مظلوم کی بد دعا سے بچو

مظلم کون ؟ ہم نے کسی پر ظلم نہیں کیا ۔ ہم سمجھتے ہیں چور، ڈاکو، قاتل ، جابر اور حق مارنے والے ہی ظالم ہیں ۔ جی ہاں وہ تو ظالم ہیں ہی مگر اگر ہم غور کریں تو خود بھی اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ حق نہ مان کر ۔ اللہ سے بے خوفی جس کی وجہ سے ہم اکثر ایسے کام کر جاتے ہیں جو منع ہیں مثلاً دانستہ کسی کو جھڑک دینا ، کمتر جاننا، ڈانٹ دینا یا پھر کسی کو اسکے حق سے کم دینا یہ تمام چیزیں اگر چہ بداخلاقی جیسا ہے مگر دراصل یہ سب ایک طرح سے ظلم ہے۔

اگر میرا رویہ برا ہے میرا انداز تکبرانہ ہے ، آواز بلند ہے ، کرخت ہے ۔ بڑے چھوٹے کا لحاظ نہیں تو ہم کیا کر رہے ہیں بد اخلاقی  اگر ہم بد اخلاقی کر رہے ہیں تو گویا ہم دنیا میں ظلم کو فروغ دیکر گناہ کر رہے ہیں اور ظالم کی صفت میں ہیں ۔ بے حیائی کر کے دنیا کو برائی کا نمونہ دیکر تباہ کر رہے  ہیں خود بھی تباہ ہورہے ہیں تو گویا ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا ۔ ہم نے کیا کیا ہے؟  ہمارا ضمیر ہمیں بتا دیتا ہے مگر ہم ہلکا لیتے ہیں برائی سمجھتے ہی نہیں ، گویا احساسِ گناہ جا تا رہا ۔

ہمیں ہر وقت خیال رکھنا چاہئے کہ دوسروں کے ساتھ ہمارا رویہ کیسا ہے ؟ اگر ہمارے رویئے سے دوسرا ادا س ہو جائے، سہم جائے  بے عزتی محسوس کرے ۔ نظریں ملانے کے قابل نہ ہو یا ہماری فضول کی حرکات کی وجہ سے ہم سے ملنا بھی پسند نہ کرے نہ گھر آنا چاہے تو سمجھو ہم ظالم ہیں۔ اس کے دل سے کبھی بھی ہمارے لئے دعا نہیں نکل سکتی بلکہ بد دعا نکلے گی ، زندگی میں معمولی معمولی چیزیں ایسی ہیں جن میں ہمیں روز کا واسطہ پڑتا ہے مثلاً کوئی گھر میں مریض ہے یا آگیا ہے تو ہمیں اس کا دل کسی طر ح نہیں توڑنا ناگواری میں اپنی سی کوشش کرکے اس کو دلی سکون اور ہمدردی کا احساس دیں محبت سے اس کا درد تکلیف کم ہو جائے تو ٹھیک ورنہ آپ اپنے ہی گھر میں ظالم ہیں ۔

کیونکہ وہ مریض آپ سے خا ئف ہے دل برداشتہ ہے مہمان مریض مزید رنجیدہ اور اداس ہے محض آپکے روئیے کی وجہ سے تو یہ سمجھ جائیے کہ آپ اپنے ہی گھر میں ظالم ہیں ۔ ہم نے سنا ہے نا کہ آپکے حصے میں جو رزق ہے یا جو رزق آپ کو ملتا ہے وہ آپ کے گھر کے کمزور لوگوں کی وجہ سے ملتا ہے تو ہمیں تو ان سے اور بھی اچھا سلوک کرنا چاہئے نا کہ الٹ لہٰذا ہمیں ہر وقت ظلم سے بچتے رہنا چاہئے تا کہ دوسرا مظلوم نہ بنے اور اس مظلوم کی بد دعا ہمیں نہ لگے ہمیں ہر وقت مظلوم کی بد دعا سے بچنا ہے کیونکہ مظلوم کی بد دعا اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ۔

آج کل لاک ڈا ئون کو دیکھیں۔ اپنے پیاروں کے ساتھ تو اپنے خاندان اور نوکر چاکر، مالی ماسی کا خا ص خیال رکھیں۔ اس طرح کہ انکی عزت نفس مجروح نہ ہو اور انکی مدد بھی ہو جائے ۔ مہمان کو پیار سے ملیں، بٹھائیں ، کھلائیں ، پلائیں ، ہاتھ نہ ملائیں ، مگر منہ نہ بنائیں ، واپس نہ پلٹا ئیں ۔ اللہ پر بھروسہ رکھیں تا کہ ان کا دل نہ ٹوٹے، بے احتیاطی سے گا ڑی چلانا ، گندگی اڑانا ، دوسروں کو اپنی حرکتوں کی وجہ سے پلید کرنا بھی ان پر ظلم کرنے کے مترادف ہے کیونکہ یاد رکھیں اگر کوئی انکے ساتھ برا سلوک کرے تو تمہیں کیسا لگے ؟

