خلیفہ چہارم حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالٰی عنہ

“کل میں علم اس شخص کے ہاتھ میں دوں گا جس کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ فتح عطا فرمائے گا۔” غزوہ خیبر کے موقع پر آپ ﷺ نے یہ الفاظ ادا فرمائے اگلے دن حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ علی صبح لشکر میں آکر ملے اور حضورﷺ نے جب علم آپ کے ہاتھ میں دیا تو  اس وقت آپ کی آنکھیں دکھ رہی تھیں حضور ﷺ نے ان آنکھوں پر اپنا لعاب دہن لگا یا اور اللہ کے حکم سے آنکھیں ٹھیک ہوگئیں۔  خیبر یہویوں کا سب سے بڑا گڑھ جہاں آکر مدینہ کے اطراف سے یہودیوں نے اپنی قوت جمع کی تھی حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بہادری کے آگے نہ ٹہر سکا اور بالا آخر فتح ہوا۔

حضورﷺ اپنے خاندان میں اللہ کی دعوت پہنچانے کے لیے تمام قریش کے لوگوں کو دعوت دی اس دعوت کا بڑا عجیب منظر ہے ۔قریش کے تمام افراد اس دعوت میں شریک ہیں اختتام پر اللہ کے رسول ﷺ نے اللہ کا بیغام سنایا جس پر بعض شرکاء نے شدید مخالفت کی مگر اللہ کی مرضی اور فیصلے عجیب ہوتے ہیں یہ سعادت حضرت علی کی جھولی میں آئی آپ نے بڑھ کر اسلام کے لیے اپنے آپ کو پیش کردیا باوجود اس کے کہ آپ ابھی دس یا گیارہ سال کے  ہی تھے کمزور اور ناتواں ؎

                               یہ رتبہ بلند ملا جس کا مل گیا     ہر مدعی کے واسطے دارورسن کہاں

حضرت علی ابن ابی طالب، آنحضور کے چچا زاد بھائی آپ حضور ﷺ کے زیر تربیت رہتے آپ ﷺ بھی حضرت علی سے بے حد محبت کرتے ۔حضور کی خدمت میں ہر وقت حاضر رہتے ۔یہ وہ زمانہ تھا جب آپ ﷺ خاندان قریش کے لوگوں اور خاص قریبی افراد تک دعوت پہنچاتے ان کو صرف اللہ کی بندگی ،رسالت اور آخرت پر ایمان لانےکی تلقین کرتے ایک ایک کرکے معاشرے کی سعید روحیں اسلام کی جھولی میں آ آکرگررہی تھیں۔ دوسری طرف مخالفت کا محاذ بھی گرم ہوتا جارہاتھا۔

آپ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اپنی سر پرستی میں لے لیا تھا اور اپنے چچا زاد بھائی کی ہر طرح کی ضروریات کا خیال کرتے۔  بچپن سے لے کر حضور ﷺ نے ان کی بہترین تربیت کی تھی جیسا کہ ایک شفیق بھائی کرتاہے ۔حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ” ہارون علیہ السلام کو جو نسبت موسیٰ علیہ السلام سے ہے وہی نسبت علی رضی اللہ تعالٰی کو مجھ سے ہے مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں” حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی حضور اکرمﷺ سے بے حد محبت کرتے جانثاری میں آپ اپنی مثال تھے مواخات کےموقع پر آنحضورﷺ نےدنیا اور آخرت میں حضرت علی کو اپنا بھائی بنایا ۔آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ ذہین اور صاحب علم تھے آپ ایک بہادر اور نڈر شہسوار تھے ۔ دربار رسالت ﷺ سے آپ کو اسد اللہ کا خطاب ملا۔ اس کے علاوہ حیدر اور کرار بھی آپ کے القاب ہیں ۔

ہجرت کے وقت آپ ﷺ نے اپنے بستر پر حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو لٹا یا اور امانتیں ان کے سپرد کی اور کہا کہ صبح امانتیں جن لوگوں کی ہیں ان کے حوالے کرکے مدینے آجائیں۔ ادھر دارلندوہ میں یہ فیصلہ ہوچکا کہ نعوذ بااللہ حضورﷺ جیسے ہی گھر سے باہر نکلیں ان کو تلواروں کے وار سے یک بارگی میں قتل کردیا جائے یہ وہ دشمنان خدا اور رسولﷺ تھے جن کی امانتیں حضور ﷺ کے پاس رکھی تھی جوکہ حضور ﷺ کی سچائی اوردیانتداری کے قائل تھے اور آپ ﷺ کو صادق اور امین کہتے تھے۔ آدھی رات کو حضورﷺ سورہ یٰسین کی تلاوت کرتے ہوئے نکل گئے اور صبح حضرت علی کو جب دیکھا تو انکی ساری تدبیریں  ناکام ہوچکی تھیں اور حضور ﷺ بحفاظت نکل چکےتھے۔

مدینے ہجرت کے بعد حضورﷺ نے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا نکاح اپنی سب پیاری بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنا سے کیا سرورکائناتﷺ کی صاحبزادی کا یہ نکاح سادگی کی ایک مثال ہے چونکہ حضور ﷺ حضرت علی کے کفیل تھے اس لیے آپ نے ان کو کچھ ضروریات زندگی کا سامان خرید کردیا یہ جہیز نہیں تھا بلکہ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ چونکہ حضور ﷺ کے زیر کفالت تھے اس لیے یہ سامان آپ ﷺ نے ان کو دیا تھا اور ایک کرایے کے مکان کا بندبست کیا اوراپنی پیاری بیٹی کو خود رخصت کرآئے۔ اس طرح اس مثالی جوڑے نے اپنی ازدواجی زندگی کا آغاز کیا اسی  پاکیزہ گلشن میں حسن و حسین رضی اللہ تعا لٰی عنہما جیسے گل سرصبد کھلتے ہیں۔

ان ہی ہستیوں نے سب سے پہلے خلافت کو ملوکیت کے ڈگر پر جانے روکنے کے لیے جدوجہد کی اور اس راستے میں اپنی اور اپنے خانوادے کی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ ہجرت کے بعد سے لے کر آنحضور ﷺ کی رحلت تک تقریبا تمام غزوات و سرایا میں کفر کے خلاف صف آراء رہے اور داد شجاعت دیتے رہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ پڑھنا لکھنا جانتے تھے ۔ آپ نے کئی کتابیں تصنیف کی اور آپ نے سب سے پہلے عربی صرف ونحو کے قواعد و اصول متعین کیے۔ آپ عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں۔ آپ مہمان نواز ، جہاد فی سبیل اللہ اور سخت گرمیوں کے روزے پسند فرماتے ۔

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ 19 رمضان 40ھجری بمطابق 660 عیسوی کو نماز کے دوران زخمی ہوئے اور دودن بستر علالت پر رہنے کے بعد شہادت پائی۔حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حیات مبارکہ ایک مکمل سمع واطاعت کا استعارہ ہے اس کا آغاز پچپن سے زندگی کی آخری گھڑی تک ہے ۔

جواب چھوڑ دیں