عذر لنگ

ارے یہ کیا؟ ۔۔۔۔۔۔ سبزی فروش اور پھل فروش اپنے ٹھیلے چھوڑ کر کہاں بھاگ رہے ہیں۔۔۔۔ اور یہ دوکان دار کہاں چلے گئے؟ والدہ نے جواب دیا کہ بیٹا! شاید پولیس والے آگئے ہیں ان کو پتہ چل گیاہے ۔ ابھی چند منٹ گزرے تھے کہ چند لوگ بازار میں داخل ہوئے ان کے ساتھ ایک سپاہی بھی تھا میں بغور ان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ ان کے ہاتھوں میں کاغذات تھے وہ ترازو اور اوزان اپنے پاس موجود پیمانے سے وزن کررہے تھے اور سبزیوں اور پھلوں کو اٹھا اٹھا کر دیکھ رہے تھے پوری مارکیٹ کا دورہ کرنے کے بعد چلے گئے۔

دوبارہ تمام دوکاندار آگئے مگر آج بھی  وہ بچپن کا واقعہ یاد آتاہے جب کبھی بازار جاتاہوں جس ٹھیلے پر جاؤ قیمت معلوم کرو اسی پھل اور سبزی کے الگ الگ دام ہوتے ہیں جب دوکاندار سے معلوم کرو کہ آخر ایک ہی چیز کے دام میں فرق کیوں ہے تو دوکاندار کہتاہے کہ اس کا مال خراب ہے میرا مال تازہ ہے جب کہ دیکھنے میں ایسا نظر نہیں آتاہے وزن میں نمایاں کمی ہوتی ہے۔

ایک قصائی کے پاس گیا اور اس سے ایک کلو گوشت لیا مگر جب وہ موصوف گوشت کے ٹکڑے کررہے تھے انہوں نے کمال ہوشیاری سے ایک بوٹی نیچے گرادی میں نے دیکھ کر نظر انداز کردیا کہ گویا دیکھا ہی نہیں انہوں نے گوشت تھیلے میں ڈال کر کہا یہ لیں جی اور میں نے پیسے دے کر جب دوسرے دوکاندار سے اس کا دوبارہ وزن کروایا تو وزن میں نمایاں کمی تھی میں وہیں سے کھڑے ہوکر کہا بھائی تم نے پورا ایک کلو گوشت نہیں دیا وزن کم ہے اس نے کہا کہ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے وزن پوراہے میں نے تھیلا اس کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا کہ دوبارہ وزن کرو۔ وزن کم نکلاپھر میں نے کہاکہ بھیا ذرا نیچے دیکھوں تم نے ایک بوٹی نیچے گرا دی تھی وہ سٹپٹا کر رہ گیا اور نیچے گری ہوئی بوٹی اٹھا کر تھیلے ڈالتے ہوئے کہا کہ گوشت کے ٹکڑے کرتے وقت   ایک بوٹی نیچے غلطی سے گرگئی تھی۔ اگر دن بھر یہ بوٹیاں غلطی سے نیچے گرتی رہیں تو شاید پانچ چھ کلو گوشت نیچے ہی جمع ہوجائے گاشام تک۔

ایسے واقعات عام طور پر پیش آتے رہتے ہیں۔ ہر حکومت  کا ایک شعبہ ہوتاہے جو کہ ملک کے اندر تمام بازاروں میں فروخت ہونے والی چیزوں کا معیار اور اس کی قیمت کا جائزہ لیتاہے کہ اشیاء کی قیمت اور معیار برقرار رہے ۔ ہمارے میں ملک میں بھی یقیناؔ یہ ادارہ موجود ہوگا مگر کسی ٹھنڈے کمرے میں ہوگا کسی سی سی ٹی وی کیمرے کی مدد سے اپنا یہ فرض نبھا رہا ہوگا۔حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم بھی اسی طرح کی اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوگئی تھی اور حضرت شعیب علیہ السّلام کے سمجھانے کے باوجود اپنے اس قبیح فعل سے باز نہ آئی۔ اور بالاآخر اللہ کا فیصلہ آیا اور پوری قوم پیوند خاک کردی گئی۔ بالکل اسی طرح کی صورت حال ہمارے بازاروں میں ہے ۔

حضورؐ نے فرمایا کہ (اشیائے صرف) پھیلانے اور بکھیرنے والے (دکاندار وتاجر) کو رزق دیا جاتا ہے( اس کی کمائی وتجارت میں برکت وترقی ہوتی ہے) اور ذخیرہ کرکے روک رکھنے والے پر اللہ کی طرف سے لعنت ہوتی ہے۔ (دارمی)اب تو پانی سروں کے اوپر سے ہی گزررہا ہے جب کہ حکمراں ہی کے دائیں بائیں  بڑے بڑے آٹے اور چینی کے تاجر ہی بیٹھے ہیں اوروزراء کی پوری ٹیم ہی کسی نہ کسی کاروبار میں مصروف ہے۔ کسی دانشورنے کہا کہ جب کسی ملک میں بادشاہ خود تاجر ہوگا تو وہاں کے بازاروں سے چیزیں غایب ہوجائیں گی۔

