بدی کو ٹھہرنے نہ دیا جائے

ابن کثیر اپنی کتاب البدائیہ والنہائیہ میں روایت کرتے ہیں کہ سن 478 ھجری میں شام، عراق اور حجاز کے علاقوں میں طاعون کی ایسی وباء پھیلی کہ جس میں انسان ،بیشمار چوپائے اور یہاں تک کہ جنگلی جانور بھی لقمہ اجل بن گئے . اس وباء کے ساتھ تیز گرم ہواؤں کا طوفان بھی آیا جس کی وجہ سے بیشمار درخت جڑوں سے ہی اکھڑ گئے. لوگوں کو ایسے محسوس ہوا کہ جیسے قیامت آگئی ہو. ابن کثیر لکھتے ہیں کہ اس وبائی بیماری کا مقابلہ کرنے کے لیے اس وقت کے عباسی خلیفہ “المقتدی باامراللہ” نے حکم جاری کیا کہ :سب لوگ ایک دوسرے کو نیکی کا حکم دیں اور گناہ سے روکیں. روایت میں ہے کہ پھر میوزک کے تمام آلات کو توڑ دیا گیا، شراب کی بوتلیں پھینک دیں گئیں یا توڑ دیں گئیں ریاست میں موجود تمام بدکاروں کو جلاوطن کردیا گیا. جسکے تھوڑے ہی عرصے بعد بیماری ازخود ختم ہوگئی. حوالہ کتاب :(البدایہ والنہایہ6 13/21)

فی زمانہ تاریخ کے اس واقعے میں کافی غور و فکر کا سامان موجود ہے ۔ اگر معاشرہ برائیوں کی آماجگاہ بن جائے ، گناہوں کو قبول کرلیا جائے اور معاشرے میں ان کو پنپنے کا موقع ملتا رہے تو یہ اس بات کا نتیجہ ہے کہ لوگ اپنے ایک اہم فریضے امر بالمعروف ونہی عن المنکر سے غافل ہیں ۔ کچھ عرصہ سے ہمارے معاشرے میں ایسی سوچ پروان چڑھائی جا رہی ہے کہ مذھب ہر ایک کا انفرادی معاملہ ہے لہذا کوئی بھی جو طرزعمل اختیار کر رہا ہے وہ اس کی مرضی (own choice) ہے اس میں روک ٹوک کرنا اس کی خلوت (privacy) میں مداخلت کے مترادف ہے۔ حالانکہ بحیثیت مسلم ہمارا دین انفرادی اوراجتماعی دونوں حوالوں سے ہمارا راہنما اور طرز زندگی ہے،ہمارے دین میں ایسی کسی پرائیویسی کی گنجائش نہیں ہے کہ جس کی بنیاد پر ہم یہ اجازت دے سکیں کہ ہمارے معاشرے میں ایسے اعتقاد واعمال کا رواج عام کیا جائےجو برائیوں کی داغ بیل ڈالیں۔ بقول مولانا مودودی رحمۃعلیہ اعتقاد و عمل کا فساد وبائی امراض جیسا ہے۔ اگر مریضوں کی بر وقت دیکھ بھال ہو گئی تو مرض وبائے عام نہیں بن سکتا لیکن اگر طبیب غافل ہوں اور حفظان صحت کا شعبہ لا پروا، تو وبا پوری آبادی کو گھیر لیتی ہے” ۔ (تنقیحات صفحہ 165)

اگرچہ حکمران غافل اور ادارے لاپروا ہیں لیکن مسلم امہ کے ایک فرد کی حیثیت سے بنی کریم ؐ کا یہ فرمان مشعل راہ ہے کہ “جب تم برائی کو ہوتا دیکھو تو ہاتھ سے روکو اگر یہ نہ کرسکو تو زبان سے اور اگر یہ بھی نہ کرسکو تو دل میں برا سمجھو لیکن یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے”(مسلم ۔ کتاب البیان۔ باب ۲۰) لہذا یہ واضح ہے کہ قوم کی اخلاقی اور دینی حالت کی درستگی کے لئے ایسے جذبے کی ضرورت ہے کہ ہر شخص کے دل میں بدی اور گناہ سے خود بھی بچنے اور دوسروں کو بھی بچانے کی خواہش موجود ہو ۔ اگر ایسا جذبہ معدوم یا موہوم ہو جائے تو دین و اخلاق کے اعتبار سے قوم کی تباہی تو یقینی ہے ہی اللہ کا غضب بھی بھڑکتا ہے،کیونکہ اللہ کا منشاء یہی ہے کہ بدی کو ٹھہرنے نہ دیا جائے۔

1 تبصرہ

  1. بہترین تحریر ، قابل غور نکتہ ہے کہ برائیاں بھی وبائی امراض کی طرح ہوتی ہیں

جواب چھوڑ دیں