                       کبھی بھول کر کسی سے نہ کروسلوک ایسا      کہ جو کوئی تم سے کرتا ناگوار ہو تا

یہ دعا پر بہت ہی معمولی بات ہے مگر بات ہے سمجھنے کی اور ہل لمحہ عمل کرنے کی ۔ زندگی بھی تو لمحوں کی ہے اور یہ لمحے ہی ہمیں خطا کار ، گنہگار بنا دیتے ہیں۔ دین سراسر اخلاق ہے اور اپنے اخلاق بگاڑ کر ہم نہ صرف خود ظالم کی صف میں آجاتے ہیں بلکہ دنیا کیلئے برائی کا نمونہ بنتے ہیں اس سے بڑا ظلم کیا ہوگا ؟ اگر گھرکا بڑا ماں یا باپ ،سخت ہے خودغرض ہے، سست ہے اور دین کا زیادہ شعور نہیں رکھتا تو اس کا رویہ یقینا سب کے لئے تکلیف دہ ہوگا ہم کیا کرسکتے ہیں ؟ نہ بچے انہیں سمجھا سکتے ہیں نہ ماں باپ کی ماں بن کر انہیں نصیحت کرسکتی ہیں مگر صبرو صلوٰۃ ، دعا اور اپنے مستقل نرم اور خوش اسلوب روئیے سے اس پر قابو ضرور پا سکتے ہیں ورنہ کوشش سے اللہ واقف ہوتے ہیں وہ ضرور ہدایت فرماتے اور حالات کو مہذب اور خوشگوار بنادیتے ہیں۔

آپکا اپنا احساس اور نیکی آپکا انعام اور احساس سکون ہوتا ہے کہ آپ نے کم ازکم اللہ کے احکام کی نافرمانی کرکے یا انکی تذلیل کر کے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ اپنے صبر بردباری اور دعا کے ذریعے اچھائی کا اچھا نمونہ پیش کرکے سب کی نگاہ میں اچھے بن گئے اور یوں ظلم سے بچ گئے ورنہ سب کچھ کرتے ہوئے بھی آپ برا رویہ اختیار کرکے ظالم کی صف میں کھڑا کر دیتے ہیں اور وہ صرف مظلوم بن کر بددعا دیتا ہے بلکہ اپنے نیک اجر کو بھی ضائع کر دیتا ہے۔ اسی لئے تو کہتے ہیں اچھی بات، اچھا کام، صبر، ضبط برداشت اور مصلحتاً خاموشی بھی ایک طرح کا صدقہ ہے اور ظالم بھائی سے مسکرا کر ملنا صدقہ ہے ، میٹھا بول بولنا صدقہ ہے جو ظالم کے خلاف ڈھال ہے ، ہمارا حصار ہے۔

ہمار ا فرض ہے کہ ہم اپنے ظالم رشتہ داروں بھائی بہنوں نے حق میں دعا بھی کرتے رہا کریں ، سلوک بھی اچھا کرتے رہا کریں اور ان کی ضرویات کو بھی اللہ کی خاطر، اللہ کی خوشنودی کی خاطرپوراکرنے کی پوری پوری کوشش کرتے رہا کریں تاکہ ہم اپنی زندگی کے مقصد کو پورا کرسکیں اور معاشرے میں اچھی مثال بن کراچھائی کو فروغ دیں۔ یہاں تک کے چھوٹے بچوں کی بھی دل آہ و زاری نہ کریں ان کے سامنے بھی پیار محبت ، صبر، شکر کا وہ نمونہ بنیں جن سے انکے دل سکون پائیں وہ آپ سے بھاگیں نہیں بلکہ محبت کریں آپکے اردگرد گھومیں کیونکہ وہ مومن نہیں وہ مسلمان نہیں جو اپنے سے چھوٹوں پر شفقت نہ کرے ، انہیں چھوٹا سمجھ کر انکی دل آہ زاری کرنا ، انکی بات نہ سننا نہ ماننا ، زبردستی جبراً کوئی کام نا جائز کروانا بہت بڑا ظلم ہے۔

درگذر اور پیار محبت ، شفقت ہی اس کا واحد حل ہے جسکے لئے ہمیں خود پر جبر کرنا یعنی صبر کرنا ہے جو دراصل ظلم کے خلاف ڈھال ہے ورنہ ان کمزور ناتواں بچوں پر مستقل ہم ظلم کر رہے ہوتے ہیں جن کا ہمیں احساس تک نہیں ہوتا مگر دل انکے بھی ٹوٹتے ہیں اور ان کی بھی بد دعا سے بچتے رہنا بڑا بڑا عظیم کام ہے اور یہی رب کا انعام ہے ورنہ ہر لمحہ ہمارے گناہ معمولی نا چاقیاں ہمارے بگڑے روئیے کے تمام ہمیں ظالموں کی صفت میں کھڑا کرکے ہمارے لئے سزا بن جاتے ہیں لیکن وہی بات کہ ہماری نگاہ عبرت کی نگاہ بن ہی نہیں رہی ۔ روزانہ سینکڑوں لوگوں کی موت کی اطلاعات سنتے ہیں، دیکھتے ہیں ، دنیا بھر میں ہونے والی تباہ کاریاں دیکھتے ہیں ۔

