مثالی شریکہ حیات

مجھے اُڑھاؤ.. مجھے اُڑھاؤ.. مجھے اُڑھاؤ..آپ کو اُڑھا دیا گیا۔ جب آپ پر سے خوف زدگی کی کیفیت دور ہوئی تو آپ نے  فرمایا کہ “اے خدیجہ مجھے یہ کیا ہوگیا  پھر سارا واقعہ آپ نے حضرت خدیجہ کو کہ سنایا اور کہا ” مجھے اپنی جان کا ڈر ہے “ہر گز نہیں آپ خوش ہوجایئے ۔ خدا کی قسم ہر گز آپ کو خدا رسوا نہیں کرے گا آپ رشتہ داروں کے ساتھ نیک سلوک کرتے ہیں ، سچ بولتے ہیں ، (اور ایک روایت میں اضافہ ہےکہ امانتیں اداکرے ہیں )بے سہارا لوگوں کا بار برداشت کرتےہیں۔نادار لوگوں کو کما کر دیتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں ۔ اور نیک کاموں میں مدد رکرتے ہیں”۔

یہ حقیقت ہے کہ  کسی مرد کے کردار کو اس کی بیوی سے زیادہ کوئی انسان نہیں جانتا ۔آج دنیا میں چاہے عام آدمی ہو یا عوامی قائدین ہوں، کم ایسےلوگ ہوں گے جن کا ایک ہی چہرہ ہوگا  اکثر لوگوں کے دو چہرے ہوتے ہیں اور وہ مختلف کرداروں کےحامل ہوتے ہیں۔ گھر کے اندر کا کردار اور چہرہ  الگ ہوتاہے اور عوام کو پیش کرنے کے لیے چہرہ اور کردار الگ ہوتاہے۔ اوپر کے فقرے صاف بتارہے ہیں کہ حضرت خدیجہ جو کہ آپ ؐ کی زوجہ محترمہ تھیں آپ کے کردار سے کتنا واقف تھیں۔ اور آپ ؐ کے دوسرے انسانوں کے ساتھ برتاؤ سے بھی خوب اچھی طرح واقف تھیں۔ آپ ؐ کا کردار جیسا گھر کے اندر تھا بالکل وہی کردار آپ ؐ کا اور دوسرے انسانوں کے ساتھ تھا۔اس میں کوئی تضاد نہیں تھا۔

حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ مجھے آپؐ کی بیویوں میں سے کسی پر اتنا رشک نہیں آیا جتنا خدیجہ پر آیا  حالانکہ میں  نے  ان کو دیکھا تک نہیں ۔ حضورؐ ان کو کثرت سے یاد کرتے ۔  حضرت  عائشہ کبھی کبھی کہ دیتیں کہ  ” خدیجہ ہی دنیا میں ایک عورت ہے  حضورؐ فرماتے کہ ” خدیجہ کے کیاکہنے وہ تو ایسی تھی ۔اور ایسی تھی (ان کی صفات بتاتے)اور اس سے میری اولاد ہوئی۔”

نام خدیجہ  لقب طاہرہ اور آپ کا تعلق قبیلہ قریش سے تھا۔آپ بچپن سے ہی انتہائی  شریف النفس تھیں ۔ جس وقت مکہ تمام برائیوں کی آماج گاہ بناہو اتھا اس وقت معاشرے میں طاہر کے لقب سے جانی جاتی تھیں۔آپ نے بتوں کی پوجا سے بھی اپنے آپ کو محفوظ رکھا ہوتھا۔ آپ ایک ذہین خاتون تھی ۔آپ صابراور نہایت رحم دل اور منکسرالمزاج تھیں ۔آپ  کا پہلا نکاح ابوہالہ اور ان کے انتقال کے بعد دوسرا نکا ح  عتیق سے ہوا اور ان کا بھی انتقال ہوگیا۔ آپ  کے والد اور شوہر کے انتقال کے بعد آپ کے لیے مشکل ہوگیا کہ مال تجارت کی دیکھ بھال کون کرے اسی اثنا میں ابو طالب کو یہ خبر ملی تو  انہوں نے آپ ؐ سے کہا کہ  حضرت  خدیجہ کا مال تجارت شام جانے والا ہے اور ان کو دیکھ بھا ل کے لیے ایک فرد کی ضرورت ہے اگر میرے پاس سرمایہ ہوتا تو میں تم کو مہیا  کرتا  تم ان سے رابطہ کرو۔

چونکہ حضور ؐ پہلے ہی سے مکہ  میں صادق و امین کے لقب سے مشہور تھے  جب یہ  پیش کش حضرت خدیجہ کو پہنچی تو وہ بخوشی اپنا مال  تجارت آپؐ کے حوالے کرنے پر راضی ہوگئیں  اور آپ ؐ کے ساتھ اپنا ایک غلام کردیا۔ تجارتی قافلہ جب شام  سے واپس  آیا تو اس کو کافی منافع  ہوا۔ راستے کے تمام احوال غلام نے حضرت خدیجہ کو بتایا اس پر آپ بہت متاثر ہوئیں۔ کچھ ہی دنوں کے بعد خدیجہ بن خویلد نے اپنے ایک سہیلی نفیسہ کے زریعے حضور ؐ کو نکاح کا بیغام بھیجا جو کہ حضورؐ نے اپنے چچا ابوطالب اور دیگر خاندان کے بزرگوں کے مشورے سے قبول فرمایا  نکاح  آپ ؐ کے شفیق چچا ابوطالب نے پڑھایا اور  حضرت خدیجہ کی خوش نصیبی کہ دنیا کا بہترین  گوہرنایاب آپ کی جھولی میں آیا  اور آپ حضور ؐ کی حرم میں داخل ہوئیں۔

