آنکھ کا پہلا آنسو

 وہ گاؤں میں پیدا ہونے والا پرجوش نوجوان تھا، جس نے شہر جا کر بڑی یونیورسٹی میں پڑھنے اور بڑاانسان بننے کا خواب دیکھ رکھا تھا، گلی گلی لوگوں سے مذاق کرنا، اساتذہ کو دوست بنالینا اور گاوں کے وڈیروں کو اپنا دلدادہ کرنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا – شہر کی بڑی یونیورسٹی میں پڑھنے کے لیے اس نے خوب محنت کی، شہر پہنچا اور پڑھنا شروع کردیا، ہاسٹل کے ملازم سے لے کر ہاسٹل کے وارڈن تک اور یونیورسٹی میں ‘کیفے’ کے ‘بلو’ بھائی سے لے کر انگریزی کے اس پروفیسر تک جس کی جماعت کا وہ طالبعلم بھی نہیں تھا، اسے ہر کوئی جانتا تھا، کیوں کہ اس کی پہچان اس کا مذاق تھا۔

اس کا یہ فن تھا کہ وہ کسی بھی وقت کسی بھی محفل میں بیٹھے کسی کے چہرے پہ مسکراہٹیں بکھیر دیا کرتا – وہ ہمیشہ پریشان لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر کوئی ایسی بات کرتا کہ لوگ ہنسنے پر مجبور ہو جاتے اور چند لمحوں کے لیے اپنا غم بھول بیٹھتے- یونیورسٹی میں اس کا پہلا دوست اسے اپنے بھائی سے زیادہ عزیز تھا، یونیورسٹی کے ساتھ اس نے اس دوست سے بہت محبت کی اور خوش رہنے لگا- اس کا خواب اپنی منزل کی جانب بڑی تیزی سے رواں تھا کہ اچانک شہر میں وبا کی دستک سنائی دی، ہر طرف خوف پھیلنے لگا۔

وبا سے متاثر پہلی ہلاکت کی خبر آئی تو حکومتی احکامات کے مطابق یونیورسٹیاں بند ہونے لگیں- اس کا ہاسٹل ہسپتال کے وارڈ میں بدل دیا گیا تو مجبوراً اسے شہر چھوڑ کر گاؤں آنا پڑا – ملک میں پھیلتی وبا سے روز بہ روز مرنے والوں میں اضافہ ہونے لگا، بڑے چھوٹے تمام شہر و قصبے بند ہونے لگے- لوگوں نے خود کو گھروں میں محصور کر لیا، گاوں سنسان ہو گیا – والدہ نے گھر سے نکلنے سے منع کیا تو اس نے گھر کی ایک کوٹھڑی کو اپنی دنیا بنا لیا – بڑی یونیورسٹی اور اس دوست کی یاد اسے روز بے چین کرتی اور پریشانی میں وہ موبائل میں محفوظ کی ہوئی ان چند تصاویروں کو گھنٹوں بیٹھ کر دیکھتا اور اندر ہی اندر مرتا جاتا- وہ اپنے اس دوست کو روز فون کرتا اور دوست کی آواز سن کر اس کی آواز تھرتھرا جاتی اور آنکھیں بھر آتیں- مگر اپنے آنسووں کو نکلنے سے روکے دیتا اور یونیورسٹی کی یادوں کا تذکرہ کرتا۔

چند روز میں حکومتی سختیوں کے باعث سہولیات کا بحران پڑنے لگا اور رابطہ ختم ہوگیا – ہر آنے والا دن مرنے والوں کی تعداد میں اضافے کی وعید سناتا اور پریشانیاں مزید گھیرا تنگ کرنے لگیں۔ایک صبح جب فجر کی نماز کے لیے اٹھانے کو اس کی ماں نے اس کی اجڑی ہوئی کوٹھڑی کے دروازے کی چٹکی کھولی اور اندر داخل ہوئی تو دیکھا کہ وہ رات بھر سے کھڑکی کے پاس پڑی کرسی پر بیٹھا ہے- ماں نے ہوچھا ”آج سوئے نہیں؟”، ماں کی آواز سننی تھی کہ اس کے دل سے ‘آہ’ نکلی اور آنسووں کی لمبی قطاروں نے اس کا منہ بھر دیا, ماں سے لیپٹ کر خوب رونے لگا اور اپنی کانپتی ہوئی آواز کی دھندلی تصویر میں بولا ”رات! وبا میرا دوست لے گئی…، ماں! کیا میرے خواب بھی یونہی وبا سے مر جائیں گے…!!!

جواب چھوڑ دیں