بے یار و مددگار خواجہ سراؤں کا شکوہ

آئسولیشن ہمارے لئے نیا نہیں ،آپ آج اسکا احساس محض کرونا وائرس کی وجہ سے کر رہے ہیں لیکن ہمیں دیکھیں ہم تو شروع سے آئسولیشن میں ہیں ۔ کبھی کسی نے ہمیں سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ سب سے زیادہ نا انصافی تو خود ہمارے والدین نے کی جنہوں نے ہمیں خود قبول نہیں کیا تو سوسائٹی کیا کرے گی؟ آج آئسولیشن کی بات کی جا رہی ہے ۔ ساری دنیا آئسولیشن میں رہ رہی ہے جبکہ آپ کے پاس بہن بھائی، نوکری تعلیم ، معاشرے میں مقام ہے ، لوگوں کے ساتھ تعلقات ہیں ۔ آپ کے پاس غربت کی مسائل نہیں ہیں ۔ روپیہ پیسہ ہے تو آپ کئی دن اس طرح رہ سکتے ہیں۔

شکر کا مقام ہے آپ سب کے لئے،ورنہ آپ ہمیں دیکھیں اور نہ صرف دیکھیں بلکہ ہمارے جذبات کو محسوس کریں ہمیں تو آپ لوگوں نے پہلے ہی آئسولیشن پر مجبور کیا ہوا ہے۔ اس لئے ہم پہلے ہی سے آئسولیشن میں رہ رہے ہیں کیونکہ کوئی ہمیں قبول نہیں کرتا ہے ہمارے پاس تعصب کتنا ہے نہ ہمارا گھر، نہ بہن بھائی ، نہ تعلیم ، نہ نوکری نہ گھر،نہ لوگوں سے اچھے مضبوط محفوظ تعلقات پھراوپر سے ہمیں کوئی عذاب کہتا ہے، کوئی گناہ ، اتنے مسائل کے ساتھ ہم رہ رہے ہیں ۔ غربت اور بے روزگاری کیا کم بات ہے ؟ پھر جنسی ہراسمنٹ کے مسائل الگ ، ان تمام مسائل کے ہوتے ہوئے ایک کرونا ہمارے لئے اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے ۔

اس خواجہ سرا کی باتوں نے مجھے حیران کر دیا وہ کسی کو انٹرویو دے رہی تھی ۔ انٹرویو لینے والی ذات بھی اپنے آپ کو پوشیدہ کئے ہوئے تھی جس کے بارے میں اس نے بتایا کہ دیکھیں آپ اپنی مثال سامنے رکھیں ۔ آپ مجھ سے پبلک میں بات کرتے ہوئے شرمندگی اور گھبراہٹ محسوس کر رہے ہیں تو بتا ئیں ہم کہاں جائیں ؟ کس سے شکایت کریں ؟ دکانیں بند ، بازار بند ، سڑکیں ویران، بندے پریشان ، ایسے میں ہم کہاں جائیں اور کیسے اپنا گذر اوقات کریں ؟ اس کے تجربے اور مشاہدے سے میں بڑی متفکر ہوئی کہ واقعی ہم کس دنیا میں رہ رہے ہیں! اس کے کہنے کے مطابق ہم کہاں سے کمائیں کہاں سے کھائیں ؟

اس معاشرے میں نہ انصاف ہے ، نہ عدل ، نہ ہی انسانیت ہے ، نہ شعور ہے ۔ اتنی چیزوں کے اندر ہم کرونا کو کتنی کم اہمیت دینگےاگر ہمارے اندر اسلام آجائے، انسانیت آجائے تو ہمارے مسائل خود حل ہوجائیں گے۔ انہیں پتا چل جائے گا کہ ہم ایک سچے مسلمان ہیں ، انہیں اک دن مرنا ہے اور حساب بھی دینا ہے ۔ جتنے بھی یہ غریب لوگ ہیں اور ہم جیسے لوگ ہیں ان کا امیون سسٹم اتنا مضبوط ہے کہ گندگی کھا کھا کر نہ جانے کیا کیا کھا کر اتنے مضبوط ہوگئے ہیں کہ کرونا انکا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔ یہ تو ان کیلئے آیا ہے جنہوں نے ظلم و بربریت کا بازار گرم کیا ہوا ہے ،جتنے بھی امیر لوگ ہیں جو لوگوں کا مال کھا کر جس کو چاہیں قتل کردیں، جس کا چاہیں حق مار لیں ۔ حرام مال کھا کھا کر ان کا امیون سسٹم بھی خطرناک کمزور ہے ۔

