تحریکِ انصاف کا اصل منشور

22 سالکی انتھک محنت اور کوششوں کے بعد  اک شخص اپنے مقصد میں کامیاب ہورہا ہے مگر پھر بھی اس کامیابیکی دیوار میں دراڑیں پڑنا شروع ہوگئیں ہیں اور اگر اس دراڑ کی وجہ معلوم کر کے اسے درست نہ کیا گیا تو 22 سال کی وہ پوری محنت پانی میں بہ جائیگی اور سوائے ماضی میں اسے یاد کرنے کے اور کچھ نہ حاصل ہوگا۔  اک تحریک، اک سونامی، اک جذبہ جو کہ پاکستانی عوام کو اپنے اندر سمائے ہوئے تھا۔عوام کا خان صاحب پر اعتماد اس قدر بڑھ گیا تھا کہ جہاں بھی جاتے عوام میں دعائیں لیے بغیر نہ لوٹتے اور دعائیں ملتی بھی کیوں نہ عوام کے لیے حکومت میں آئےبغیردل کو چھو لینے والے کئ کام کیے ہیں جیسے کہ نمل یونیورسٹی، شوکت خانم ہسپتال۔ جو کہ عوام کے لیے اک سہولت کے ساتھ ساتھ بلکل ایسے ہی ہے جیسے ریگستان میں پانی کی امید نظر آئے۔ مگر اس بات کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ کہیں یہ پانی سوکھ نہ جائے اور عوام کی امیدوں پر پانی نہ پھر جائے

۔ پی ٹی آئ پر دور حاضر میں جو گروہ حاوی ہے جس کا پلڑا بھاری ہےوہ کہیں ایسا نہ ہو اپنے مفاد میں پارٹی کو استعمال کرکےعوام کی امیدوں پر پانی پھیر دے، بلکل ایسے ہی کہ ریگستان میں پانی کے امید ملی ہو اور پہنچتے پہنچتےوہ پانی سوکھ کر ختم۔ہوجائے۔ اور مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے۔

 تحریک انصاف کے سفر کی شروعات جناب عمران خان صاحب نے اپنے دوستوں کے ساتھ کی تھی۔ خان صاحب کا یہ سفر 2010 تک کافی کٹھن تھا، اک نئ سوچ کے ساتھ سیاسی میدان میں اترنا کافی مشکل تھا۔ لیکن اس تحریک کو اس وقت جان ملی جب خان صاحب نے کرپٹ مافیا، خاندانی سیاست، لوٹے بازی، کے خلاف طبلا جنگ بجادی اور عوام میں مقبولیت حاصل کرنا شروع ہوگئے۔ مگر یہ نعرہ بلکل ایسے ہی مثال پر اتر رہا ہے کہ چار دن کی چاندنی اور پھر اندھیری رات۔

خود اپنے کیے ہوئے دعوؤں پر بجائے عمل کرنے کے خلاف ورزی کی جارہی ہے۔  پاکستان تحریک انصاف میں 2008 سے 2013 تک ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ اصل تحریک انصاف تھی جو عوام کی ترجمانی کر رہی تھی۔ مگر 2013 کے انتخابات کے بعد سے اس پارٹی کا اصل منشور خاک میں ملا دیا گیا۔

پی ٹی آئی کا سب سے پہلا منشور تھایوتھ۔ یہ جماعت یوتھ کی ترجمانی کے اس نعرہ کی وجہ سے کافی مقبول ہوئیاور اس کی سب بڑی مثال مراد سعید، سمیت کئ نوجوان سیاستدان اس پارٹی میں شمولیت اختیار کرتے گئے مگر یہ نعرہ بھی آگے چل کر بھونڈا ثابت ہوا جب بزرگ سیاستدان نوجوانوں کی جگہ لینے لگے۔

اس جماعت کا یہ دعویٰ بھی منفرد تھا جسے آگے چل کر دفن کردیا گیا، کہ یہ جماعت لوٹو کے خلاف ہے۔ پھر 2014 کے بعد لوٹو کی شمولیت کی اک لائن لگ گئ۔ اور نامورسیاست دان جن میں شاہ محمود قریشی، فردوس عاشق اعوان، حلیم عادل شیخ، جہانگیر ترین، عامر لیاقت، سمیت کئ سیاست دان اس پارٹی کا حصہ بنے۔ اس طرح نوجوان سیاستدان اور بانی رہنماؤں کے لیے مشکلات پیدا کرتے گئے اور کر رہے ہیں۔ اس طرح یہ نعرہ بھی کھوکھلا ثابت ہوا۔

خان صاحب کی اک سوچ تھی اور وہ سوچ یہ تھی کہ اب کسی کرپٹ سیاستدان کو اقتدار پر قابض نہیں ہونے دینگے مگر حال یہ ہے کہ پارٹی میں درجن سے زائد کرپٹ مافیا براجمان ہے۔ اس ضمن میں سب سے تازہ ترین مثال چینی کی ذخیرہ اندوزی ہے۔ جب چینی کی ذخیرہ اندوزی کرکے اسے بیچا جانے لگا۔ اور بیچا جانے لگا تو لگا لیکن اسے مہنگے داموں پر بیچا گیا۔ اور جب تحقیقاتی رپورٹ منظرعام پر آئی تو شریف ملز تو تھیں قصور وار مگر جہانگیر ترین، خسرو بختیار، مونس الٰہی کی ملیں بھی اس کرپشن میں ملوث پائ گئیں۔  اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا سچ میں خان صاحب کرپٹ مافیا کے خلاف ہیں یا یہ نعرہ بھی روایت کے مطابق بھونڈا ہے۔

