کرونا کے تیسرے پہلو سے اقتباس

یہ بھی تو عین ممکن ہے کہ کرونا سعودیہ کی معیشت کو مقروض کرنے کے لیے ہو، تبھی تو پیٹروڈالر گرا دیا گیا… ترک معاہدہ ختم ہونے والا ہے نا اور ورلڈ بینک کو نیا کسٹمر بھی درکار تھا…خیر جانے دیجیے یہ میری اپنی سوچ ہے آپ اپنا سوچیے… خیالات میں اختلافات ہونے چاہیں نا… یہ تو ایک پتھر ہے امید ہے اب اس پہ کافی لوگ وٹے ماریں گے… آخر حقائق دنیا کے سامنے ابھی سے آنے چاہیں کہ آلِ سعود کے ہونے سے کیا فوائد تھے اور ان کے جانے سے جو نقصانات ہو سکتے ہیں ان کی پہلے سے پیش بندی کی جا سکے…

آپ بھی ڈرامے دیکھیے وہی آزادی والے. امراء کو فرق نہیں پڑتا غریب کی سوچ روٹی ہے درمیانے طبقے کی اوپر والی کلاس کو اپنے وزرائے اعظم کو سپورٹ کرنا ہے۔ رہتے تو ہم جیسے لوئر مڈل کلاس ہیں جنہیں یہ دکھ بھی کھا رہا ہوتا ہے کہ اگلی نسلیں بھی غلام ہی ہوں گی…نہیں نہیں ہم تو آزاد ہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان… جہاں پہلے ٹی وی مسلمان ہوا اور مسجدوں میں آیا کچھ مدد موبائل- فون نے کی اللہ اسے سلامت رکھے بہت کام  کی چیز ہے بہت سارے گھر اس کی طفیل اجڑ گئے مگر وہ کہتے ہیں نا کہ مثبت سوچنا چاہیے تو وہ جو اجڑے ہیں انکے طفیل کچھ نئے گھر آباد بھی ہوئے ہیں….. پھر کچھ سگریٹ کے فوائد پہ بحث ہوئی تمباکو کمپنیوں نے لوگ خریدے پھر لوگوں نے تمباکو خیر… سگریٹ بھی مسجد تک پہنچ ہی گئی….

تو وہ، میں یہ کہہ رہا تھا کہ کرونا سے زیادہ لوگ تمباکو نوشی سے مرتے ہیں اور اللہ کا شکر کہ ہر سال مرتے ہیں… اب سگریٹ والا کہتا ہے کہ کیا سگریٹ چھوڑ دیں… خیر سگریٹ والے کے پاس بھی دلیل ہے کہ شوگر سگریٹ سے تین گنا زیادہ لوگوں کی جان لیتی ہے تو کیا لوگ میٹھا کھانا چھوڑ دیں… نہیں بھائی آپ چلاؤ اپنی انڈسٹری….دیکھنے میں آیا ہے کہ کرونا کے آنے سے آپریشن کم ہو گئے ہیں خواہ فوج کے ہوں یا میڈیکل کے…… جرائم کی شرح بھی کم ہوئی ہے……. سوال یہ ہے کہ یہ کارپوریٹ ہسپتال کیا کرتے ہیں….. بے تُکا سوال نہیں ہو گیا؟

بھلا کوئی جان بوجھ کر آپریشن تجویز کیوں کرے گا…. ہارٹ اٹیک بھی نہیں ہو رہے ایکسیڈنٹ بھی بند ہیں…وہی اسلامی جمہوریہ پاکستان…اقلیتوں کا اتنا زیادہ خیال کرتے ہیں کہ خدا کی پناہ آپ اس بات سے اندازہ لگائیں کہ صرف رمضان میں ہی گراں فروشی 70 فیصد تک جاتی ہے وگرنہ سارا سال محض 50 فیصد رہتی ہے اور کرسمس وغیرہ پہ ہم اس کو کم کرکے 30 فیصد تک لے جاتے ہیں… کیونکہ اقلیتوں کے حقوق زیادہ ہیں…

صرف بجٹ ہی سود پہ بنتا ہے اور وہ بھی کیسا سود ہوا بھلا ہم ہر سال بدلے میں اپنی کوئی نا کوئی چیز بیچ تو رہے ہیں ورلڈ بینک کو… صرف ساری روڈز موٹروے سمیت یا چند ائیر پورٹس جو پاکستان میں موجود ہیں وہی رہن رکھے ہیں یا پھر سرکاری امارات.. خیر نالائق لوگ 90 کی دہائی سے پہلے قرضے کیوں نہیں لیتے تھے بےوقوف لوگ…. اب بس ایٹم بم رہتا ہے وہ ویسے ہمارے کام کا نہیں رہے گا کیونکہ اگلی جنگ تو بائیو کیمیکل ہتھیار سے ہی ہو گی بہتر ہے ابھی قرضہ لے لیں تاکہ ریٹ کم نہ ہو جائے… خیر ہمیں کیا…

ہمیں تو اپنے قبلے سے مطلب ہے جس پہ آل سعود نے قرضہ لینا ہے تاکہ عیاشی کا سلسلہ نہ رک سکے اور ویسے بھی ساری زندگی ساری امت مسلمہ نے قرض اتارنا ہی ہے سود وغیرہ کچھ نہیں ہوتا وہ پہلے جنگ ہوتی تھی اللہ اور اس کے رسول سے اب تو ماشاءاللہ ہمارے علماء کرام نے اسی سودی معاشی نظام کے تحت اپنی بینک کاری شروع کی ہوئی ہے اور اسے بھی اسلامی بینک کاری کا نام بھی دے دیا ہے تو یہ سود کیسے ہوا… اور حرام تو قطعاً نہیں… علماء کرام سرپرست ہیں غلط ہو ہی نہیں سکتا…. (ہفتے والے دن مچھلیاں)

اب تو سنا ہے کہ امام کعبہ صاحب جوا خانوں کے افتتاح وغیرہ بھی کر دیتے ہیں جدید زمانہ ہے تو ساتھ چلنا پڑتا ہے… ہو سکتا ہے مستقبل قریب میں جوا بھی مسلمان ہو جائے کیونکہ جواری سارے مسلمان ہوں گے اور اگلے قدم پہ علماء کی سرپرستی میں ہوا کرے اسلامی قوانین کی روشنی میں نفع نقصان کو مدنظر رکھ کر تاکہ دونوں چانسز ہوں اور یوں یہ بھی دائرہ اسلام میں داخل ہو جائے… خیر یہ تو معرفت کی باتیں ہیں….

کرونا نے کتنے امراض کا خاتمہ کر دیا… کیسے؟ کیا یہ امراض واقعی تھے یا یہ بقول پی کے “ڈر کا کاروبار کرتے ہیں” انسان اعتبار کس پہ کرے گا خود پہ؟؟؟ کیسے ہم تو سارے ہی فلمیں ہیں !! الحمدللہ….نہیں تو چھت پہ کھڑے ہو کر اذان دینے سے قبل چھت کے نیچے دیکھ لیجیے کیا کچھ ذخیرہ کیے ہوئے ہیں….اللہ پاک ہم سب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین۔

جواب چھوڑ دیں