عمر(رض) ایک ہی تھا

ہم نے دنیا کے مختلف ادوار میں مختلف حاکم دیکھے ہیں۔فرعون بھی دیکھے ہیں،نمرود بھی حتیٰ کہ چھوٹے چھوٹے صاحب اقتدار بھی۔وہ کس طرح اپنے آپ کو دوسروں سے ما فوق سمجھتے تھے اور کس قدر ان کے اور عوام کے ما بین فاصلہ تھا یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔

آج کے دور میں ان کی کرسی ہمارے ان حکمرانوں نے سنبھال رکھی ہے، جو اقتدار کے حصول کے وقت تو ہمیں نظر آجاتے ہیں، عوام  سے سلام و دعا کرلیتے ہیں؛ لیکن  اپنے مفاد کے حصول کے بعد میدان  سے ایسے غائب ہوجاتے ہیں جیسے ان کو کوئی موت آگئی ہو۔

البتہ جب ہم تاریخ کے اوراق پر نظر ڈالتے ہیں، تو ہمیں امیر المومنین عمر الفاروقؓ کی شخصیت کا  تذکرہ کرنا مناسب سا محسوس ہوتا ہے، جو نہ صرف ہمارے آڈیل ہیں بلکہ دیگر ادیان کے ہاں بھی ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔وہ ہر لحاظ سے آج کے حکمرانوں کی بنسبت عظیم تر نظر آتے ہیں۔ یہ منزلت و رفعت آخر ان کو کیونکر حاصل نہ  ہوتی ان کی عظمت کے ما ورا  بھی تو دنیا کی افضل  شخصیت آمنہ کے پھول حضرت محمد مصطفی ؐ کا ہاتھ تھا۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی منزلت کا اعتراف عام و خاص ہر فرد اس دعا سے کر سکتا ہے جو آپ ؐ نے آپ کے حق میں اللہ میاں سے مانگی تھی۔آپ ہی کے دور میں بڑے پیمانے پر کفار شکست خوردہ ہوئے جس کااندازہ ہم میں سے ہر کوئی”قادسیہ و یرموک،شام و مصر”کی فتح سے لگا سکتاہے۔

بحیثیت حاکم وقت کے آپ نے کبھی زور بازو اور قدرت کی ہوس میں عوام پر فوقیت نہیں جتلائی۔آپ اپنے اور عوام کے مابین کوئی فرق نہیں کرتے تھے۔آپ صاحب اقتدار ہونے کے باوجود اپنے ہاتھ کی کمائی کو ترجیح دیتے تھے۔ادھر حق و باطل میں فرق کرنے اور عدل وانصاف کا عالم یہ تھا کہ آپ کو ”الفاروق”کے لقب سے نوازا گیا۔

آپ کے ہی عہد مبارک میں امن و امان کا نظام بہتر ہوا۔ آپ نے دس سال اور کچھ ماہ اقتدار میں رہ کر وہ کر دکھایا جو آج تیس تیس سال اقتدارمیں رہنے والے نہیں کرسکے۔آپ رعایہ پروری میں دوسروں کے لئے مثال تھے۔ آپ کے دور مبارک میں ایسی ایسی انتظامی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئیں جس نے پوری دنیا کے نظام حکومت کو تبدیل کرکے رکھ دیا جس کا اندازہ آپ کے دور مبارک میں”فوجی،مالی اور پولیس کے محکموں کے قیام سے لگایا جا سکتا ہے۔

آج اگر دنیا بھر میں ممالک صوبوں میں میں تقسیم ہیں وہاں عدالتیں،بیت المال کا نظام قائم ہے؛جیل خانے ، فوجی چھائونیاں اور صحافت کا شعبہ قائم ہے؛مکاتب و اسکول(مدارس)سسٹم رائج ہے؛ سرائیں ، چوکیاں قائم  ہیں، مردم شماری کرائی جاتی ہے اور وظیفہ مقرر ہے”تو یہ آپ ہی کی آئڈیالوجی کے مرہون منت ہے،کیونکہ آپ ہی کی وساطت سے یہ چیزیں معرض وجود میں آئیں۔

