استقبال رمضان

”اے لوگو! تم پر ایک عظمت والا مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے، یہ مبارک مہینہ ہے، اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اللہ تعالی نے اس کے روزوں کو فرض قرار دیا اور رات میں قیام کرنے کو نفل قراردیا، اس مہینہ میں جس شخص نے نفل عمل کیا وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے دوسرے مہینہ میں فرض اداکیا اور جس شخص نے اس میں ایک فرض ادا کیا وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے دوسرے مہینہ میں ستر ( 70 ) فرائض ادا کیے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا اجر جنت ہے۔

جب حضورﷺ رجب کا چاند دیکھتے تو یہ دعا مانگتے”اے اللہ رجب اور شعبان کے مہینے میں میرے لیے برکت ڈال دے اور رمضان تک پہنچا دے “حضور ﷺ نے کبھی اپنی درازی عمر کی دعا نہیں مانگی مگر جب آپ ﷺ رجب کا چاند دیکھتے تو یہ دعا آپ ﷺ کے لب مبارک پر جاری ہوتی۔پھر جب رمضان المبارک شروع ہونے میں کچھ دن باقی ہوتے تو آپ کا یہ معمول رہا کہ آپ ﷺ صحابہ اکرام کو جمع کرکے رمضان کا استقبال کرتے اور خطبات ارشاد فرماتے ۔ان خطبوں میں صحابہ اکرام کے سامنے رمضان المبارک کی اہمیت کی وجہ ،اس میں حاصل ہونے والا اجر اللہ کی طرف سے رحمت ۔مغفرت اور جہنم سے نجات کو واضح فرماتے ۔

جب سے اللہ تعالٰی نے کائنات کی تخلیق کی دن اورمہینے بنائے جب سے رمضان کا مہینہ آرہاہےاور روزے بھی پچھلی امتوں پرفرض رہے ہیں جیسا کہ قرآن میں سورہ البقر میں ارشاد ہے کہ “ہم نے تم پر روزے فرض کئے جیساکہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے تھے تاکہ تم پرہیز گاری اختیار کرو”لیکن امت محمد ﷺمیں رمضان میں روزے کی فرضیت او ر اس کی اہمیت اور دو چند ہوجاتی ہے ۔

جس معاشرے میں حضور ﷺ نے آنکھ کھولی اور تمام برائیوں کا عروج پر ہونا دیکھا   حتٰی کہ دین کے معاملے میں لوگوں کا مشرکانہ رویہ دیکھا تو آپ ﷺ انسانیت کے حال پر تڑپ اٹھے، آپ کائنات کو دیکھتے اس پر غور فکر فرماتے۔ کئی کئی دن آپ غار حرا میں جاکر گزارتے  اور غور فکر فرماتے۔اسی طر ح ایک ایسی ہی گھڑی تھی جب  اللہ تعالٰی کو انسانیت پر ترس آیا اور رحمت خداوندی جوش میں آئی اور اللہ تعالٰی نےانسانیت کو ذلت اور اندھیرے سے نکالنے کا نسخہ  حضور ﷺ کے سپرد کیا ۔۔۔ یہ نسخہ قرآن مجید تھا۔اور یہ شب شب قدر اور یہ مہینہ رمضان تھا۔

جیسا کہ سورہ  قدر میں ارشاد خداوندی ہے کہ” ہم نے اس (قرآن )کو کوشب قدر میں نازل کیا”  وہ گھڑی انسانی تاریخ کی سب سے اہم  گھڑی تھی اور وہ  مہینہ سب سے اہم مہینہ تھا جس میں اللہ تعالٰی نے انسان کی تقدیر کا فیصلہ فرمادیا۔جیسا کہ سورہ البقرہ میں ارشاد ہو ا کہ ” رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا  جو انسانوں کے لیے ہدایت  اور حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والی ہے”

قرآن کے نزول نے رمضان المباک کی اہمیت کو چار چاند لگادئے۔ ایک موقع پر نبی مہربان ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ “جس نے ایمان و احتساب کے ساتھ روزے رکھے ا س کے تمام پچھلے گنا ہ معاف کردئیے  جائیں گے ” اور دوسرے مقام پر یہ بھی فرمایاکہ ” جس نے ایمان و احتساب کے ساتھ  قیام کیا اس کے پچھلے تمام گناہ  معاف کردئیے جائیں گے”اس کے علاوہ  بہت سی احادیث اور  قرآن کریم کی آیتوں میں قرآن اور رمضان المبارک کے تعلق اور اہمیت کو واضح کیاگیاہے ۔گویا اگر یوں کہا جائےتو بے جا نہ ہوگا کہ رمضان قرآن کا مہینہ ہے۔