حضرت خدیجہ کی عمر اس وقت چالیس سال اور  حضور اکرم ؐ کی عمر مبارک صر ف پچیس سال تھی ۔زندگی کا یہ سفر نہایت الفت و محبت کے ساتھ  جاری ہوا  حضرت خدیجہ آپ ؐ سے  شدید محبت کرتی آپ ؐ کے تمام کام اپنے ہاتھ سے کرتی   ۔سب سے پہلے آپ نے  حضور ؐ کی رسالت کی تصدیق کی  اور سب سےپہلے مومنہ ہونے کا شرف پایا ۔آپ نے اپنا تمام مال  حضورسروکائنات ؐ کے قدموں میں نچھاور کردیا ۔

اعلان نبوت کےبعد جب  لوگ آپؐ کی تکذیب کرتے تو حضرت  خدیجہ کو گہرا رنج ہوتا ۔ اور فرائض نبوت  کی ادائیگی اور اس کے دوران پیش آنے والے واقعات  جب  نبی مہربان ؐ کو رنجیدہ اور دکھی کرتے تو آپ کو تسلی دیتی ، آپ ؐ کا حوصلہ بڑھاتی ۔حضرت خدیجہ آپ ؐ کے لیے ایک شجر سایہ دار کی طرح تھیں ۔

حضرت خدیجہ سے  آپؐ کی چھ  اولاد یں ہوئیں  جن کے نام  حضرت قاسم   ، حضرت زینب ،  حضرت عبداللہ  حضرت رقیہ ، حضرت ام  کلثوم ، حضرت  فاطمۃالزہ، آپ  نےگھر کی  ذمہ داریاں بحسن خوبی ادا کی اور اپنی اولادوں  کی بہترین تربیت کی  ۔ حضرت  خدیجہ کے پہلےدو شوہروں سے بھی اولادیں تھیں  آپ ان سے بھی غافل نہیں ہوئیں بلکہ  کی بھی اچھی تربیت کی ان کے اندر بھی حضور ؐ سے محبت کا جذبہ بیدار کیا ۔

مکّے میں  جب داعئ اعظم ؐ نے اعلانیہ دعوت کا آغاز کیا تو مخالفت کا ایک طوفان تھا  جو آپ کی طرف بڑھنا شروع ہوا  مگر حضرت خدیجہ کا  مکے والوں پر ایک اثر تھا جس کی وجہ سے وہ حضور ؐ کو  وہ ابتدا میں اذیت دینے سے گریز کرتے ۔حتی ٰ کہ جب قریش اور دیگر  تمام قبائل نے مل کر آپ ؐ کی مخالف  شروع کی اور تمام  مسلمانوں کا  معاشی مقاطعہ کردیا اور  شعب ابی طالب میں حضور ؐ اور تمام مسلمانوں کے ساتھ رہنے پر مجبور کردیے گئے وہاں بھی حضرت خدیجہ ثابت قدم رہیں اور تین سال تک بھوک و افلاس کا مردانہ وار تمام مسلمانوں کے ساتھ مقابلہ کرتی رہیں۔

زندگی کے پچیس سا ل آپ نے حضور ؐ کے ساتھ گزارے ۔حضرت خدیجہ نے  حضور ؐ کے ساتھ محبت و ایثار  کی ایسی مثال قائم کی کہ حضور ؐ نے آپ کی حیات میں دوسرا نکاح نہ کیا ۔11 رمضان المبارک  10 نبوی سال ہجرت سے تین سال قبل  حضرت خدیجہ  داعئی اجل کو لبیک کہ گئیں ۔ آپ کی وفات کا حضور ؐ کو  گہرا صدمہ ہوا  اسی سال آپ کے شفیق چچا ابو طالب بھی دنیا سے رخصت ہوئے ۔ آپ نے اس سال کو عام الحزن یعنی غموں کا سال  قرار دیا۔

ایک مثالی رفیقہ حیات   کے طور پر آج بھی حضرت خدیجہ کی سیر ت  ہماری  خواتین  اسلام کے لیے  مشعل راہ ہے ۔یہی راستہ جنت الفردوس کا راستہ ہے ۔اسی راستے کو کھوٹا کرنے کے لیے  آج طاغوت اپنا پورا زور صرف کررہاہے ۔ امت مسلمہ کی خواتین کو اپنے شوہر کا باغی بنا رہاہے ۔ایک ہی گھر کے اندر اس نے نام نہاد حقوق کی جنگ پرپاکرنے کی کوشش کی ہے۔

اگر اس کا مقابلہ کرنا ہے تو خواتین کو  سیرت خدیجہ کو اپنانا ہوگا  ورنہ جس طرح آج عورت اپنے نام نہاد آزادی کے لیےمغربی افکار کی  تقلید میں میرا جسم میری مرضی کے نعرے لگارہی ہے  اور اس کو طاغوت  فحاشی اور عریانی کے سیلاب میں بہا کرلے جانا چاہتاہے۔ اس کے لیےدنیا بھی اندھیری ہونے والی ہے۔جس میں عورت محض ایک ٹشو پیپر سے زیادہ  قدر کی چیز نہیں رہے گی اور آخرت میں بھی  ایک بھیانک انجام  منتظر ہے۔

جواب چھوڑ دیں