ماں سجدے میں رہتی ہے

ماں جیسا مخلص رشتہ اور کوئی نہیں کیونکہ ماں کی محبت مصنوعی نہیں ہوتی ،اس کے عمل میں دکھاوا نہیں ہوتا۔ بلکہ ماں وہ ہستی ہے جو اپنی اولاد کے دلوں کے بھید جانتی ہے، ان کی خوبیوں کو اجاگر کرتی ہے، ان کی خامیوں کی پردہ پوشی کرتی ہے۔ جو اولاد کی خوشی میں خوش، ان کے غم میں ان کی دل جوئی کرتی ہے، اولاد کی کامیابی پر خوشی سے نہال اور ناکامی پر دل گرفتہ ہوتی ہے۔ خالق کائنات کے بعد ماں ہی وہ واحد ہستی ہے جو لائق، نالائق، صالح، بد اعمال، اپنے سارے جگر گوشوں کے ساتھ یکساں پیار کرتی ہے۔

وہ اپنی اولاد سے پیار اس کی ڈگری، منصب، اہلیت کی بنیاد پر نہیں کرتی۔ اس کا میرٹ صرف اور صرف اس کی کوکھ سے جنم لینے والا بچہ ہے۔ ہاں کبھی کبھار کسی ایک بچے کو اپنی ہتھیلی کا چھالہ بنا لیتی ہے۔ اس کو نہیں جو سب سے ذہین، فطین یا خوبرو ہے بلکہ اس کو جو کمزور ہو، زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ چکا ہو، یہ وصف صرف اور صرف ماں کے رشتے میں ہے اور کسی میں نہیں۔ انسان تو انسان چرند، پرند حتیٰ کہ حیوان جانوروں کی ماں بھی اپنے دل میں اولاد کا درد رکھتی ہے ۔ مشہور واقعہ ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ جارہے تھے تو انہوں نے ایک درخت کے اوپر گھونسلا دیکھا جس میں بہت خوب صورت چھوٹے چھوٹے چڑیا کے بچے تھے۔ ان بچوں کی ماں دانہ چگنے کے لیے کہیں گئی ہوئی تھی۔

صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو چڑیا کے یہ بچے بہت پیارے لگے انہوں نے فرط محبت سے انہیں پکڑ لیا اور لے کر چل دیے۔ کچھ ہی آگے گئے تو اتنے میں چڑیا بھی آگئی۔اس نے جب اپنے بچو ںکو غائب پایا تو بے چین ہوکر تلاش کرنے لگی۔ اس دوران اس نے پہچان لیا کہ اس شخص کے پاس میرے بچے موجود ہیں، وہ ان کے سر کے اوپر چکر لگانے لگی۔ ممتا کے ہاتھوں مجبور آوازیں نکالتی اور چکر لگاتی رہی۔ یہ صحابی اس کا مقصد اس کا مدعا نہیں سمجھے۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ چڑیا ان کے کندھے پر آکر بیٹھ گئی۔ انہوں نے اس چڑیا کو بھی پکڑ لیا۔ صحابی رسول نے عجیب جان کر پورا واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوآکر سنایا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ماں ہے، جب تم نے اس کے بچوں کو پکڑ لیا۔

یہ تمہارے سر کے اوپر چکر لگاتی رہی فریاد کرتی رہی، منت سماجت کرتی رہی کہ میرے بچوں کو چھوڑ دے۔ مجھے اپنے بچوں سے جدا نہ کر۔ تم اس کی بات نہیں سمجھے۔ جب تم نے اس کے بچوں کو نہ چھوڑا تو اس ماں نے یہ فیصلہ کیا کہ میں بھی اپنی آزادی اپنے ننے منے بچوں کی خاطر قربان کرتی ہوں۔ میں بھی اپنے آپ کو گرفتار کرو ادیتی ہوں۔ گرفتار تو ہو جاؤں گی مگر اپنے بچوں کے ساتھ تور ہوں گی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم جاؤ اور اس چڑیا اور اس کے بچوں کو واپس اسی گھونسلے میں چھوڑ کر آؤ۔

