انسداد وبا میں میڈیا کا اہم کردار

دنیا کی ایک معروف سماجی و کاروباری شخصیت اور  ای کامرس کے حوالے سےمشہور عالمی ادارے علی بابا کے بانی جیک ما کا حالیہ دنوں ایک بیان نظر سے گزرا جس میں انہوں نے کہا کہ” رواں برس انسانی جان کا بچ جانا سب سے بڑا منافع ہے”۔ اگر عالمگیر وبا کووڈ۔19 کی تباہ کاریوں کو دیکھا جائے تو واقعی ایسا لگتا ہے کہ انسانیت کی بقاء اس وقت ایک کٹھن آزمائش سے دوچار ہے اور ان دیکھا دشمن بھی وہ ہے جس کے مقابلے میں دنیا کے پاس فی الحال ہتھیار بھی موجود نہیں ہیں۔

اگرچہ دنیا کے مختلف ممالک میں وقت کی تیز رفتاری کا مقابلہ کرتے ہوئے عالمگیر وبا سے نمٹنے کے لیے ویکسین کی تیاری کی کوششیں تیزی سے جاری ہیں مگر طبی ماہرین کے نزدیک یہ کام دنوں یا ہفتوں میں ممکن نہیں ہے بلکہ سال کے اواخر تک شائد اس حوالے سے دنیا کو کسی قسم کی خوشخبری مل سکے۔بلاشبہ موجودہ صورتحال کو انسانیت اور نوول کورونا وائرس کے درمیان جنگ قرار دیا جا سکتا ہے  جسمیں فتح کا حصول ہی انسانی ترقی کی ازسرنو بنیاد ہے۔

پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں اقتصادی دباو کے سبب  لاک ڈاون اور  دیگرپابندیوں میں نرمی لائی جا رہی ہے کیونکہ کمزور معیشتیں صنعتی جمود کی مزید متحمل نہیں ہو سکتی ہیں لیکن دوسری جانب وائرس کی تباہ کاریوں میں مزید اضافے کا خطرہ بھی ہے۔ایسے میں ایک غیر یقینی کی کیفیت کا سامنا ہے جس میں عوامی رویوں کا عمل دخل انتہائی اہم ہے۔پاکستان میں لاک ڈاون میں نرمی کے بعد بازاروں میں عید  کی خریداری کا رش دیکھا جا سکتا ہے۔ماسک کے استعمال کی پابندی کی شائد ہمیں اتنی عادت نہیں ہے جس کے باعث وائرس کو مزید وار کے مواقع مل سکتے ہیں۔

اس صورتحال میں میڈیا کا آگاہی کردار نہایت اہم ہے۔ میڈیا عوام کی درست معلومات تک رسائی کا بنیادی ذریعہ ہے۔  آج کی جدید دنیا میں لوگوں کے پاس معلومات کے بے شمار وسائل دستیاب ہیں۔روایتی میڈیا کے بجائے سوشل میڈیا شائد فوری اطلاعات کی فراہمی کا فریضہ سرانجام دے رہا ہے مگر مصدقہ اور غیر مصدقہ معلومات میں تفریق یقیناً کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔وبائی صورتحال میں افواہوں ،مفروضوں ، فیک نیوز یا غلط معلومات کا سامنے آنا صورتحال کو مزید سنگین بنا سکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ عالمی ادارے فیک نیوز کی روک تھام کے لیے مصروف عمل ہیں اور سرچ انجنز سمیت سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ مشاورت سے کوشش کی جا رہی ہے کہ حقائق کو فروغ دیا جائے اور غلط معلومات کو فوری “فلٹر آوٹ” کیا جائے۔

حقائق کے تناظر میں عالمگیر وبا عالمی میڈیا کا بھی ایک کڑا امتحان ہے۔میڈیا تاریخ کو ریکارڈ کرتا ہے جہاں سچ کسی خبر کی بنیاد ہے لیکن بدقسمتی سےمیڈیا اداروں کی جانب سے سنسنی خیز اور بریکنگ نیوز کے چکر میں ایسی معلومات بھی سامنے آتی ہیں جن کا حقیقیت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ نوول کورونا وائرس کے حوالے سے ایک جانب کیسوں کی تعداد میں اضافے اور اموات کا ذکر تو شہ سرخیوں میں کیا جاتا ہے مگردوسری جانب صحت یابی کی شرح یا پھر دیگر کامیاب  پیش رفت کی اُس طرح پزیرائی نہیں کی جاتی جو لازم ہے اور معاشرے کے لیے حوصلہ افزائی کا سبب ہو سکتی ہے۔میڈیا  عوام  میں آگاہی کو فروغ دے سکتا ہے کہ خود کو اپنے گھروں تک محدود رکھنے سے کیسے وائرس سے خود کو اور دیگر لوگوں کو بچایا جا سکتا ہے،ہاتھوں کو دھونے یا جسمانی صفائی کی کیا اہمیت ہے، میڈیا عوام میں سادہ طرزعمل کو فروغ دے سکتا ہے کہ لازمی تو نہیں کہ نئے کپڑوں ،جوتوں کے بناء عید نہیں ہو گی ۔یہی پیسے آپ کسی ایسے سفید پوش انسان کو دے سکتے ہیں جو وبا کے باعث بیروزگار ہے یا جس کے وسائل محدود ہیں۔میڈیا کو یہ سمجھنا ہو گا کہ مثبت پہلووں کو اجاگر کرنے سے وہ انسداد وبا کی کوششوں میں  انسانی جانوں کے تحفظ اور صحت عامہ کے فروغ سے  سماج کو توانائی فراہم کر رہے ہیں۔

