کورونا اور معیشت

دنیا میں کورونا وائرس کے مصدقہ متاثرین کی17 لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے جبکہ اب تک اس سے ایک لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں کہ ہر نمبر کے پیچھے ایک نام اور ایک خاندان ہے جو پھر کبھی پہلے جیسا نہیں ہو گا جو لوگ اس دنیا سے اس وائرس کی نظر ہوگئے وہ تو کبھی واپس نہیں آسکتے یہ وائرس ایک ہوا کے جھونکے کی طرح انسانی جسم میں داخل ہوا اور انسان کو کچھ ہی دن میں نگل گیا لاشوں کے انبار لگادیے دن رات اموات کی گنتی جاری ہے۔

دوسری جانب امریکا اور چین کے درمیان وائرس کو لیکر لفظی جنگ جاری ہے یہ وائرس کسی انسان یا جاندار کی شکل میں نہیں نمودار ہوا بلکہ اسکا اندراج انسانوں کے اندر ہوا اور دیکھتے دیکھتے پوری دنیا میں کورونا نے اپنے پنجے گاڑ لیے دنیا بھر کے مختلف ممالک میں کورونا وائرس کے 11 لاکھ 55 ہزار 720مریض اسپتالوں میں زیرِعلاج ہیں جن میں سے 49 ہزار 123مریضوں کی حالت تشویش ناک ہے جبکہ 3 لاکھ 72 ہزار 740 افراد صحت یاب ہو چکے ہیں107,520ہلاک افراد کی تعداد ہےلاک ڈاؤن اورحکومتی پابندیوں کی وجہ اسٹاک مارکیٹیں زبوں حالی کا شکار ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق کورونا کے نتیجے میں عالمی جی ڈی پی میں تقریباً 2.7 ٹریلین ڈالر کا نقصان ہوا کورونا وائرس پھیلنے سے پیدا ہونے والی عالمی معیشت میں سست روی پر کم سے کم ایک ٹریلین ڈالر لاگت آنے کا امکان ہے۔ایشیائی ترقیاتی بینک نے اپنی تخمینہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سےعالمی معیشت کو 4.1 ٹریلین ڈالر تک کا نقصان ہو سکتا ہے۔2008ء کے عالمی معاشی بحران کے بعد سے یہ سٹاک مارکیٹس کی سب سے بڑی گراوٹ ہے پاکستان کی سٹاک مارکیٹ پہلے ہی مندی کا شکار ہے یہ 30سال میں پہلی مرتبہ ہوگا جب عالمی سطح پرغربت میں اضافہ ہوگا سود کی شرح سے لے کر تیل کی قیمتوں تک، عالمی معیشت کے دیگر شعبوں میں بھی اس کا اثر مرتب ہوا ہے دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹوں میں سرمایہ کاروں کے کھربوں ڈالر ڈوب چکے ہیں۔اس نے دنیا کے بہت بڑے حصے کو متاثر کیا ہے اور عالمی معیشت کو تہہ و بالا کر ڈالا ہے۔

اِس وائرس سے لاکھوں انسان شدید اذیت میں گھرے ہوئے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں وائرس کےعلاج یا ویکسین کےلیے ٹائم لائن کے حوالے سے کوئی تجربہ نہیں اورنہ ہم یہ طے کرسکتے ہیں کہ دنیا کی معیشت اس سے کتنی تباہ ہوگی لیکن یہ طے ہے کہ دنیا کی معیشتوں کو واپس آنے میں بہت زیادہ وقت لگے گا۔ کئی ممالک کی حکومتوں اوراسٹیٹ بنکس نے امدادی پیکجز متعارف کرائے ہیں، یہ ممالک اقتصادی پالیسیاں بھی بنارہے ہیں، لیکن بحران کی شدت زیادہ ہے امریکا نے اپنے اور معیشت کو بچانے کےلیے 2 ٹریلین ڈالرز کا پیکیج دیا ہے، اس کے باوجود وہاں ایک کروڑ افراد اپنی نوکریاں کھو چکے ہیں۔ برطانیہ، یورپ، بھارت اپنی معاشی سرگرمیاں چلانے کےلیے ہاتھ پیر ماررہے ہیں۔

کورونا وائرس سے نمٹنے کےلئے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈز(آئی ایم ایف) آئندہ ہفتے پاکستان کو ایک اعشاریہ چار ارب ڈالر کے فنڈز جاری کرے گا۔کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے چند روز قبل وفاقی کابینہ نے 1200 ارب روپے کے ریلیف پیکج کی منظوری دی تھی وزیرِاعظم کے حکم کے مطابق غریبوں میں 12ہزار روپے فی خاندان کے حساب سے اڑھائی ہفتے میں 144ارب روپے تقسیم کیے جائیں گے تاہم انھوں نے اس امداد کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ چار مہینوں کے لیے ایک خاندان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے یہ رقم بہت کم ہے۔ ایک مہینے میں تین ہزار روپے کے ذریعے ایک خاندان کی کفالت بہت مشکل ہے۔

یورپ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں زندگی منجمد ہوتی جا رہی ہے ساتھ ہی یورپی یونین کورونا وائرس کی وباء کی لپیٹ میں آئے دنیا کے غریب ممالک کے لیے 15بلین یورو فنڈمختص کرے گا اس فنڈ سے ان ممالک کی مدد کی جائے گی جہاں کا نظام صحت کوروناوائرس سے لڑنے کے لئے کمزور ہے جبکہ اس فنڈ سے طویل مدتی اقتصادی بحالی کے لیے بھی مدد کی جائے گی۔پاکستان میں بھی کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والے معاشی بحران سے لاکھوں افراد کے بیروزگار ہونے کے خدشات ہیں موجودہ رمضان کورونا سے پیدا شدہ مشکل ترین حالات میں آ رہا ہے جس میں عوام کی قوتِ خرید بالکل جواب دے چکی ہے۔

لاکھوں افراد پہلے ہی بیروزگاری کے سبب ان حالات کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے اور ماہِ مبارک رمضان کی آمد میں بھی حالات یہی رہے تو روز کے کمانے والوں کے لیے گزارا کرنا بہت مشکل ہوجائے گا اس کے لیے حکومت کو مزید فنڈز عوام کو دینا ہونگے حکومت کے ساتھ صاحبِ حیثیت حضرات کو بھی آگے بڑھ کر ملک کے غریب اور دیہاڑی دار طبقے تک رسائی حاصل کر کے انکی مدد کرنا ہوگی تاکہ خوراک کی فوری تقسیم ممکن ہو سکے ورنہ لوگ بھوک سے مرنے لگیں گے۔

پوری دنیا کو اس وقت زیادہ ڈاکٹرز، نرسز اور پیرا میڈکس کی ضرورت ہے پوری دنیا ساری قوم، فوج اور انتظامیہ مل کر اس صورتحال اور اس وباء کا مقابلہ کریں گے اور امید ہے انسانی جانیں بچانے میں کامیاب ہونگے اور جلد اس سے نجات حاصل کرینگے بس امید کا دامن تھامے رکھنا ہے۔

جواب چھوڑ دیں