سوال توبنتاہے

وزیراعظم عمران خان کا یہ کہناکہ قوم کے اجتماعی عزم اور عمل کے ذریعے ہی کورونا وائرس کے خلاف جنگ جیتی جاسکتی ہے اس وقت پوری دنیا کوروناوائرس کی وبا کے منفی اثرات کا مقابلہ کررہی ہے،ہر جگہ معاشی سرگرمیوں کے دوبارہ آغاز کے لئے لاک ڈائون میں نرمی کرنے کے بارے میں باتیں ہورہی ہیں،کسی بھی ملک میں لاک ڈائون غیر معینہ مدت کیلئے جاری نہیں رہ سکتا کیونکہ کوئی نہیں جانتا کورونا کی وبا کب ختم ہوگی‘‘سوفیصددرست ہے کہ قوم کے اجتماعی عزم اور عمل کے بغیرکوئی معمولی سے معمولی کامیابی بھی ممکن نہیں کوروناوائرس توپھرانتہائی سنجیدہ اوربڑامسئلہ بن کرسامنے آیاہے۔

سوال یہ ہے کہ کیاہم ایک منظم قوم ہیں؟یاکم ازکم ایک قوم ہیں؟یقیناآپ کہیں گے کہ نہیں ہم حقیقی معنوں میں ایک منظم قوم نہیں بن سکے دوسرے سوال کاجواب ہے کہ ہاں یہ کہاجاسکتاہے کہ ہم ایک قوم ہیں اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ ہم ایک منظم قوم کیوں نہیں بن پائے ؟ایک منظم قوم کی تعمیرکی بنیادایک ایسے مضبوط اورقابل عمل آئین پرقائم ہوتی ہے جوہرخاص وعام طاقتوروکمزورامیروغریب مختصرکہ حاکم ومحکوم کافرق کیے بغیربلاتفریق عدل وانصاف کے تقاضے پورے کرنے کی اہلیت رکھتاہو۔

ایساآئین جس پرعمل کرناآسان ہوایک ایسا آئین جولوگوں کوایک دوسرے کے قریب لائے ایک ایساآئین جوانسانوں کے درمیان نفرتیں پیدا نہ ہونے دے ایک ایسا آئین جومظلوموں کا مددگاراورظالم کیلئے ننگی تلوار ہوایسا آئین جوکسی طاقتورکوکسی کمزورکاحق کھانے سے روکنے کی ہمت رکھتاہوااورایسی قیادت جواُس آئین پرسختی کے ساتھ عمل کرے اورعملدرآمدکروائے،بدقسمتی سے ہمیں قیام پاکستان کے بعد آج تک ایسی قیادت میسرنہیں آئی،ہم ایک قوم اس لیے ہیں کہ ہمارے پاس دین اسلام کی صورت میں ایساجامع ترین آئین موجودہے جس کاکوئی ثانی نہیں۔

دوسری دلیل مملکت خدادادکاوجودہے جسے برصغیرکے مسلمانوں نے دین اسلام کے آئین کے تحت ایک قوم بن کرقائم کیااہل پاکستان ایک قوم اسی دن بن گئے تھے جس دن تحریک آزادی پاکستان کی بنیادرکھی گئی اب سوال ہے کہ ہمارے پاس دین اسلام جیسابے مثل آئین ہے اورہم ایک قوم بھی بن چکے توپھرہم ایک منظم قوم کیوں نہیں بن پائے اورکیسے بن سکتے ہیں؟ جواب یہ ہے ہم نے منظم قوم بننے کی کوشش ہی نہیں کی ہم نے ایسی قیادت کی پرورش تعلیم وتربیت اورحوصلہ افزائی ہی نہیں کی جوگروہومیں تقسم ایک لاغرقوم کومنظم اورمضبوط قوم بناتی،جی ہاں بغیررہبرورہنماء منزل تک پہنچناممکن نہیں۔

رہبرورہنماء کودورحاضرکی زبان میں لیڈر کہاجاتاہے لیڈر مطلب لیڈکرنے والارہنمائی ورہبری کرنے والا قوم کو مشکلوں سے باحفاظت نکال کر آسانیوں کی طرف لے جانے والا مختلف نظریات خیالات اورروایات کے امین لوگوں کویکجاکرکے ایک قوم بنانے والا یہ فقط لیڈرکے معنی ومفہوم ہیں جبکہ لیڈر بااختیاربھی ہو حاکم وقت بھی اورایک بڑی جماعت کاسربراہ بھی ہو توقوم اس سے مزیدبہت ساری توقعات وابستہ کرلیتی ہے اوراس کی ذمہ داریاں اوربھی بڑھ جاتی ہیں مشکل چھوٹی ہویا بڑی حالات اچھے ہوں یابرے وسائل کم ہوں یازیادہ ترقی ہمیشہ وہی کرتے ہیں جوایک منظم قوم بن کرسوچتے ہیں ایک منظم قوم بن کربولتے ہیں ایک منظم قوم بن کرسنتے ہیں ایک منظم قوم بن کرچلتے ہیں ایک منظم قوم بن کررکتے ہیں ایک منظم قوم بن کراحتیاط کرتے ہیں ایک منظم قوم بن کرایجادات و دریافت کی کوشش کرتے ہیں ایک منظم قوم بن کرآئین وقانون نافذکرتے اوراُس پرعمل کرتے ہیں۔

مذہبی، سیاسی، کاروباری، ڈاکٹری، عدالتی،صحافتی اوردیگربہت سارے گروہوںمیں تقسیم قوم کے پاس وسائل کی بھرمارہو تب بھی پریشان اوربدحال رہتی ہے گروہوںمیں تقسیم قوم کویکجاکرنا اہل قیادت کی اہم ترین ذمہ داری ہوتی ہے جسے پوراکیے بغیرکوئی بڑے سے بڑاسیاستدان بھی لیڈر نہیں بن سکتا،مرشِدسرکارسیّدعرفان احمدشاہ المعروف نانگامست کافرمان ہے کہ کوئی بیوقوف شخص رہنماء ورہبرنہیں ہوسکتاہے،جب قوم اللہ تعالیٰ اوراُس کے رسول حضرت محمدﷺ کے احکامات سے رو گردانی کرتی ہے تب اُس پربیوقوف حکمران نافذ ہوتے ہیں اوریادرکھوکہ ایک سچے رہبرورہنماء کی اولین صفت ہوتی ہے کہ وہ سب سے پہلے خودعمل کرتاہے اُس کے قوم وفعل میں تضادنہیں ہوتااپنی قائدانہ صلاحیتوں اورعدل وانصاف کی بنیادپرقوم کومنظم کرتااورمنظم رکھتاہے۔

لیڈر اُسے کہتے ہیں جوقوم کومتحدو متحرک کرتا ہے اورمتحدو متحرک رکھتاہے، جس کے فیصلے قوم کے خیرخواہ اورترجمان ہوتے ہیں جو اپنے وعدے پورے نہیں کرتاہے جھوٹے اورسبزباغ دکھاکراپنے مفادات کے حصول کیلئے قوم کواستعمال کرے وہ لیڈر نہیں ہوسکتا۔جناب وزیراعظم نے کہاکہ اس وقت پوری دنیا کورونا وائرس کی وبا کے منفی اثرات کا مقابلہ کررہی ہے توجناب عالی ہم نہ توکوروناوائرس کے طبی اثرات کامقابلہ کررہے ہیں نہ ہی معاشی اثرات کاسچ تویہ ہے کہ ہم مقابلہ توکیاسامناکرنے کی بھی ہمت نہیں رکھتے،ہم ایک منظم قوم ہوتے یابن جائیں توکوروناوائرس کے طبی یامعاشی اثرات کانہ صرف مقابلہ کرناممکن ہے بلکہ شکست دینابھی آسان ہوسکتاہے وہ بھی بغیربھیک مانگے۔