آج جبکہ ملک شدید تاریخی بحران سے گزرہاہے مردو خواتیں بزرگ راشن کی قطار میں نظر آرہے ہیں ۔ اور عوام آٹے ، چینی اور اسی طرح کی ان  چیزوں کی تلاش میں ہے کہ جو جسم و جان کے رشتہ کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے ۔ مگر آٹا اور چنیی بازاروں سے غائب ہے۔

                    دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف    اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

وہ جن لوگوں نے تبدیلی کے سہانے خواب دکھائے تھے اس کرپشن میں بھی وہی دوست نکلے کہ جنہوں نے آٹے اور چینی کا مصنوعی بحران پیدا کیا تھا اور اس کے پیچھے بھی وہی مکروہ کھیل تھا جس کا ذکر اوپر کی حدیث میں آیا ہے۔ اب تحقیقاتی رپورٹیں پے درپے آرہی ہیں پہلے وزیر اعظم صاحب کہ رہے تھے کہ آٹا اور چینی چوروں کےخلاف سخت کاروائی کی جائے گی اور اب تاریخی یوٹرن کی تیاری ہورہی ہے کوئی کہ رہا ہے کہ یہ آٹے اور چینی کے چور بہت مضبوط ہیں ان کے خلاف کاروائی سے برسر اقتدار پارٹی تقسیم ہوجائے گی۔

اس بات کے سامنے آتے ہی سمجھ آگئی ۔۔۔کہ اب کیا ہوگا۔ اور دل و دماغ کے پردے پر رسول اللہ ؐ کے زمانے کا وہ واقعہ آگیاجس میں فاطمہ بنت قیس  ۔۔۔سردار کی بیٹی نے چوری کی دربار نبویؐ میں  مقدمہ پیش ہوا ۔۔۔۔۔بیٹی قبیلے کے سردار کی تھی ۔ دنیا کی اس سب سے بڑی عدالت میں صحابہ اکرام بھی تشریف فرماتھے ۔ عدالت  میں صحابہ کے درمیان چے مگوئیا ں  ہوئیں   کہ سردار کی بیٹی ہے اگر اس کو سزا ہوئی تو سردار  ناراض ہوگا ۔اسامہ بن زید ۔۔حضور ؐ جن سے پر بڑی شفقت فرماتے  اکثر جب کسی کو کوئی سفارش کرانی ہوتی تو حضرت اسامہ بن زید کو بھیجا جاتا اس وقت بھی ایسی ہی صورت حال تھی کسی میں ہمت نہ ہوئی کہ اس خاتو ن کی سفارش کرسکے  ۔

فاطمہ بن قیس کی سفارش حضرت زید کے ذریعے حضور ؐ تک پہنچائی گئی ۔ حضور ؐ کا  چہرہ انور غصے سرخ ہوا آپ ؐ نے ارشاد فرمایا ۔۔یہ وہ الفاظ ہیں کہ جو کہ عدل و انصاف کی جان ہیں ان پر عمل کیے بغیر انصاف ممکن ہی نہیں۔” تم سے پہلے جو امتیں ہلاک ہوئیں اس کی وجہ یہ تھی کہ ان میں کا کوئی طاقتور  فرد اگر جرم کرتا تو وہ سزا سے بچ جاتا اور ان کا کوئی کمزور اگر کوئی جرم کرتا اس کو سزا دی جائی ۔”پھر لب اطہر سے یہ بھی الفاظ سنے گئے کہ ” اگر اس فاطمہ بنت قیس کی جگہ فاطمہ  بنت محمد ؐ بھی ہوتی تو اس کے ہاتھ بھی  میں کٹوا دیتا”۔

پاکستان کا مطلب کیا  لاالہ الااللہ۔۔۔۔بٹ کے رہے گا ہندوستان ۔۔۔  بن کے رہے گا پاکستان یہ وہ نعرے جن کی گونج سے پورا برصغیر جاگ رہاتھا۔  یہ تو وہ نعرہ تھا  جس کی بنیاد پر یہ ریاست مدینہ قائم ہوئی تھی ۔ لیکن دوبارہ  تجدید ریاست مدینہ کے علمبردار ۔۔۔۔بات سمجھ نہیں آرہی کہ اپنے پروں میں آٹا چور اور چینی  چوروں  کو کیوں پناہ دینے پر اصرار کررہے ہیں اوراس کے لیے عذر لنگ پیش کررہے ہیں کہ یہ چور بہت بااثر ہیں پارٹی کے اندر اور اس سے پارٹی تقسیم ہوجائے گی ۔کیا وجہ ہے کہ اگر یہ تحریک انصاف کا تالاب صاف پانی کا ہے تو اس میں ان گندی مچھلیوں کو پالا جارہا ہے۔ اصل میں ان چوروں کے بہت بڑے احسانات ہیں حکومت کی تشکیل میں اس لیے حکومت ہر ممکن کوشش کرے گی کہ ان کے احسانات کا بدلہ چکا دیا جائے۔

جواب چھوڑ دیں