مرنا تو انہوں نے ہے جو دنیا میں خدا بنے پھرتے ہیں جس کو چاہے بند کردیں ۔ مار دیں وہ جو چاہیں کریں لوگوں کو ذلیل کریں رسوا کریں ۔ جو دنیا میں حاکم عادل بنے پھرتے ہیں تو اللہ نے اس کو دکھا نا ہے ، اوقات یاد دلائی ہے کہ تم وہی گندہ قطرہ پانی کا ، ذرا بڑے ہوتے ہو ، سمجھدار ہوتے ہو تو اکڑ جاتے ہو، اپنی اوقات بھول کر ظلم و زیادتی پر اتر آتے ہو ۔ اصل بات یہ ہے کہ دل دکھے ، ستائے ہو ئے لوگ ہی سچی اور کھری بات کرتے ہیں ۔ ان کے لفظوں میں دکھ بھرا ہوتاہے مگر لوگ نہیں سمجھتے اللہ کو کیا جواب دینگے؟ موت کو قریب دیکھ کر لوگ ڈرنے لگتے ہیں اور اچھا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس کسمپرسی میں بھی ان ہی کی کمیونٹی یعنی خواجہ سرا ؤں کو بھول جاتے ہیں۔ وہ بھی تو انسان ہیں گورنمنٹ کا اور تمام لوگوں کا فرض ہے کہ انہیں بھی اس ملک کے معزز شہری مانتے ہوئے انہیں یکساں حقوق دیں ۔ ان کی بھی عزت تو قیر، جان مال کی حفاظت کریں اور ان کی ضروریات کو بھی مقدم رکھیں ۔

انسانیت سوز سلوک کرکے انہیں مزید رنجیدہ نہ کریں بقول اس خواجہ سرا کا کہنا تھا کہ اپنی اوقات یاددلانے کرونا آیا ہے اور اسی طرح کی کوئی اور چیز ایسی آئے جو انہیں ہماری تکالیف اور مجبوریوں کا احساس دلوائے کہ ہم کس طرح معاشرے کے ٹھکرائے ہوئے کرونا سے بھی خطرناک شے سمجھے جاتے ہیں اور یوں ہمارے حق مار کے ہمارے دل کی کرچیاں کرتے ہیں نہ گھر بار، نہ بہن بھائی ،نہ رشتہ دار ہر کوئی مذاق اڑائے ،ناجائز فائدہ اٹھائے، بڑا ستائےاوپر سےاترائے، یہ تو انسانیت نہ نہ ہوئی۔ کرونا اسی لئےآیا کہ انہیں اپنی بی غیرتیوں کا احساس دلائے کہ انہیں بھی مرنا ہے ۔ کرونا تو ہمارے لئے بہت چھوٹا لفظ ہے ہم تو اس سے بھی زیادہ اس معاشرے کی زیادتیوں کے مارے اپنی اپنی جگہ آئسولیٹ ہیں۔ بس ہمیں سمجھنے میں ہمارے ہی اسلامی ملک کے اسلامی بھائی بہت زیادہ اپ سیٹ ہیں ۔ اللہ پاک ہمیں اپنے عذاب سے اور لوگوں کی بداعمالی ، بدنیتی سے، ظلم سے نجات دلائے کہ وہ ہمیں جانوروں جتنا حق تو کیا، جینے کا حق بھی نہیں دیتے ۔

ہر وقت ہمیں ہر جگہ بے موت مارتے ہی رہتے ہیں اور واقعی میں سوچنے لگی کہ ان کے ساتھ بہت زیادہ زیادتی ہوئی ہے ۔ ان کے ماں باپ کو پہلا قدم اٹھا نا ، انہیں اپنا نا ، انہیں انکے ذاتی انسانی حقوق دینا اولین ذمہ داری ہے  یہ بھی معاشرے کا فعال طبقہ ہے اگر صحیح معنوں میں انکی تعلیم و تربیت کی جائے دین سکھایا جائے اور اپنے سے جوڑ کر حق کے ساتھ سچ کے ساتھ احترام انسانیت کے تمام تر حقوق ادا کرتے ہوئے انکی صلا حیتوں سے کام لیاجائے نوکریاں دی جائیں تا کہ یہ خود اعتمادی سے عزت کی روٹی کھائیں اور کسی پر بھی بوجھ نہ بنیں اور نہ معاشرے کے لئے بدنما شکل اختیار کریں ۔

انہیں آج ہرطرح کے سپورٹ کی زیادہ ضرورت ہے، ہر طرح کی امداد کے یہ بھی مستحق ہیں۔ ہزار دشواریوں میں یہ لوگ کیسے رہتے ہونگے ؟ حکومتی اداروں ،انسانی حقوق کی تنظیموں کو ان کا بھی اتنا ہی خیال ہونا چاہئے جتنا ایک معزز پاکستانی شہری کا ۔ حکومت کو ماں کی طرح انہیں اس آفت میں سنبھالنا چاہئے ورنہ مظلوموں کی فریاد قیامت صغرا کرنے کیلئے کافی ہے ،اللہ ہمیں اس وقت سے بچائے ۔ آمین ..

جواب چھوڑ دیں