آنکھوں کو بند کرکے ذرا تصّو ر  کریں تو ایسا لگتاہے کہ رمضان المبارک کا چاند سب سے پہلے قرآن دیکھتاہے ۔ ادھر شعباں ختم ہو ا ادھر قرآ ن جزدانوں سے گرد کو جھاڑتا ہوا  سامنے آگیا  ہر فرد قرآن کو سنے کے لیے گویا کھینچا چلا آیا۔ ویران مساجد آباد ہوئیں ۔فضا قرآن کی تلاوت سے معطر ہوگئی۔انسان اپنے رب سےاور زیادہ قریب آگیا۔ شیاطین کو جکڑ دیا گیا ،جہنم کے دروازے بند کردئیے گئے اور جنت کےدروازے کھول دئیے گئے ۔موسم بہار میں جس طرح ہر طرف  پھول کھلتے ہیں ہریالی ہوئی ہے ایسی طرح  پوری مسلم دنیا نیکیوں کے جذبوں سے سرشار ہوجاتی ہے۔

جس طرح دنیا میں بڑے بڑے اسٹورز میں لوٹ سیل لگتی ہے اور تحریریں آویزاں کردی جاتی ہیں کہ خریداری پر خصوصی رعایت  اس سے بڑھ کر خالق کائنات  نیکوں کی لوٹ سیل اپنے بندوں کے لیے لگا دیتا ہے اور منادی کردی جاتی ہے کہ ایک نیکی کے بدلے ستّر اور ستّر کے بجائے سات سو   اجر حاصل کرو اور قربان جائیے  خالق کائنات پر کہ   لب صادق ﷺسے یہ صدا آتی ہےکہ  اللہ تعالٰی فرماتا ہےکہ ” روزہ تو میرے لیے ہے اس کی جز ا میں خود دوں گا” بلکہ کہ یہ تک فرمایاکہ روزہ تو میرے لیے ہے میں ہی اس کی جزا ہوں”گویا کہ روزہ دار کو  اللہ مل جاتاہے ۔

نزول قرآن کا یہ مہینہ جس کا پہلا عشرہ  رحمت دوسرا عشرہ مغفر ت اور تیسرا عشرہ  جہنم کی آگ سے نجات کا ہے ۔ سورہ  القدر میں ارشاد ہے کہ ” لیل لقدر ہزار مہینوں سے بہتر  ہے ”  جس طرح آنحضورﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں رمضان المبارک میں عبادتوں کا خاص اہتمام فرماتے ۔ایک ایک لمحہ  عبادتوں اور ذکر اذکار میں گزارتے   اسی طرح آپ ﷺ اپنے گھر والوں کو بھی تاکید فرماتے ۔آپﷺ رمضان المبارک کے دن جیسے جیسے گزرتے آپ کی لگن اور بڑھ جائی آپ اعتکاف کا خاص اہتمام فرماتے آپ ﷺ نے شب قدر  کے حصول کے لیے تینوں عشروں کا بھی اعتکاف فرمایا اور اس کے بعد آپ نے آخری عشرے کی  دس طاق  راتوں میں شب قدر کو تلاش کرنے کی ترغیب دی ۔

جہاں رمضان المبارک انفرادی حیثیت میں انسان کے انفرادی تبدیلی کے مقاصد یعنی تقویٰ پیدا کرنے کے  لیے آتاہے وہاں وہ معاشرے میں اجتماعی تقوٰی بھی پیدا کرتاہے۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ : ” رمضان غم گساری کا مہینہ ہے” آپ ﷺ رمضان المبارک میں جھکّڑ والی ہوا کی طرح راہ خدا میں خرچ کرتے اور لوگوں کو اس کی ترغیب دیتے ۔آج ساری دنیا جس ہبیت ناک معاشی تنگ دستی کا شکار ہے۔ اس میں تمام مسلمان بھائیوں کو کثرت سے رب کے حضور اپنے گناہوں سے توبہ کرنا چاہیے اس بات کا خاص خیال کرنا چاہیئے کہ نبیﷺ کی اس سنت کو زندہ کریں  اور اس مہینے میں راہ خدا میں دل کھول کر راہ خدا میں خرچ کریں۔

حضورﷺ نے فرمایا کہ :” جہنم کی آگ سے بچو خواہ کھجور کے آدھے  حصّے کو دیکر ” صدقات  اللہ کے غصب سے بچنے کے ذرائع ہیں۔ عمر میں  برکرت کا ذریعہ ہے۔آنا والا رمضان  اس بات کا پیغام دے رہاہے کہ  انسانوں کو ظلم سے بچانے کے لیے ہر فرد کمر کس لے اور کسی حال میں مظلوم کی دار رسی سے نہ کترائے ۔ اور اپنے آپ کو ظالموں کی صف میں شامل ہونے سے بچائے کیونکہ ظلم  کو سہنا اور ظلم پر خاموش رہنا بھی ظالموں کا کام ہے۔

جواب چھوڑ دیں