کورونا،مشکل حالات اور صلہ رحمی

دنیا بھر میں کووڈ-19 نامی کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔آپ جانتے ہیں کہ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کووڈ-19 کوعالمی وباء قرار دے کر ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کی جاچکی ہے ابھی تک چین میں اس کے نئے متاثرین کی تعداد کم ہونے کے بعد امریکہ اس کا نیا مرکز بن چکا ہے۔اب تک یہ مرض دنیا کے200 سے زیادہ ممالک میں پھیل چکا ہے اس وائرس سے متاثرکی تعداد دس لاکھ سے زیادہ بتائی جاتی ہے جن میں سے 70 ہزار سے زیادہ جان کی بازی ہرگئے ہیں جبکہ صحت یاب ہونے والوں کی تعداد2لاکھ70ہزارسے زیادہ ہے جسے حوصلہ افزاء کہاجاسکتاہے ۔

کیااس حقیقت کاکوئی انکارکرسکتاہے کہ اس دنیامیں بھوک سے بڑی کوئی وباء نہیں؟ یہ سچ ہے کہ دنیامیں انسان کوبے شمارمسائل کاسامناہے پریہ بھی حقیقت ہے کہ ہرریاست ہرشہر اورہرگائوں کے مسائل الگ الگ ہیں اوروسائل بھی مختلف ہیں جبکہ بھوک ایسا مسئلہ جسے عالمی مسئلہ یاوباء تصورکیاجاناچاہیے دنیا کی بہت بڑی آبادی کو دو وقت کی روٹی تو درکنار ایک وقت کی روٹی بھی مشکل سے نصیب ہوتی ہے۔ اس حوالے سے گلوبل ہنگری انڈیکس کی یہ رپورٹ دنیا بھر کے صاحبان اقتدارکے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ جس کے مطابق دنیا کے کل 70 کروڑ 95 لاکھ سے زیادہ انسان بھوک کا شکار ہیں۔

انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے بھوک کے شکار 118 ممالک کی جو فہرست جاری کی جاچکی ہے، اس رپورٹ میں پاکستان 11 ویں نمبر پر ہے۔ رپورٹ میں پاکستان کے 33.4 پوائنٹس تھے، رپورٹ یہ بھی کہتی ہے کہ پاکستان میں کل آبادی کا 22 فیصد حصہ غذا کی کمی کا شکار ہے اور 8 اعشاریہ ایک فیصد بچے پانچ سال سے کم عمر میں ہی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔بھوک اور غربت کا عفریت ہمارے بچوں کو ان کے بچپن ہی سے گھن کی طرح چاٹنے لگتا ہے پاکستان میں غربت کے خاتمے کے نعروں کے ساتھ حکمران اقتدارکے سنگھاسن تک پہنچتے جاتے ہیں پر آج تک کسی حکمران نے غربت کے آسیب کا سامنا کرنے کی جرات نہیں کی وعدوں اوردعوئوں کے درجنوں ادوارگزرگئے پر آج بھی غریبوں کا وہی حال ہے۔

سیاست دانوں کے دلفریب نعرے، وعدے اور دعوے بار بار جھوٹے ثابت ہوتے رہے ہیں۔دن بدن امیر، امیر تر اور غریب،غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ شاید اسی لیے ہمارے حکمراں اب یہ نعرہ زیادہ شدت سے لگانے لگے ہیں کہ ملک سے غربت جلد ختم ہو جائے گی۔ ظاہر ہے کہ جب غریب ہی نہیں رہے گا تو غربت کیسے باقی رہے گی؟اس بات سے بھی انکارممکن نہیں کہ دنیا کی تلخ ترین اور سفاک ترین حقیقت بھوک ہے او رانسان کویہ یاد رہنا چاہیے کہ بھوک کاکوئی مذہب،مسلک،رنگ ونسل یاقوم وقبیلہ نہیں ہوتا دنیابھرمیں کمزورطقبات بھوک مٹانے کے لیے رات دن مزدوری کرتے ہیں جبکہ آج کل دنیا بھرکو کوروناوائرس کے پیش نظرلاک ڈاؤن کا سامنا ہے جس میں غریب جو پہلے ہی دووقت کی روٹی کیلئے پریشان تھے اوربھی زیادہ پستے جارہے ہیں ۔

پیٹ جب کھانے کومانگتا ہے یعنی بھوک لگتی ہے توفقط کھانےکی ضرورت ہوتی ہے، مسلسل بھوک وافلاس انسانی تقاضے بھلا دیتی ہے اورانسان یہ سمجھنے سے قاصرہوجاتے ہیں کیا اچھاہے اورکیا برا، کیا حلال ہے اورکیا حرام۔ کوروناوائرس کے پیش نظر لگائے جانے والے لاک ڈائون سے متاثرہونے والے غریبوں کی کی امدادکرناہرصاحب حیثیت انسان کافرض ہے کوروناوائرس سے بچائوپھیلائو کی روک تھام کے لئے ماہرین اورحکومت کی ہدایات کافی ہیں انہیں پرعمل کریں، جبکہ راقم آج صلہ رحمی اختیارکرنے کی اپیل کرناچاہتا ہے، صلہ رحمی سے کام لے کر  نہ صرف دنیا اورآخرت کے فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں بلکہ صلہ رحمی اللہ تعالیٰ اوراُس کے حبیب ؐ کی خوشنودی کا بھی ذریعہ ہے۔