باہمی مشاورت و معارضت آپ کے نزدیک کسی بھی اچھے فیصلے(Good judgment)کے لئے اساس کا درجہ رکھتے تھے۔جس کا واضح مثال بعض اوقات صحابہؓ کا آپ سے بعض احوال میں اختلاف کرنا تھا۔آپ کے نزدیک حق بات ہی حرف اول و آخر تھی۔یہی تو بات تھی جس کے باعث آج پوری دنیا میں آپ کی عدالت کے ڈنکے بجتے ہیں۔

ہر مشکل گھڑی میں خواہ وہ سماوی آفت ہو یا کوئی اور حاجت آپ اپنے عوام کی خدمت میں پیش پیش رہے۔ان کی ہر ضرورت پوری کی اتنی خوشحالی ہوئی کہ فقیر غنی ہوگئے۔کوئی زکاۃ لینے والا نہیں بچا۔انہی خصوصیات کی وجہ سے آج نہ صرف عالم اسلام بلکہ پورے عالم میں بسنے والی اقوام میں آپ کی شہرت کے  چرچے  ہیں۔

یورپ کے قانون دان طبقے میں آپ بابائے قانون سے جانے جاتے ہیں۔وہاں کے محکموں میں آپ کا نام درج ہے۔آج وہ آپ کی آئڈیالوجی اور مسلم سائنسدانوں کے ہمارے لئے چھوڑے گئے ترکہ پر عمل کرکے ترقی کے افق کو چھو چکے ہیں۔دوسری طرف ہمارے حکمران ہیں جن کا فریضہ تھا کہ وہ آپ کے ترکہ کو ضائع ہونے سے بچاتے لیکن وہ اتباع نفس میں اتنے آگے نکل چکے ہیں کہ امت مسلمہ آج پھر کسی” عمر” کی منتطر ہے۔

آج عوام کے لئے اپنے حکمرانوں سے ملنا ایک خواب ہی تصور کیا جاتا ہے۔ آج ہم ایمانی کمزوری کی وجہ سے آپس میں دست و گریباں ہیں اور باہر سے دشمن حملہ آور ہیں۔ایسے میں اتحاد کے بجائے ہم ایک دوسرے کی ٹانگے کھینچتے نظر آتے ہیں۔نتیجے میں ہماری معیشت تمام شعبہ جات میں بحران کی وجہ سے کمزور سے کمزور ہوتی جا رہی ہے،سودی نظام کے رائج ہونے کی وجہ سے ہم خدا سے اعلان جنگ کئے ہوئے ہیں۔

موجودہ حالات میں جبکہ کورونا نے دنیا کے کونے کونے میں تباہی پھیلا رکھی ہے اور جس کے باعث پاکستان میں بھی لاک ڈاؤن ہےاور عوام مشکلات سے دوچار ہے؛اس لیےہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہمارے حکمران کورونا وائرس سے پیدا ہونے والے بحران کے پیش نظر کو ئی مؤثرعملی اقدام کرتے؛لیکن ہمارے حکمران اس مشکل گھڑی میں بھی بروقت سنجیدہ اقدامات کرنے اور عوام کی مدد کے بجائے اپنے محلات میں بیٹھے کوسوں دور صرف زبان خرچی میں مشغول ہیں۔کوئی پرسان حال نظر نہیں آ رہا ہے۔ایسے میں ہم اللہ میاں کی بارگاہ میں محو دعا ہیں کہ اے پروردگارہ .! عمر تو ایک ہی تھا لیکن ہم پھر کسی عمر(رض) جیسے حکمران کے منتظر ہیں, ہمارے حال پر رحم و کرم فرما۔

جواب چھوڑ دیں