بلاشبہ ماں جیسا رشتہ اور کوئی نہیں، دنیا میں صرف ایک ہستی ماں ہے جو گرمیوں میں بچوں کو پنکھے کے عین نیچے سلاتی ہے اور خود دور سوتی ہے تاکہ اس کے لخت جگر کو گرمی نہ لگ جائے۔ بجلی چلی جائے تو دستی پنکھے سے، گتے کے کسی ٹکڑے سے، ہر ممکن طریقہ سے پنکھا جھلتی ہے تاکہ اس کے جگر گوشہ کی آنکھ نہ کھل جائے۔ اس کو مچھر نہ کاٹیں، ایسے وقت وہ خود گرمی کے پسینہ سے نہائی ہوتی ہے۔ لیکن اپنے لئے وہ ہوا کا ایک جھونکا بھی بچا کر نہیں رکھتی۔ سب اپنے بچے پر نچھاور کر دیتی ہے۔ یہ صرف ماں ہے جو بچے کی پہلی آواز، پہلی پکار پر لبیک کہتی ہے، دنیا میں ایسی کوئی ہستی نہیں۔ ماں تو محبت ہے، گداز ہے ، نرم ہے، ریشم ہے، لطافت ہے، وارفتگی ہے، مٹھاس ہے۔

اس کو تو سب گوارا ہے اولاد کا ہر ناز پیارا ہے کیونکہ وہ ماں ہے۔ یہ ماں ہے جو چلچلاتی دھوپ میں کھڑے ہو کر اپنے بچوں کا انتظار کرتی ہے۔ ان کو اپنے ہاتھوں سے نوالہ کھلاتی ہے۔ یہ صرف اور صرف ماں ہے جو سب سے آخر میں کھانا کھاتی ہے تاکہ اس کے بچے پیٹ بھر کر کھا سکیں۔ وہ محض اس لئے بچا کھچا کھاتی ہے کہ کہیں بچوں کو ان کی غربت اور کم مائیگی کا احساس نہ ہو۔ وہ محض اس لئے کم کھا کر، کبھی بھوکے پیٹ سو جاتی ہے کہ کہیں اولاد بھوکی نہ رہ جائے۔ بقول شاعر؎

                              ماں  کتنی  ٹھنڈک  ہے  تیرے  نام  کے ان  حرفوں  میں

                             لب پہ آتے ہی تپتی دھوپ بھی گھنی چھاؤں لگنے لگتی ہے

                              تیرا سایہ  رہے مجھ  پر  میری  زندگی کی آخری حد  تک

                              ماں تجھے اک دن نہ دیکھوں تو زندگی بری لگنے لگتی ہے

یہ ماں ہے جس کے لئے اس کی اولاد ہمیشہ بچہ ہی رہتی ہے۔ چاہے اس کے عمر رفتہ کے ساتھ بال سفید کیوں نہ ہو چکے ہوں۔ یہ ماں ہی جو اپنے بچوںکی ایک ایک، شرارت ہر ایک حرکت کو، گزرے ہر دن کو ضروری آموختہ کی طرح دل کی کتاب میں محفوظ رکھتی ہے۔ یہ ماں ہے جس کو بچے کا بولا گیا پہلا لفظ، رینگنے، اپنے قدموں پر چلنے کا پہلا دن ہمیشہ یاد رہتا ہے۔ بیٹی کی پیدائش کے دن سے ہی اس کی رخصتی کیلئے پیسہ پس انداز کرنا شروع کر دیتی ہے۔ ایک ایک جوڑا بنا کر جہیز تیار کرتی ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بڑے چاؤ اور شوق سے بنوائی کوئی معمولی بالی، ہاتھ کی چوڑی نکال کر بچے کی خواہش پر قربان کر دیتی ہے۔ ایسے کرتے ہوئے وہ کسی کریڈٹ کی طلب گار ہوتی ہے نہ ستائش کا مطالبہ کرتی ہے۔

بستر مرگ تک اولاد کے لئے تڑپنے، بے چین ، بیقرار و بے کل رہنے والی اس ہستی کے لئے ، ماں کے لئے صرف ایک دن کیوں؟ دن کے 24 گھنٹے، ہفتے کے سات روز، سال کے 365 دن، سب اس کے نام، سارے اس کے لئے، صرف ماں کیلئے۔ ہم ماں کی کسی شفقت اور مشقت کا بدلہ تو ہرگز نہیں چکا سکتے بس یہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ماؤں کی قدر کرنے کی توفیق عطاء فرمائے، بقول شاعر؎

    یہ ایسا  قرض ہے جو میں اداکرہی نہیں  سکتا    میں جب تک گھرنہ لوٹوں میری ماں سجدے میں رہتی ہے

جواب چھوڑ دیں