رشتوں کا لحاظ رکھنا، رشتوں کو جوڑ کر رکھنا اور ان کا احترام کرنا دوسروں کی ضروریات خیال رکھنا،اللہ تعالیٰ کے عطاکردہ مال ودولت میں سے کمزوروں پرخرچ کرنے کا قرآن کریم نے حکم دیا ہے اور رسول اللہ ؐ نے بھی اپنے قول و عمل سے اس کی تعلیم دی ہے۔ قرآن کریم نے اپنے رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک کو صلہ رحمی سے تعبیر کیا ہے۔ گھر کی چار دیواری سے باہر کا دائرہ خاندان کا دائرہ ہوتا ہے جس میں باپ کی طرف کے رشتہ دار چچا، پھوپھیاں، چچا زاد، پھوپھی زاد ، اور اسی طرح ماں کی طرف کے رشتہ دار خالہ، ماموں، خالہ زاد اور ماموں زاد وغیرہ آتے ہیں۔اسلام نے زندگی کے بہت سے معاملات میں اس دائرے کا لحاظ رکھنے کا حکم دیا ہے، قرآن کریم میں ہے کہ’’ اور وہ لوگ جو ملاتے ہیں جس کے ملانے کو اللہ نے فرمایا ہے اور اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور برے حساب کا خوف رکھتے ہیں(سورۃ الرعد ۱۲)۔اسلام میں صلہ رحمی کو مستقل نیکی قرار دیا گیا ہے۔

رشتہ داروں کے ساتھ تعلقات بحال رکھنے کے حوالے سےان کے ساتھ امداد وتعاون کے حوالے سے آپس میں ایک دوسرے کی عزت و احترام کو ملحوظ رکھنے کے حوالے سے اور دیگر معاشرتی حوالوں سے رسول اللہ ؐ نے بہت سے ارشادات فرمائے ہیں۔ مثلاً رسول اللہ ؐ نے زکوٰۃ اور صدقہ و خیرات کے حوالے سے فرمایا کہ آدمی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے لوگوں پر خرچ کرتا ہے تو یہ اجر و ثواب کی بات ہے وہی خرچ اپنے رشتے داروں پر کرے گا تو دوہرے اجر کا مستحق ہوگا اسے صدقے کا اجر بھی ملے گا اور صلہ رحمی کا ثواب بھی حاصل ہوگا۔ جناب نبی کریم ؐ نے صدقہ و خیرات میں رشتہ داروں اور قرابت داروں کو ترجیح دینے کاحکم دیا۔ محدثین فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے جو صدقہ و خیرات کے معاملے میں رشتہ داروں اور پڑوسیوں کو ترجیح دینے کا حکم دیا ہے اس کی دو وجوہات ہیں۔پہلی وجہ تو یہ ہے کہ دو نیکیاں اکٹھی ہو جاتی ہیں،ایک صدقہ و خیرات کی اور دوسری صلہ رحمی کی۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ آدمی جب صدقہ وخیرات کرتا ہے تو کوشش ہوتی ہےکہ مستحق کو ملے۔ جبکہ رشتہ داروں کے عمومی حالات کے متعلق ہر آدمی جانتا ہے کہ کون شخص یا خاندان امداد کا زیادہ مستحق ہے۔ قریبی پڑوسیوں کی حالت کے متعلق بھی معلوم ہوتا ہے اور رشتہ داروں کے متعلق بھی، یا یوں کہہ لیں کہ ان کے حالات آدمی زیادہ آسانی سے معلوم کر سکتا ہے۔ رشتہ داروں کے علاوہ خرچ کرنے کا بھی ثواب ہے پروہاں اس بات کا خدشہ ہوتا ہے کہ معلوم نہیں کہ امداد کسی مستحق کو ملی ہے یا غیر مستحق کو۔ اپنے رشتہ داروں میں آدمی کو اندازہ ہوتا ہے کہ کس کی معاشی حالت کیا ہے اس لیے خرچ کرتے وقت آدمی زیادہ اطمینان و اعتماد کے ساتھ خرچ کرتا ہے۔ یہی معاملہ پڑوسیوں کے ساتھ بھی ہے۔

چنانچہ صلہ رحمی کا نہ صرف حکم دیا گیا ہے بلکہ اسے مسلمان معاشرے کے بنیادی تقاضوں میں سے قرار دیا گیا ہے۔ آج کے اس نفسا نفسی کے دور میں رشتے، برادری اور تعلقات کے وہ سلسلے ختم ہو کر رہ گئے ہیں جو اچھے زمانوں میں ہوا کرتے تھے۔ اسلام نے بطور خاص رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک اور میل جول رکھنے کا حکم دیا ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ جناب رسول اللہ ؐ نےارشاد فرمایا کہ جس آدمی نے اپنے رشتہ داروں کے ساتھ میل جول حقارت کی وجہ سے ترک کیا وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم رہے گا یعنی صلہ رحمی میں نجات ہے۔

جواب چھوڑ دیں