چین نے اگر نوول کورونا وائرس کے خلاف کامیابیاں سمیٹی ہیں تو اس میں چینی میڈیا کا بھی ایک کلیدی کردار رہا ہے۔چینی میڈیا نے نہ تو سنسنی پھیلائی اور نہ ہی عوام کو مایوس کیا بلکہ شفافیت ،غیر جانبداری اور حقائق کے تحت بروقت تمام لازمی امور سے عوام کو آگاہ رکھا۔ چینی میڈیا نے ایسے تمام افراد کو ہیروز کے طور پر پیش کیا جو انسداد وبا کی کوششوں میں مصروف رہے جن میں طبی عملے سمیت امدادی کارکنوں کا تذکرہ قابل ذکر ہے۔اسی باعث عوام کے مورال میں بھی اضافہ ہوا اور آگاہی کے فروغ سے انہیں وائرس کی تباہ کاریوں سے خود کو محفوظ رکھنے میں مدد ملی۔

اگر مغربی میڈیا کی بات کریں تو چند اداروں کی توجہ کا نکتہ آج بھی وائرس کا ماخذ اور سازشی نظریات پر بات کرنا ہے۔اس سے قطع نظر کہ وائرس سے متعلق سائنسدان اور ماہرین ہی حتمی رائے دے سکتے ہیں ،میڈیا ادارے  بھی وائرس کو “سیاسی رنگ” دینے میں بھرپور مصروف ہیں۔اس کا ایک نقصان تو یہ ہوا کہ مغربی معاشروں میں ایشیائی باشندوں کے خلاف امتیازی سلوک کے کئی واقعات سامنے آئے اور  دوسرا کئی ممالک کی ساکھ کو بھی منفی رپورٹنگ کے باعث نقصان پہنچا۔یہاں اس بات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عالمگیریت کے اس دور میں پوری دنیا ایک دوسرے سے منسلک  ہے اور یہی حال میڈیا اداروں کا بھی ہے۔کسی ایک بڑے میڈیا ادارے کی جانب سے سامنے آنے والی معلومات فوری دنیا کے دیگر میڈیا اداروں تک پہنچ جاتی ہیں۔مصدقہ یا غیر مصدقہ کا تذکرہ تو الگ بات ہے کیونکہ عوام کی کثیر تعداد بھی میڈیا کی معلومات پر ہی بھروسہ کرتی ہے اور  یہی معلومات بناء کسی توقف کے فوری آگے پہنچا بھی دی جاتی ہیں۔

عالمگیر وبا کی روک تھام میں جہاں ہم عالمی ممالک کے درمیان اتحاد و تعاون پر زور دیتے ہیں وہاں دوسری جانب میڈیا اداروں کو بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور وبا کے خلاف جنگ میں صحت عامہ کے تحفظ سے اپنا اہم کردار ادا کرنا چاہیے۔ آزمائش کی اس گھڑی میں میڈیا انسانیت کے تحفظ  اور فلاح و بہبود کے لیے اپنے آگاہی کردار سے انتہائی مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔اسی چیز کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے حالیہ دنوں بیلٹ اینڈ روڈ نیوز نیٹ ورک کی جانب سے دنیاکے اٹھانوے ممالک کے دو سو سے زائد میڈیا اداروں کو  ایک کھلا خط تحریر کیا گیا  جس میں زور دیا گیا کہ عوام کو امید ،حمایت اور اتحاد  کا پیغام دیں۔عوام کو بتایا جائے کہ کس طرح چند ممالک نے انسداد وبا کے بہتر اقدامات سے وبا پر موئثر طور پر قابو پایا ہے ،عوام میں ایک دوسرے کی مدد کے جذبات کو فروغ دینے کے لیے میڈیا کام کرے۔

اس بات سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ جب عوام متحد ہوں گے تو کسی بھی چیز کا حصول دشوار نہیں ہو سکتا ہے۔نوول کورونا وائرس کے خلاف بھی فتح کے حصول کے لیے پوری دنیا کو ایک متفقہ لائحہ عمل اپنانا ہو گا، آپسی سیاسی اختلافات اور الزام تراشی کی مزید گنجائش نہیں ہے۔ عالمگیر وبا کو شکست دینے کے لیے عالمگیر تعاون بنیاد ہے۔اگر وائرس بناء کسی تمیز اور تفریق کے امیرغریب،چھوٹے بڑے  ، ہر ایک کو نشانہ بنا رہا ہے تو ایسے دشمن کے خلاف جیت کے لیے انسانیت بھی بناء کسی تمیز کے یکساں اور مشترکہ ردعمل کا مظاہرہ کرے۔

جواب چھوڑ دیں