خاندانی سیاست سے پی ٹی آئی کو نفرت تھی مگر آج ایسا معلوم ہوتا ہے  کہ خاندانی سیاست سے جیسے عشق ہوگیا ہے جبھیخان صاحب کی پارٹی کے قریبی رہنما شاہ محمود قریشی صاحب کے بیٹے بھی پارٹی ٹکٹ پر منتخب ہیں۔ خیر اب یہ دعویٰ بھی نہ ہی سمجھیں۔

اس جماعت کا اک اور نقظہ نظر تھا کہ یہ پارٹی کسی بھی اثر ورسوخ سے بالاتر ہے نہ اثر ورسوخ دکھاے گی نہ لے گی۔ مگر یہ نقظہ بھی غلط ثابت ہوا جب تفتان بارڈر پر پاکستانی زائرین کو تفتان پر روکنے کے بجائے ملک کے دیگر شہروں میں اثر ورسوخ کی بنا پر بھیجا گیا۔

گالم گلوچ بھی زیادہ تر اسی جماعت میں اپیا جاتا ہےباقی جماعتوں کے نسبت۔ برداشت کی صلاحیت نہ ہونے کے برابر ہے اور اگر اک تلخ سوال کرلیا جائے تو پھر سوشل میڈیا پر ناقدین اور صحافیوں کے خلاف بے حودہ ٹرینڈ چلنا شروع ہوجاتے ہیں۔  شاید پی ٹی آئی یہ سمجھ رہی ہے میڈیا سے زیادہ طاقتور سوشل میڈیا ہے جبھی پریس کانفرنس میں ان صحافیوں کو اگلی بار مدعو نہیں کیا جاتا جو تلخ سوال کرلے اک بار بھی۔

خان صاحب اک بہت ہی نفیس شخصیت کے مالک، عوام کی فکر کرنے والا، باشعور انساں، لیکن خان صاحب کے ساتھ موجود نئے لوگ جو خان صاحب کو اور اس پارٹی کو۔اپنے مفاد میں استعمال کر رہے ہیں جو کہ خود خان صاحب کی شہرت کے لیے بھی خطرناک ہے۔

یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ پی ٹی آئی ماضی کی باتوں کو یاد رکھتی ہے جیسے کہ پی پی پی اور ن لیگ کی کوتاہیوں کو۔ ماضی کے ستمگروں کی ستمگیری کوہاددلاتی رہتی ہے۔ ان زخموں پر نمک چھڑک کر عوام کو یاد دلاتی رہتی ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں جو آج اچھے بن رہے ہیں۔  مگر آج جب پی ٹی آئی کی حکومت ہے تو یہ قابلِ قبول ہے مسائل کا انبار ہے لیکن ان مسائل کو حل کر کے پیٹی آئی عوام کے دلوں میں گھر کر سکتی ہے نہ کہ پرانی یادوں کے سہارے اپنی سیاست کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی کے پاس اک بہت ہی سنہری موقع ہے جب تمام ادارے اک پیج پر ہیں، کسی قسم کی کوئ رکاوٹ اس حکومت کے آگے نہیں، اپوزیشن بھیٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، میڈیا بھی آپس میں گتھم گتھا ہے، اسٹیبلشمنٹ سے بھی تعلقات خوش گوار ہیں اور عوام میں بھی ابھی مقبولیت باقی ہے۔ پی ٹی آئی کےپاس اک زبردست موقع ہے جو کہ 2022 کے انتخابات میں کامیابی کا باعث بن سکتا ہے۔

حال ہی میں خان صاحب نے اپنے کیے ہوئے وعدے کو سچ کر دکھایا اور اس وہ تحریکِ انصاف جو کہ ماضی میں مقبول تھی اپنے منشور کی بنا پر، لگتا ہے وہ تحریکِ انصاف کو بلکل ایسے ہی مفاد پرستوں کے ٹولے میں گرفتار تھی جیسے کہ رضیہ غنڈوں میں پھنس گئے ہو۔ مگر جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ فردوس عاشق اعوان کو اثر ورسوخ دکھانے پر عہدے سے ہٹایا جاتا ہے تو پھر مجھے اک امید کی کرن نظر آتی کہ ہاں ابھی بھی تحریک انصاف لوگوں کی امید پر پورا اتر سکتی اگر ایسے ہی اپنے منشور کو مفاد پرستوں پر ترجیح دے۔

2022 میں پی ٹی آئی طاقت ور جماعت بن کر ابھر سکتی ہے اگر ان تمام پارٹی مسائل جنکا ذکر کیا گیا ہے ان پر قابو پالیا جائے۔ اگر ان تمام پارٹی مسائل پر غور وفکر کیا جائے اور حل کرنے کی کوشش کی جائے تو یقیناً وہی پی ٹی آئی عوام۔میں مقبولیت کے جھنڈے گاڑے گی جو اپنے منفرد نعروں، منشور، نظریہ کے باعث مقبول تھی۔ یہ سب وہ چیدہ چیدہ باتیں تھیں جن کی بہتری سے پی ٹی آئی عوام کی اصل ترجمان بن کر ابھر سکتی ہے اور دوسری جماعتوں کے لیے بھی اک مثال بن سکتی ہے۔

2 تبصرے

جواب چھوڑ دیں