اپنے ملک کے حالات گربت اور لاچاری ، بے روزگاری ، بیماری کو دیکھ کر بھی سہہ کر بھی ہمارے دل نرم نہیں پڑتے نہ اعمال سدھرتے ہیں چوری چکاری کے واقعات اب بھی ہورہے ہیں ، ابھی پڑسوں ہی پڑوسن بتا رہی تھی کہ انکے کسی جاننے والے نوجوان کو ڈاکو گھر کے سامنے موبائل لیکر گولی مار کر چلے گئے کہا تھا کہ مڑ کر نہ دیکھنا ورنہ ۔۔۔ وہ بیچارہ گھبرا کر مرا ہی تھا کہ گولی کا نشانہ بن گیا ۔ یہاں لوگ ایک دوسرے کی جان بچانے کے لئے انفرادی اجتماعی کوششیں بھی کر رہے ہیں مگر کیونکہ برائی منظم ہے ، بے حیائی کو پر لگے ہوئے ہیں ، میڈیا اداکاری پر بھی اترا ہوا ہے ۔ کوئی رب کا یا موت کا ڈر خوف نہیں ۔ کیا خبریں کیا اشتہارات، کیا ڈرامے سب میں ننگا پن ، لوفر حرکات ، شریعت کا کھلا مذاق کیا ہم سب کیلئے باعث شرمندگی نہیں ۔

گھوم گھوم کر خبریں سنانے والی خواتین پینسل ہیل ،ٹا ئٹ پینٹ ، چھوٹی سی کوئی میں سر پھاڑ منہ جھاڑ چلی آتی ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں کسی کو ئی اعتراض بھی نہیں ، پیمرا 24گھنٹے شکا یات ہی سنتا رہتا ہے ۔ اس کا کام اصلاح نہیں صرف اور صرف پیسہ بنانا ہے ۔ کرونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے ۔ یہ کیا نعرہ ہے ؟ “استغفر اللہ “اللہ کی آزمائش سے ڈرتے ہیں نیکیوں میں سبقت لے جانے کی کوششیں مرتے دم تک کرتے ہیں نا کہ لڑنا ہے گویا تکبرانہ رویہ کو ہم کرونا کا منہ توڑ دینگے نہیں ، ایسا نہیں ہے ۔ تمام تر احتیاطی تدابیر اختیار کریں ، خدا خوفی کے ساتھ ، دعائوں کے ساتھ اللہ پر توکل کرتے ہوئے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی خوش دلی اور لگن سے بچائیں ۔

دوسروں کے لئے ہر طرح کی قربانی دیں ، پیسے سے ، اجناس سے انفرادی قوت سے صلا حیت سے ہر طرح سے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور برادرانہ سلوک کریں ۔ نیک نیتی کے ساتھ تو ہی ہم رب کو را ضی کرسکتے ہیں ، رب راضی تو جگ راضی۔ یہ ہے کرونا تو کیا کسی بھی بیماری یا آزمائش سے بچنے کا طریقہ ، اسی میں تو ہمیں بے لوث ہو کر بلا تفریق معاشرے کے ہر فرد کی مدد کیلئے ہر دم تیار رہنا ہو گا ۔ چن چن کر مستحقین ، دھا ڑی والوں ،خواجہ سرا ئوں ، مزدوروں ، مسکینوں اور اپنے عزیز رشتہ داروں ، دوستوں کی کئی گنا بڑھ کر مدد کرنی چاہئے۔ ورنہ سمجھیں وہ مظلوم ہیں اور ہم سب جانتے بوجھتے ظالم ۔

کیونکہ ہمارا عمل وقت کے تقاضوں کو پورا نہیں کر رہا ہے ۔ خدا را اپنے ضمیر کو جھنجوڑئیے میڈیا سے برے نظارے دفع کیجئے ، بے حیائی فحاشی کو لگام دیجئے ۔ رب کے پیغام کو عام کیجئے ۔ رب چاہی کیجئے ، من چاہی کرکے منہ کی نہ کھائیے ، زندگی کی اس مہلت اور قدرت کی اس انہونی فراغت کو بھی غنیمت جان کر پچھلی تمام کوتاہیوں کا ازالہ کر ڈالئے۔ برائی کا کفارہ بھلائی سے کر ڈالئے ۔ ہرجگہ ہر وقت ہر لمحہ، تاکہ یہ مہلت زندگی بامقصد اورعافیت والی ہو۔ کتنی آسان بات سمجھائی تھی شاعر نے کہ ؎

                             کرو مہربانی تم اہل زمیں پر         خدا مہربان ہو گا عرش بریں پر

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں