کورونا وائرس، الزام تراشی اور سیاسی مفادات

کورونا وائرس کی تباہ کاریاں عالمی سطح پر بدستوری جاری ہیں۔ دنیا ابھی تک عالمگیر وبا سے نمٹنے کے لیے متفقہ لائحہ عمل نہیں اپنا سکی ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ  وبا سے متعلق غیر مصدقہ معلومات ،افواہوں اور فیک نیوز کا سلسلہ بھی زور پکڑتا جا رہا ہے۔ عالمی طاقتوں کے درمیان اختلاف رائے کے باعث صورتحال بہتر ہونے کے بجائےمزید سنگین ہو رہی ہے۔امریکا سمیت چند مغربی ممالک انسداد وبا کے لیےعالمی تعاون کو آگے بڑھانے کے بجائے بدستور چین کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

اس نازک صورتحال میں ایک جانب جہاں اموات اور متاثرہ مریضوں کی تعداد میں ہوشربا اضافہ ہو رہا ہے ، طبی عملے کو لازمی درکار حفاظتی ساز وسامان کی کمی کا مسئلہ درپیش ہے، ترقی پزیراورغریب ممالک میں مریضوں کی تشخیص ایک بڑا چیلنج ہے ، وہاں دوسری جانب چند بااثر ممالک اور سیاستدانوں کی توجہ کا نکتہوائرس کے ماخذ  کی کھوج اور چین پر الزام تراشی ہے۔ الزام تراشی پر مبنی ایسے رویوں کی ایک وجہ تو سیاسی مفادات کا حصول ہو سکتا ہے ، دوسری وجہ انسداد وبا میں اپنی تساہلی اور ناکامی کا ملبہ دوسروں پر ڈالتے ہوئے عوام کی توجہ ہٹانے بھی ہو سکتا ہے۔

ایسے اقدام  عارضی  طور پر  سیاسی مقاصد کے لیے  تو فائدہ مند ہو سکتے ہیں لیکن اگر طویل المدتی اعتبار سے دیکھا جائے تو   عالمگیر عدم تعاون کی بدولت وائرس کو مزید مضوط کیا جا رہا ہے ۔ڈبلیو ایچ او کے سربراہ نے زبردست کہا کہ نوول کوروناوائرس اس قدر خطرناک اور چالاک وائرس ہے جو موجودہ صورتحال میں ممالک کے درمیان باہمی اختلافات اور تنازعات کا  بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی جڑیں مضبوط کر رہا ہے۔

موجودہ وبائی صورتحال میں چین اورامریکا کے درمیان تعاون کی اہمیت سےانکار نہیں کیا جا سکتا ہے بالخصوص ویکسین کی تیاری،انسداد وبا سے متعلق معلومات و تجربات کے تبادلے،کمزور طبی نظام کے حامل ممالک کو امداد کی فراہمی اور سب سے بڑھ کر شدید مندی کا شکار عالمی معیشت کی بحالی، یہ وہ تمام عوامل ہیں جو چین امریکا تعاون کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں ۔امریکا میں تو میڈیا سمیت کئی حلقے صدر ٹرمپ کے چین مخالف رویے کو آئندہ صدارتی انتخابات میں کامیابی کے لیے ” چائنا کارڈ” کا استعمال قرار دے رہے ہیں۔ پہلے چین پر معلومات کو پوشیدہ رکھنے کے الزامات تسلسل سے سامنے آئے اور اب تو چین پر مقدمات دائر کرنے کی باتیں بھی سامنے آرہی ہیں ۔چین اس تمام الزام تراشی کے جواب میں اپنی توجہ انسداد وبا کے ساتھ ساتھ  اقتصادی سماجی بحالی پر مرکوز کیے ہوئے ہے۔

حال ہی میں معروف طبی جریدے ” دی لانسیٹ” نےایک مضمون میں چین کے انسداد وبا کے اقدامات اور ایک قلیل عرصے میں وبا پر موئثر  کنٹرول  کو دیگر دنیا کے لیے حوصلہ افزا قرار دیا ۔ اس سارے عمل میں مریضوں کی ابتدائی تشخیص، متاثرہ افراد سے رابطے میں رہنے والے افراد کی بر وقت کھوج اورعوامی رویے اہمیت کے حامل رہے۔دوسرا آج کے سائنس و ٹیکنالوجی کے دورمیں معلومات کو پوشیدہ رکھنا بھی اتنا آسان نہیں رہا ہے،الزام تراشی کے جواب میں سائنس اور شواہد  موجود ہیں جن سے باآسانی حقائق تک رسائی ممکن ہے۔

دنیا بھر میں ماہرین اس وقت نوول کورونا وائرس سے متعلق تحقیق کر رہے ہیں اور  ڈبلیو ایچ او سمیت دیگر مستند ماہرین دنیا کو یہ بھی بتا چکے ہیں کہ کووڈ۔19 کسی لیبارٹری کی پیداوار نہیں ہے بلکہ قدرتی  ہے۔اس سے پہلے چین پر یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ وائرسووہان کی ایک تجربہ گاہ میں تیار کیا گیا ہے اور اسے ایک حیاتیاتی ہتھیار سمجھا جا رہا تھا مگر  ماہرین نے ان گمراہ کن دعووں کی نفی کر دی ہے۔

اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ غیر جانبدارسائنسی ماہرین غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے انسانی زندگیوں کو مزید خطرات میں نہیں ڈال رہے ہیں۔چین کی کامیابیوں کا ادارک نہ کرنا کسی ملک یا قوت کا ذاتی سیاسی تعصب تو ہو سکتا ہےمگر حقائق کوجھٹلایا نہیں جا سکتا ہے۔ڈبلیو ایچ او نے چین کےاقدامات کی تعریف کی تواسے امریکی عتاب کا سامنا کرنا پڑا اورامریکا نےعالمی ادارے کے لیے اپنی امداد معطل کردی۔ ایسے رویےاجتماعی کے بجائے انفرادی ردعمل اور زاتی پسند  ،ناپسند کا مظہر ہیں جو کسی طور پر وبا کی روک تھام کے عالمی تعاون کے لیے سودمند نہیں ہیں۔

الزام تراشی اور سیاست سے ہٹ کرپاکستان سمیت دنیا بھر میں کئی ممالک نے انسداد وبا کے لیے چین کے کامیاب ماڈل کی پیروی کرتے ہوئے سخت اقدامات اپنائے  جن کے حوصلہ افزا نتائج بھی سامنے آئے ہیں۔ایسے اقدامات میں شہروں کا لاک ڈاون،گھروں سے نکلتے وقت ماسک کا لازمی استعمال، کاروباری اداروں کی بندش،پبلک ٹرانسپورٹ کی معطلی قابل زکر ہیں۔یورپ میں وبا سے شدید متاثرہ ممالک اٹلی اور اسپین میں کچھ تاخیر سے ردعمل ظاہر کیا گیا جس کے خوفناک نتائج برآمد ہوئے۔

برطانیہ اورامریکا میں دیگر ممالک کی نسبت آغازمیں نرم پالیسیاں اپنائی گئیں جس کا خمیازہ اب دونوں ملک بھگت رہے ہیں۔ برطانیہ میں حالیہ عرصے میں جب طبی ماہرین سے کہا گیا کہ حفاطتی سامان کی کمی کے پیش نظر وہ بعض حفاطتی ملبوسات کو دوبارہ استعمال کرسکتے ہیں توطبی تنطیموں نےاس نظریے کو رد کرتے ہوئے حکومتی اقدامات اور اہلیت کی بابت سوالات اٹھائے۔امریکا اور برطانیہ میں متاثرہ مریضوں اور اموات کی تعداد  ظاہر کرتی ہے کہ یا تو ان  دونوں ترقی یافتہ ممالک کو اپنے مضبوط طبی نظام پر ناز تھا یا پھر انہوں نے نوول کورونا وائرس کی سنگینی کا غلط اندازہ لگایا۔

نوول کورونا وائرس سے سماج کے ساتھ ساتھ  عالمی معیشت بھی بدترین مندی کا شکار ہے۔تیل کی قیمتیں کمی کی نئی تاریخی سطحوں کو چھو چکی ہیں۔بے روزگاری اورغربت کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔صنعتی پیداوار جمود کا شکار ہےاورلوگوں کے معمولات زندگی بری طرح مفلوج ہو چکے ہیں۔ 2008 کے عالمی اقتصادی بحران کے برعکس موجودہ اقتصادی بدحالی کے کوئی معاشی اسباب بھی نہیں ہیں۔

ناول کورونا وائرس کے باعث عالمی سماج اور معیشت کو لاحق سنگین خطرات کے تناظر میں انسانیت کے پاس   ” چوائس” کیا ہے۔ ٹھیک ہے دنیا میں وبائی تباہ کاریوں کا درست اندازہ نہیں لگایا جا سکا لیکن اب اپنا سر پیٹنے کے بجائے آگے تو بڑھنا ہی ہے ۔سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کیسنجر کے مطابق کورونا وائرس کی وبا ہمیشہ کے لیے “ورلڈ آرڈر” تبدیل کر کے رکھ دے گی  ۔اس صورت میں عالمگیر سطح پر انسانی جانوں کے تحفظ  سے ایک نئے نظام کی تشکیل ہی ممکن ہے۔کورونا وائرس نے عالمگیریت اور پوری انسانیت کے لیے مشترکہ مستقبل کے حامل معاشرے کے تصور  کو نئی اہمیت دی ہے۔

کورونا وائرس نے امیر ، غریب کی تفریق ختم کرنا سکھائی ہے  اور یہ بھی عملی طور پر بتا دیا ہے کہ پوری انسانیت ایک سماج کی مانند ہے جس کے دکھ ،سکھ سانجھے ہیں اور تعاون ہی واحد درست انتخاب ہے جس کی بدولت ہر آزمائش کا سامنا کیا جا سکتا ہے۔یہ وقت ایک دوسرے پر الزام تراشی اور سیاسی فائدے کا نہیں ہے بلکہ ذمہ دارانہ عملی رویوں سے انسانیت کے تحفظ کا ہے۔ وائرس کو   انسانی کمزوریوں سے مزید فائدہ اٹھانے سے فوری طور پر  روکنا ہو گا۔آج اگر عالمی تعاون اور متفقہ لائحہ عمل سے اس وائرس کا راستہ نہ روکا گیا تو  یہ پوری انسانیت کی شکست ہو گی  اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک سوالیہ نشان…؟؟؟

جواب چھوڑ دیں