آپ کوبات شائدعجیب لگے کہ ہم مقروض ملک کی بدترین معاشی حالت اورکم وسائل میں بغیرامدادلیے کیاکرسکتے ہیں؟قارئین کبھی ہم نے ایک منظم قوم بن کوسوچاکہ ہمارے حکمران طبقے کے پاس کتنامال ودولت ہے دنیاکے کون کون سے ممالک میںجائیدادیں اورکاروبارہیں،کس کس کمپنی اوربینک کوقرض دے رکھاہے وغیرہ وغیرہ،حکمران طبقے کامال ودولت ملک وقوم کے کام نہیں آسکتاتوپھریہ طبقہ ہمارے کس کام ہے؟ایک اوربات پرغوروفکرکی دعوت دیتاچلوں ،کیا پاکستان کی تاریخ میں کوئی ایساحکمران بھی آیاجس نے کہاہوکہ ملک معاشی طورپرکمزورنہیں؟ملک کے خزانے خالی نہیں؟ اب ہمیں قرض یابھیک مانگنے کی ضرورت نہیں؟ یاسب کے سب یہی کہتے رہے کہ ماضی کے حکمرانوں نے ملک کے خزانے خالی کردئیے ہمیں قرض اوربھیک مانگنی ہی پڑے گی؟

قربان جائوں سابق کرکٹرجاویدمیاں دادکے ان جملوں پرکہ انہوں نے وزیراعظم پاکستان عمران خان کے فنڈریزنگ شومیں بات کرتے ہوئے کس شانداراندازمیں سوال اُٹھایاکہ ملک کو کھانے والے نکل گئے، ہماری قسمت میں مانگنا ہی رہ گیا ہے قوم سمجھتی ہے کہ جاویدمیاں دادنے شارجہ کپ کے اُس چھکے سے بھی زیادشاندارجملہ کہہ دیاجوانہوں نے بھارت کیخلاف فائنل میچ کی آخری گیندپرجب میچ جیتنے کیلئے چارسکوردرکارتھے چھکامارکرہاتھ سے نکلامیچ پاکستان کے نام کردیاتھایہی نہیں انہوں نے وزیراعظم پاکستان کو دعوت بھی دی کہ میرے ساتھ ایک ملاقات کر لیں،میرے پاس بہت آئیڈیاز ہیں ایک ایسی سوچ بھی ہے کہ پورے پاکستان کا قرضہ بھی اُتر جائے اوربھیک مانگنے سے بھی بچ جائیں۔

آج اُن تمام محب وطن پاکستانیوں کی جانب سے جاویدمیاں دادکوسلام پیش کرتاہوں جوسمجھتے ہیں کہ ہمیں بھیک نہیں مانگنی چاہے اوریہ اُمیدبھی کرتاہوں کہ قوم جاوید میاں دادکے اس سوال کوکبھی فراموش نہیں کرے گی کہ ملک کو کھانے والے نکل گئے، ہماری قسمت میں مانگنا ہی رہ گیا ہے،اس سوال کوفراموش کرنے کی بجائے ہرایک کی زبان پر ہوناچاہے کیوں کہ سوال توبنتاہے جوقومیں درپیش چیلنجزکے حل تلاش کرنے کی بجائے عارضی طورپرکہیں منہ چھپانے کی کوشش کریں اورسخت سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی بجائے خاموشی اختیارکریں اُن کے مقدرمیں بھیک مانگناہی رہ جاتاہے اورایسی قومیں کبھی منظم نہیں بن پاتیں منظم نہ ہونے کی صورت میں کوروناوائرس جیسی وباکامقابلہ تودورکی بات دفاع بھی ممکن نہیں۔

بدقسمتی سے جس وقت دنیاکی قیادت کورونا ٹیسٹ اورعلاج ومعالجے کے سامان تلاشنے اورتیارکرنے میں مصروف ہے،آئندہ نسلوں کی تعلیم وتربیت کے متعلق سوچ رہی ہے کوروناوائرس کے سبب بدلتے عالمی منظرنامے کے مطابق نئے روزگارکے مواقع تلاش کررہی ہے ہم فقط بھیک مانگ رہے ہیں،آخرمیں پاکستانی قوم کے نام سوال کہ کیاریاست بھیک مانگ کرچلائی جاسکتی ہے؟کوروناوائرس کبھی ختم ہوگاکہ نہیں کوروناوائرس کے پھیلائومیں کب کمی آئے گی یہ باتیں کسی کے علم میں نہیں توپھرہمیں بتایاجائے کہ کب تک بھیک مانگ کرکام چلایاجاسکتاہے؟ لوگ کب تک فنڈدے سکتے ہیں؟ایسے دیگرکئی سوالوں کے جواب تلاش کرنالازم ہیں اورجب سمجھ آجائے توسوال اُٹھانابھی قومی فریضہ ہے۔

جواب چھوڑ دیں