی مشین سمجھے ۔ ان کے جذبات احساسات اور انا کو مار ڈالے ۔ اپنی ہی عیاشیوں اور خود غرضیوں میں لگا رہے ، انکی خاطر کبھی پسینہ نہ بہائے تو اولاد کیلئے وہ کیا حیثیت رکھتا ہوگا ؟ اگر دنیا اقتدار مال و دولت کی نا جائز تقسیم اور چند ٹکو کیلئے نہ وہ اپنی بیوی کی قدر کرے نہ بچوں کی تو پھر بچے کیسے ہونگے؟ یہ ہمارے متوسط طبقے کا کڑوا المیہ ہے ۔ صرف بچے ہوئے وہ لوگ ہیں جو واقعتاً دین کا شعور خوف خدا رکھتے ہیں ، اپنے بچوں کو اچھی تعلیم و تربیت دیتے ہیں ۔ اچھا مہذب اور شائستہ انسان بناتے ہیں ، انسانوں کی قدر سکھاتے اور انکی اوقات بتاتے ہیں ۔ ان میں امیر و غریب دونوں شامل ہیں ۔ کہتے ہیں نہ کہ انتہائی غربت بھی تباہی لاتی ہے اگر دینی تعلیم نہ ہوتو اور زیادہ کمائی بھی تباہی لاتی ہے اور دین سے دور کردیتی ہے اگر ایمان پختہ نہ ہو ۔ آج میں کیا اپنوں میں کیا پرا ئوں میں ، ماسیوں میں ، ہر جگہ ہر جگہ دوست احباب میں بلکہ خاندانوں میں تک دیکھتی ہوں کہ جو انسان کی خصوصاً ماں کی تذلیل ہو رہی ہے ۔ لوگ بھول گئے ہیں آخرت کو، اپنے خالق کو ، مالک کو جو پکڑنے پر آئے تو ایسے پٹخے کہ دم مارنے کی گنجائش نہ ہو ۔ افسوس صد افسوس ، امیر امیر گھروں کی لڑکیوں ، لڑکوں نے مائوں کو انگلیوں پر نچا یا ہوا ہے اور لڑکے تو باقاعدہ مائوں کو بلیک میل کر رہے ہیں ۔ انکی محبت ، محنت کی قدر کرنا تو دور کی بات انہیں کیڑا سمجھ رہے ہیں ۔ ایک ماسی بتا رہی تھی کہ اس کے دو بیٹے اس کے ہی گھر میں رہتے ہیں پوتے پوتیاں بھی ہیں مگر وہ ماں سے بات تک نہیں کرتے ۔ وہ بیچاری صبح شام انکو آتے جاتے دیکھتی ہے ، بہوئیں لفٹ کرائیں گی ؟ بیٹیوں کے شوہر الگ نکمے ، بیویوں کو ایسے چھوڑ دیتے ہیں کئی کئی بچوں کے ساتھ کہ وہ بیچاریاں گھروں میں نوکریاں کرتی ہیں۔ بچوں کی پریشانی بے گھر ہو نے کا دکھ ، کام کی زیادتی ستم بالائے ستم دین سے بے بہرہ ہونے کی وجہ سے بے سکونی مستقل مشینیں بنی ہوئی ہیں ۔ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے ۔ بوڑھی ماں کئی کئی بچوں کو پالتی ہے یا کبھی ماں بیمار ہو جائے تو بیٹیوں کا کام بھی دوسروں کے گھر جا کر کرتی ہے اور بیٹوں کو کوئی فکر نہیں ۔ نہ خرچے کی ، نہ رہنے سہنے کی ، نہ بیماری سماری کی ، نہ جانے اور مائوں سے کیا چاہتے ہیں ؟ اگر لڑکیوں کے گھر بگڑ جا ئیں یا انکے شوہر نکمے نکلیں تو بھائیوں کا فرض بنتا ہے کہ بہن کو بہت حد تک سہارا دے ۔ ماں بہنوں کا دکھ بانٹیں اس طرح تم روٹھے ہم چھوٹے کرکے رہنا اخلاق ہے نہ انسانیت ۔ دوسری طرف پڑھے لکھے لڑکے لڑکیاں جنکا معاشرے میں ایک مقام ہے ایک پہچان ہے ۔ انہوں نے بھی مائوں کو آگ لگائی ہوئی ہے ۔ ماں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں کسی بچے کودکھی نہیں دیکھ سکتی ۔ خود کارخانہ بنی ہوتی ہے ۔ بڑھاپے کی دہلیز پر بھی اپنی تکالیف کو ہمیشہ پسِ پشت ڈال کر بچوں اور شوہر کی خدمتوں میں لگی ہوتی ہے ۔ جتی ہوتی ہے ، انکی عزت کی خاطر اپنی جان، مال، خوشی، شوہروں کی اذیتیں ہر طرح کی قربانی دیتی ہے جبکہ جواب میں دلوں کو کاٹنے والا سفا کانہ رویہ اور دل جلے الفاظ و نظارے !! اللہ کی پناہ کیسے برداشت کرے !

