سانحہ ائیر پورٹ،طیارہ حادثہ

آہ ایک اور سانحہ میری سرزمین کو دیکھنا پڑا دل غم سے بوجھل ہے شاید اس لئے کہ عید کی آمد آمد تھی اور حالات تو ویسے بھی اس وبا کی وجہ سے خوشگوار نہ تھے اور پھر یہ سانحہ ۔ ۔ ۔؟اس حادثے کی نظر محض سو افراد نیہں بلکہ سو گھرانے سو خاندان ہوئے ہیں جن کے پیارے یوں بچھڑ گئے انکا جینا بھی کیسا جینا ہو گا؟؟
نہ جانے کتنی مائیں اپنے جواں سال بیٹوں کے انتظار میں تھیں۔ ۔ کتنے بچے اپنے باپ کا انتظار کر رہے تھے کہ بابا کہ ساتھ عید کی شاپنگ کریں گے۔ ۔ ۔اور کوئ اپنی پردیس میں بیاہی بیٹی کے انتظار میں ھوں گے کہ انکی بیٹی نواسے نواسیاں ان کے ساتھ عید منانے آ رہے ہیں ۔ ۔ نے نئے کھانے بناۓ ہوں گے ان کے لئے۔ ۔
اور وہ جو مسافر تھے وہ بھی تو کتنے خوش ہوں گے کہ عرصے بعد لاک ڈاؤن میں نرمی ہوئی اور وہ اپنے گھروں کو لوٹیں گے یا دور اپنے پیاروں سے مل سکیں گے ۔ ۔ ۔مگر آہ ۔ ۔ کسے معلوم تھا کہ یہ سفر سفر آخرت بن جائے گا ان کے لیۓ ؟
بس اک یہی حقیقت ہے اس زندگی کی ۔ ۔اس جہان کی ۔ ۔ کسی کو یہاں ثبات نہیں ۔۔ ۔
مگر پھر بھی اس بے ثبات زندگی کو ہی اپنا سب کچھ سمجھ بیٹھے۔ لو لگائ ایسی اس دنیا سے کہ ہوش ہی نہ رہا موت ہمارے تعاقب میں ہے اور ہم ہیں کہ دنیا سمیٹنے میں لگے ہیں. دلوں میں نفرتیں اور کدورتیں پالے بیٹھے ہیں۔ ۔
ہر طرف بے حسی کا عالم ہے..وہ جو خبریں سنا رہی ہیں سجی سنوری بالوں کے ہیر سٹائل سے لے کر کپڑے جیولری میک اپ کسی چیز کی بھی تو کمی نہیں کیا یہ اندوہناک خبریں اس طرح سجا سجا کے پیش کی جاتی ہیں؟ایک زمانہ تھا کہ بچپن میں ایک مرتبہ کراچی سے راولپنڈی جانے والی ٹرین کو حادثہ پیش آگیا تھا اس وقت یہ الا بلا چینل نہ تھے بس ایک پی ٹی وی تھا اچانک تمام نشریات معطل کر دی گئیں کوئ اشتہار نہ چل رہا تھا حمد باری تعالیٰ اور تلاوت لگا دی گئی۔ ۔ یا اللّٰہ خیر کیا ماجرا ہے ہر کوئی فکر میں مبتلا ہو گیا کچھ ہی دیر بعد خبر نامہ نشر ہوا ایک خاتون سفید لباس میں سر کو سلیقے سے دوپٹے سے ڈھانپے اس سانحے کی خبر سنا رہی تھیں کہ ان کا لہجہ تھا ایسا کہ لگتا تھا ابھی پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیں گی کہ جیسے انکا اپنا بھی کوئ اس حادثے کا شکار ہو گیا ہو ۔ ۔ شاید وہ اپنے ہی تو ہوتے ہیں۔ ۔  کیا ہم ایک قوم نہیں؟ آج خبر کی اس وسیع دنیا میں شاید کوئی گوشت پوست کا انسان باقی نہیں سب روبوٹ ہیں جو سامنے لکھی خبریں پڑھ دیتی ہیں بس۔ ۔
آج اس سانحے پہ دل افسردہ ہیں کل بھول جائیں گے وہی چینلز ہوں گے وہی رقص و سرور کی محفلیں ۔ ۔ سب بھول جائیں گے ۔ ۔ یہی زندگی کی حقیقت ہے۔ ۔ ہر حادثہ ھمیں موت کی یاد دلاتا ہے ہم دیکھتے ہیں گزر جاتے ہیں کچھ بھی نہیں سیکھتے ۔ ۔ مگن ہیں بس ان رنگینیوں میں جیسے انکی بری گھڑی آئی تھی ہماری نہیں آ سکتی؟ابھی بھی وقت مہلت عمل ملی ہے سو ہمیں من حیث القوم اپنا قبلہ درست کرنا ہو گا ورنہ جانا تو ہر حال میں ہے کوئی اس سے بچ نہیں سکتا   بس اتنا سمجھنا ہے کہ آخرت کے لئے سامان تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ۔ ۔

1 تبصرہ

  1. آہ، بیت درد بھری تحریر ۔۔ نا جانے ہمیں اس سال ابھی کیا کیا دیکھنا باقی ہے۔۔۔ اللہ اپنا کرم کرے۔۔

جواب چھوڑ دیں