اپنے سینوں میں جو نفرت کو پنہاں رکھتے ہیں

جانے وہ لوگ محبت کو کہاں رکھتے ہیں

۔ اس سے پہلے کہ فطرت یہ قدرت کا بے آواز کوڑا جلے..اس دنیا میں ملنے والی چند فیصد سزا انسان برداشت نہیں کرسکتا آخرت تو یقینی ہے ـ”یوم تغابن” کی خبر نہیں تو پھر کس کی خبر ہے ؟ دل چھلنی ہے ہزاروں واقعات ہیں ، رویئے ہیں آنکھوں میں گھوم رہے ہیں کچھ لوگ تو صرف پنکھے کی طرح دیکھتے دکھوں کو سہتے اس جہاں سے گزر گئے مزید کچھ گزر رہے ہیں وہ بھی گزر جائیں گے مگر سوچئے !! غور کیجئے ۔ کیسی سیاست چلا رہے ہیں اپنو ں کے ساتھ ! شرم تم کو مگر نہیں آتی ، بھلے نہ آئے موت تو آئے گی ، حشر تو برپا ہوگا پھر کیا کرو گے ؟ وہ تو دور بھی نہیں ابھی کرونا سے بھاگ رہے ہو ۔ ذمہ داریوں سے بھاگتے شرم نہیں آئی ؟ ناقدری کرتے شرم نہ آئی ؟ جو بندوں کا شکر گزار نہیں وہ رب کا شکر گزار ہو ہی نہیں سکتا ۔ کیا اتنی بڑی وارننگ بھی سدھرنے کیلئے ناکافی ہے ؟ ایمان جگائیں اپنے مسلمان ہونے پر شکر کریں ۔ دین سراسر اخلاق ہے ۔ اخلاق اپنائیں کردار جگائیں ۔ آپ بہت اچھے ہیں یقین جانیں تندرست توانا اور معزز صرف آپکے اعمال ؟؟؟

خدارا وقت کی قدر کریں اپنے پیاروں کی قدر کریں ورنہ یہی وقت آپکی تو اوقات ایسے بدلے گا کہ کہیں اللہ نہ کرے پناہ ملے ۔ آج میرا دل بہت اداس ہے ۔ ٹی وی ڈرامے اور حقیقت کے کرداروں میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ صرف آپکا کردار اور خلوص کام آنے والا ہے ۔ انسانوں کی قدر کرنا سیکھو یہ ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے سب انسان برابر ہیں ۔ کس بنیاد پر آپ رشتوں کی تذلیل کر رہے ہیں ؟ یہ تکبر ہے برائی ہے ، جیت نہیں ہار ہے ، بھائیوں خدا کی مار ہے ، بڑی پھٹکار ہے ۔ سنبھلنے کیلئے تو ایک ٹھوکر کافی ہے ۔ آپ ماشاء اللہ باشعور ایجوکیٹڈ ہیں ۔ دنیا کو مٹھی میں لیا ہوا ہے ۔ آپ کے لئے کیا مشکل ہے؟ حق سمجھنا برتنا پرکھنا آج نہیں ابھی نہیں تو سمجھو کبھی نہیں ۔ ہر گزرتا لمحہ تمہیں مات دے رہا ہے تمہارے بنا چاہے تمہاری زندگی کو کم کر رہا ہے کیا اب بھی نہیں سدھرو گے ؟ اللہ تو عظیم ہے کریم ہے ۔ معاف کرنے والا ہے ۔ وہ معافی کو پسند کرتا ہے ۔ اس سے سچے دل سے معافی مانگو گے تو وہ رب ضرور معاف کردیگا ۔ مگر بندوں کو کیسے منائو گے ؟ انا چھوڑو، تکبر چھوڑو ، سنبھل جائو ، آج مہلت زندگی ہے کل اللہ نہ کرے شرمندگی ہو اور بری ناکامی کے ساتھ عذاب جہیم!! فیصلہ تو آپ کو کرنا ہے ؟ ماں تو پھر ماں ہے اسکے پیروں تلے جنت ہے تم کیسے؟؟؟ اسی نے کھلایا پلایا ، بولنا سکھا یا ، اچھا برائی سمجھائے ، تمہاری خوشی چاہی تم کیا چاہتے ہو اور کیوں ؟

غافل تجھے گھڑیال یہ دیتی ہے دوہائی

گردوں نے گھڑی عمر کی ایک اور گنوادی

زندگی ایک پل بھر کی ہے اس ایک پل سے آج لیلۃ القدر میں اس پل کو جی جائیے امر ہو جائیں ۔ یہی دعا ہے یہی تمنا ہے ۔ اللہ توفیق عطا فرمائے عمل کی ۔ آمین ثمہ آمین

جواب چھوڑ دیں